گہری شاموں کے اُداس لمحے
ویران راہوں کے کُچھ چراغ
کسی نقشِ پا کے منتظر
دھیرے دھیرے سُلگ رہے ہیں
تنہائیوں کا سفر شُروع ہے
جُدائیوں کی ڈگر سے آگے
خود فریب لمحوں کا دامن
اِک بے یقیں سی آرزو ہے
یہ وقت امر ہو چُکا ہے
زمین و فلک کے ساتھ رہنا
میری باتیں کہتے رہیں گے
زرد پتوں پہ جو لکھا تھا
ہوا...