صنم خانے
سچ یہ ہے کہ وہ غم بھی رہا شاملِ امروز
جس غم میں نہ تخلیق، نہ تعمیر، نہ پرواز
جو گنبدِ آفاق کی ہمرَاز رہی تھی
دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئی وہ آواز
اب سنگِ سُبک مایۂ زنداں بھی نہیں ہیں
آئینۂ زلف و لب و مژگاں تھے جو الفاظ
جس طبع کے دامن میں تھے اٹھتے ہوئے خورشید
وہ ڈوبتے مہتاب کی...