نتائج تلاش

  1. حسان خان

    جوش متولیانِ وقفِ حسین آباد سے خطاب

    لکھنؤ میں وقفِ حسین آباد ایک شاہی وقف ہے، جس کے غیور متولی حسین آباد اور آصف الدولہ بہار کے مقبروں میں محرم کی آٹھویں اور نویں کو بہت بڑے پیمانے پر چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں۔ محرم! اور چراغاں!!! آٹھویں کے چراغاں کی یہ شرمناک و غلامانہ خصوصیت ہے کہ اس شب کا 'کھیل تماشا' صرف 'صاحب لوگوں' کے لیے...
  2. حسان خان

    جوش اعترافِ عجز

    لوگ کہتے ہیں کہ میں ہوں شاعرِ جادو بیاں صدرِ معنیٰ، داورِ الفاظ، امیرِ شاعراں اور خود میرا بھی کل تک، خیر سے، تھا یہ خیال شاعری کے فن میں ہوں منجملۂ اہلِ کمال لیکن اب آئی ہے جب اک گونہ مجھ میں پختگی ذہن کے آئینے پر کانپا ہے عکسِ آگہی آسماں جاگا ہے سر میں اور سینے میں زمیں اب مجھے محسوس...
  3. حسان خان

    جوش نظامِ نو

    کھیل، ہاں اے نوعِ انساں، ان سیہ راتوں سے کھیل آج اگر تو ظلمتوں میں پا بہ جولاں ہے تو کیا مسکرانے کے لیے بے چین ہے صبحِ وطن اور چندے ظلمتِ شامِ غریباں ہے تو کیا چل چکی ہے پیشوائی کو نسیمِ باغِ مصر آج یوسف مبتلائے چاہِ کنعاں ہے تو کیا اب کھلا ہی چاہتا ہے پرچمِ بادِ مراد آج ہستی کا سفینہ وقفِ...
  4. حسان خان

    جوش منتخب رباعیات

    آتے نہیں جن کو اور دھندے ساقی اوہام کے بُنتے ہیں وہ پھندے ساقی جس مے کو چھڑا نہ سکا اللہ اب تک اُس مے کو چھڑا رہے ہیں بندے ساقی
  5. حسان خان

    جوش آئے ہیں دربارِ قربانی میں سقراط و مسیح (سلام)

    آئے ہیں دربارِ قربانی میں سقراط و مسیح ہاں بٹھا دو تخت کے نزدیک پائینِ حسین میرِ بزمِ آب و گل ہیں عاشقانِ بوتراب خسروانِ علم و دانش ہیں مجانینِ حسین اکبر و عون و محمد، قاسم و عباس و حر اللہ اللہ آب و تابِ عقدِ پروینِ حسین بحر کا ہر قطرہ وقفِ ظنِّ میزانِ فرات دہر کا ہر ذرہ زیرِ دامِ تخمینِ...
  6. حسان خان

    جوش آنسو اور تلوار

    کربلا کا گرم میداں، تمتماتا آفتاب کشمکش، ہلچل، تلاطم، شور، غوغا، اضطراب صورِ اسرافیل سے ملتا ہوا غوغائے جنگ برچھیاں، نیزے، کٹاریں، تیر، تلواریں، تفنگ غازیوں کا طنطنہ، بانگِ رجز کا دبدبہ طبل کی دوں دوں، کمانوں کے کڑکنے کی صدا آگ کی لپٹیں، شعاؤں کی تپش، گرمی کا زور اسلحہ کی کھڑکھڑاہت، لو کی...
  7. حسان خان

    جوش نفسِ مطمئنّہ

    تھے اک ایسے مقام پر حیدر کہ ہر اک آن جان کا تھا ضرر آپ کو تھی مگر نہ کچھ پروا آپ پر تھا مگر نہ کوئی اثر کیا اسے خوف، جو ہو شیرِ خدا کیا ڈرے جو ہو قاتلِ عنتر خوف کیا اس کے دل کو توڑ سکے جس نے توڑا ہو قلعۂ خیبر اس کے سینے میں کیا ہراس آئے جس کو کہتے ہوں نفسِ پیغمبر آپ کے ساتھ تھے حسین اس...
  8. حسان خان

    جوش ولادتِ رسول

    (یہ نظم حیدرآباد (دکن) کی ایک محفلِ میلاد کے لیے نہایت عجلت میں عین وقت پر کہی گئی تھی) اے مسلمانو! مبارک ہو نویدِ فتحِ باب لو وہ نازل ہو رہی ہے چرخ سے ام الکتاب وہ اٹھے تاریکیوں کے بامِ گردوں سے حجاب وہ عرب کے مطلعِ روشن سے ابھرا آفتاب گم ضیائے صبح میں شب کا اندھیرا ہو گیا وہ کلی چٹکی، کرن...
  9. حسان خان

    جوش انکشافاتِ توحید

    فسوں بدوش ہے کالی گھٹا اندھیری رات تمام ارض و سما کے چراغ ہیں خاموش فضاؤں پر نہ تلاطم، نہ بجلیاں، نہ گرج زمین پر نہ تبسم، نہ زمزمے، نہ خروش فرازِ عرش پہ سنجیدگی، دعا بر لب بساطِ خاک پہ دہشت، جلال در آغوش دواں ہے لشکرِ سود و زیاں، عناں بہ عناں رواں ہے قافلۂ کرب و کیف، دوش بدوش دماغ و دل...
  10. حسان خان

    جوش آدم کا نزول

    ذرہ ذرہ سے اٹھی اک تازہ موجِ زندگی آسمانوں نے علم کھولے زمیں نے سانس لی بھاپ بن کر چھائی میدانوں پہ روحِ بحر و بر دید کی خاطر پہاڑوں نے اٹھائے اپنے سر سنسنائی سینۂ فولاد میں تیغِ دو دم پتھروں میں کنمنائے ناتراشیدہ صنم خفتہ میدانوں میں شہروں کا تخیل جاگ اٹھا ایک پرتو سا در و دیوار کا پڑنے...
  11. حسان خان

    جوش خدا کی پہلی آواز

    اے مری تخئیل بن جا کائناتِ ہست و بود ہاں پہن اے جذبۂ ایجاد تشریفِ وجود اے عدم اٹھ گامزن ہو شکلِ موجودات میں اے مرے اجمال آ جا رنگِ تفصیلات میں ہاں مجسم حُسن ہو جا اے مرے دل کی ترنگ اے نویلی سادگی بن جا نگارِ آب و رنگ محملِ اسماء میں آ جا، لیلیِٰ وجہِ جمیل پردۂ اشکال میں چھپ جا مری روحِ...
  12. حسان خان

    فراز دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

    دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا کل گئے گزرے زمانوں کا خیال آئے گا آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا آس کب دل کو نہیں تھی ترے آ جانے کی پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا ذکر...
  13. حسان خان

    فراز چلو اُس بت کو بھی رو لیں

    چلو اُس بت کو بھی رو لیں جسے سب نے کہا پتھر مگر ہم نے خدا سمجھا خدا سمجھا کہ ہم نے پتھروں میں عمر کاٹی تھی کہ ہم نے معبدوں کی خاک چاٹی تھی کہ پتھر تو کہیں دیوارِ زنداں اور کہیں دہلیزِ مقتل تھے کبھی سرمایۂ دامانِ خلقت اور کبھی بختِ جنوں کیشاں کبھی ان کا ہدف دکانِ شیشہ گر کبھی صورت گرِ ہنگامۂ...
  14. حسان خان

    فراز صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے

    صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے اس شہرِ غم کو دیکھ کے دل ڈوبنے لگا اپنے پہ ہی سہی کوئی ہنستا دکھائی دے اے صدرِ بزمِ مے تری ساقی گری کی خیر ہر دل بسانِ شیشہ شکستہ دکھائی دے گر مے نہیں تو زہر ہی لاؤ کہ اس طرح شاید کوئی نجات کا رستہ دکھائی دے اے چشمِ یار...
  15. حسان خان

    فراز آئینہ

    تجھ سے بچھڑا ہوں تو آج آیا مجھے اپنا خیال ایک قطرہ بھی نہیں باقی کہ ہوں پلکیں تو نم میری آنکھوں کے سمندر کون صحرا پی گئے ایک آنسو کو ترستی ہے مری تقریبِ غم میں نہ رو پایا تو سوچا مسکرا کر دیکھ لوں شاید اس بے جان پیکر میں کوئی زندہ ہو خواب پر لبوں کے تن برہنہ شاخچوں پر اب کہاں مسکراہٹ کے شگوفے...
  16. حسان خان

    فراز تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں

    تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے کہ اب کبھی اسے الزامِ نارسائی نہ دوں مری بقا ہی مری خواہشِ گناہ میں ہے میں زندگی کو کبھی زہرِ...
  17. حسان خان

    فراز کُشان بی بی

    تو جب بمبریت کے قاتل پہاڑوں کی صلیبوں سے اتر آئے تو یہ جانا کہ ہم دشتِ عدم کو پار کر آئے ہر اک کے پاؤں چھلنی جسم شل اعضا تھکن سے چور لیکن سب ہراسِ مرگ سے بے جان۔۔۔ بے حس تھے سبھی یوں زرد رو جیسے ابھی تک آسمانوں کے سفر سے لوٹ کر روحیں نہیں آئیں چلو ہم سب کے سب زندہ ہیں جیسے بھی ہیں یکجا ہیں ضیا،...
  18. حسان خان

    فراز گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے

    گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے تھامے رہو گے جسم کی دیوار تابکے یہ زلزلہ تو روح کے اندر لگے مجھے گر روشنی...
  19. حسان خان

    فراز سلامتی کونسل

    پھر چلے ہیں مرے زخموں کا مداوا کرنے میرے غمخوار اُسی فتنہ گرِ دہر کے پاس جس کی دہلیز پہ ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں جب بھی پہنچا ہے کوئی سوختہ جاں کشتۂ یاس جس کے ایوانِ عدالت میں فروکش قاتل بزم آرا و سخن گستر و فرخندہ لباس ہر گھڑی نعرہ زناں 'امن و مساوات کی خیر' زر کی میزان میں رکھے ہوئے انسان کا ماس...
  20. حسان خان

    قمر جلالوی آمد ہے ابنِ حیدرِ گردوں وقار کی (مرثیہ)

    آمد ہے ابنِ حیدرِ گردوں وقار کی رفتار ہے وہی شہِ دلدل سوار کی ہیبت سے کانپتی ہے زمیں کارزار کی اک شورِ الاماں ہے صدا آبشار کی پانی جو نہر کا نگہِ صف شکن میں ہے موجوں کا ہے یہ حال کہ رعشہ بدن میں ہے میداں میں دور دور کھڑے ہیں جفا پرست بگڑا ہوا ہے شام کے لشکر کا بندوبست جو تھے بلند حوصلہ وہ ہو...
Top