جوش نفسِ مطمئنّہ

حسان خان

لائبریرین
تھے اک ایسے مقام پر حیدر
کہ ہر اک آن جان کا تھا ضرر
آپ کو تھی مگر نہ کچھ پروا
آپ پر تھا مگر نہ کوئی اثر
کیا اسے خوف، جو ہو شیرِ خدا
کیا ڈرے جو ہو قاتلِ عنتر
خوف کیا اس کے دل کو توڑ سکے
جس نے توڑا ہو قلعۂ خیبر
اس کے سینے میں کیا ہراس آئے
جس کو کہتے ہوں نفسِ پیغمبر
آپ کے ساتھ تھے حسین اس وقت
عرض کی اے امامِ جن و بشر
آپ کو کچھ نہیں خیال اپنا
نہ زرہ ہے، نہ ہاتھ میں ہے سپر
جان جانے کا ہے یہاں ساماں
آپ کو کچھ نہیں ہے فکر مگر
جوش اس شیر نے کہا جو کچھ
قول مبنی تھا یہ محبت پر
ورنہ خدشہ کجا حسین کجا
کربلا کے تو یاد ہیں منظر؟
خیر جملہ تھا یہ تو معترضہ
پھر اسی سمت آئیے پھر کر
ختم تقریر جب حسین نے کی
ہنس کے کہنے لگے شہِ صفدر
ناز پروردۂ خدا و رسول
موت کو جانتا ہے فتح و ظفر
اس سے ڈرتا نہیں ہے باپ ترا
موت پر وہ گرے کہ موت اس پر
(جوش ملیح آبادی)
 
Top