جوش ولادتِ رسول

حسان خان

لائبریرین
(یہ نظم حیدرآباد (دکن) کی ایک محفلِ میلاد کے لیے نہایت عجلت میں عین وقت پر کہی گئی تھی)
اے مسلمانو! مبارک ہو نویدِ فتحِ باب
لو وہ نازل ہو رہی ہے چرخ سے ام الکتاب
وہ اٹھے تاریکیوں کے بامِ گردوں سے حجاب
وہ عرب کے مطلعِ روشن سے ابھرا آفتاب
گم ضیائے صبح میں شب کا اندھیرا ہو گیا
وہ کلی چٹکی، کرن پھوٹی، سویرا ہو گیا
زلف کا پیغام پھر بادِ صبا دینے لگی
پھر زبانِ گل صدائے مرحبا دینے لگی
شہپرِ جبریل کی جنبش ہوا دینے لگی
صبح لہرا کر چلی، شب راستا دینے لگی
مہر کا زریں سفینہ آسماں کھینے لگا
چرخ پر دریائے نور انگڑائیاں لینے لگا
خسروئے خاور نے پہنچا دیں شعائیں دور دور
دل کھلے، شاخیں ہلیں، شبنم اڑی، چھایا سرور
آسماں روشن ہوا، کانپی زمیں پر موجِ نور
پو پھٹی، دریا بہے، سنکی ہوا، چہکے طیور
نورِ حق فاران کی چوٹی کو جھلکانے لگا
دلبری سے پرچمِ اسلام لہرانے لگا
گرد بیٹھی کفر کی، اٹھی رسالت کی نگاہ
گر گئے طاقوں سے بت، خم ہو گئی پشتِ گناہ
چرخ سے آنے لگی پیہم صدائے لا الہ
ناز سے کج ہو گئی آدم کے ماتھے پر کلاہ
آتے ہی ساقی کے، ساغر آ گیا، خم آ گیا
رحمتِ یزداں کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا
آ گیا، جس کا نہیں ہے کوئی ثانی، وہ رسول
روحِ فطرت پر ہے جس کی حکمرانی وہ رسول
جس کا ہر تیور ہے حکمِ آسمانی، وہ رسول
موت کو جس نے بنایا زندگانی وہ رسول
محفلِ سفاکی و وحشت کو برہم کر دیا
جس نے خون آشام تلواروں کو مرہم کر دیا
فقر کو جس کے تھی حاصل کج کلاہی، وہ رسول
گلہ بانوں کو عطا کی جس نے شاہی، وہ رسول
زندگی بھر جو رہا بن کر سپاہی، وہ رسول
جس کی ہر اک سانس قانونِ الٰہی، وہ رسول
جس نے قلبِ تیرگی سے نور پیدا کر دیا
جس کی جاں بخشی نے مردوں کو مسیحا کر دیا
واہ کیا کہنا ترا اے آخری پیغامبر
حشر تک طالع رہے گی تیرے جلوؤں کی سحر
تو نے ثابت کر دیا، اے ہادیِ نوعِ بشر
مرد یوں مہریں لگاتے ہیں جبینِ وقت پر
کروٹیں دنیا کی تیرا قصر ڈھا سکتی نہیں
آندھیاں تیرے چراغوں کو بجھا سکتی نہیں
تیری پنہاں قوتوں سے آج بھی دنیا ہے دنگ
کس طرح تو نے مٹایا امتیازِ نسل و رنگ
ڈال دی تو نے بنائے ارتباطِ جام و سنگ
بن گیا دنیا میں 'تخئیلِ اخوت' ذوقِ جنگ
تیرگی کو روکشِ مہرِ درخشاں کر دیا
تو نے جس کانٹے کو چمکایا گلستاں کر دیا
یہ مسرت کا محل ہے، اے عزیزِ کامگار!
تلخیِ گفتار، اس موقع پہ ہوگی ناگوار
قہر ہے بزمِ طرف میں نالۂ جانِ فگار
لیکن اس کو کیا کروں دل پر نہیں ہے اختیار
آگ سی روشن ہے اک قلب و جگر کے سامنے
لے کہے دیتا ہوں جو کچھ ہے نظر کے سامنے
اس ترے انبوہ میں اے مسلمِ اندوہگیں!
دیر سے موجود ہیں خود رحمۃ اللعالمیں
زیرِ لب فرما رہے ہیں وائے بر جانِ حزیں
کوئی بھی اتنوں میں میرا چاہنے والا نہیں
ذکرِ دیں ہونٹوں پہ ہے، دنیا کی گھاتیں دل میں ہیں
صبحیں چہروں پر ہیں طالع، اور راتیں دل میں ہے
اے مرے معبود! انہیں محسوس ہو سکتا یہ کاش
شدتِ درماندگی سے، کتنے دل ہیں پاش پاش
آہ کتنوں کو ہے اک روٹی کے ٹکڑے کی تلاش
کتنے معصوموں کے چہروں پر ہے اشکوں سے خراش
شمع کی حاجت نہیں ہے محفلوں کے واسطے
کچھ چراغوں کی ضرورت ہے دلوں کے واسطے
کاش، میرے امتی قرآں کا دفتر دیکھتے
سیرتِ مقداد و سلمان و ابوذر دیکھتے
قصۂ حسنین سنتے، ضربِ حیدر دیکھتے
کس طرح مرتے نہیں، یہ بات مر کر دیکھتے
کاش ان کی عقل میں آتا یہ آسانی کے ساتھ
نعمتِ کونین کا رشتہ ہے قربانی کے ساتھ
علم سے ناآشنا محکوم، حاکم سرد و خام
روز و شب آویزشیں ہیں، درمیانِ خاص و عام
ضابطہ جینے کا ہے، ان میں، نہ مرنے کا نظام
حیف تیری چپقلش پر اے گروہِ بے امام
جادہ ہے پرپیچ، منزل کا نشاں، کوئی نہیں
کارواں ہے، اور میرِ کارواں کوئی نہیں
(جوش ملیح آبادی)
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ ۔ ۔ بہت خوب
کاش، میرے امتی قرآں کا دفتر دیکھتے
سیرتِ مقداد و سلمان و ابوذر دیکھتے
قصۂ حسنین سنتے، ضربِ حیدر دیکھتے
کس طرح مرتے نہیں، یہ بات مر کر دیکھتے
جزاک اللہ
 
Top