فراز چلو اُس بت کو بھی رو لیں

حسان خان

لائبریرین
چلو اُس بت کو بھی رو لیں
جسے سب نے کہا پتھر
مگر ہم نے خدا سمجھا
خدا سمجھا
کہ ہم نے پتھروں میں عمر کاٹی تھی
کہ ہم نے معبدوں کی خاک چاٹی تھی

کہ پتھر تو کہیں دیوارِ زنداں
اور کہیں دہلیزِ مقتل تھے
کبھی سرمایۂ دامانِ خلقت
اور کبھی بختِ جنوں کیشاں
کبھی ان کا ہدف دکانِ شیشہ گر
کبھی صورت گرِ ہنگامۂ طفلاں
کبھی بے نور آنکھوں کے نشاں
بے اشک بے درماں
کبھی لوحِ مزارِ جاں
نہ چارہ گر نہ اہلِ درد کے درماں
مگر وہ بُت
چراغِ بزمِ تنہائی
مجسم رنگ و رعنائی
فضا کی روشنی
آنکھوں کی بینائی
سکونِ جاں
وہ آنکھیں درد کی جھیلیں
وہ لب چاہت کے شعلوں سے بھرے مرجاں
وہ بت انساں
مگر ہم نے وفورِ شوق میں
فرطِ عقیدت سے کہا یزداں
یہ ہم کافر
کہ دنیا کم نظراں

سبھی لائے ہمارے سامنے اوراقِ پارینہ
کہ جن پر نقش تھے
اہلِ وفا کے عکسِ دیرینہ
شکستہ استخواں بے جان نابینا
جبیں سجدوں سے داغی
اور زخموں سے بھرا سینہ
اور ان کے بت
مآل سوزِ اہلِ دل سے بے پروا
سبھی خود بین و خود آرا
ہر اک محمل نشیں تنہا
مگر مصروفِ نظّارا

اور اب ہم بھی گرفتہ دل
نہ محرومی کو سہہ پائیں
نہ بربادی چھپانے کے رہے قابل
وہ بت مرمر کی سل
اور اہلِ سجدہ کی جبیں گھائل
سبھی کی بات سچ
اور ہم ندامت کے عرق میں تربتر
شرمندگی کے کرب سے بسمل
چلو اب اپنے جیسے نامرادوں سے ہنسیں بولیں
جو وہ کہتے ہیں وہ ہو لیں
جبیں کے داغ آنکھوں کا لہو دھو لیں
چلو اِس بت کو بھی رو لیں

(احمد فراز)
 
Top