فراز سلامتی کونسل

حسان خان

لائبریرین
پھر چلے ہیں مرے زخموں کا مداوا کرنے
میرے غمخوار اُسی فتنہ گرِ دہر کے پاس
جس کی دہلیز پہ ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں
جب بھی پہنچا ہے کوئی سوختہ جاں کشتۂ یاس
جس کے ایوانِ عدالت میں فروکش قاتل
بزم آرا و سخن گستر و فرخندہ لباس
ہر گھڑی نعرہ زناں 'امن و مساوات کی خیر'
زر کی میزان میں رکھے ہوئے انسان کا ماس
کون اس قتل گہِ ناز کے سمجھے اسرار
جس نے ہر دشنے کو پھولوں میں چھپا رکھا ہے
امن کی فاختہ اڑتی ہے نشاں پر لیکن
نسلِ انساں کو صلیبوں پہ چڑھا رکھا ہے
اس طرف نطق کی بارانِ کرم اور ادھر
کاسۂ سر سے مناروں کو سجا رکھا ہے
جب بھی آیا ہے کوئی کشتۂ بیداد اُسے
مرہمِ وعدۂ فردا کے سوا کچھ نہ ملا
یہاں قاتل کے طرفدار ہیں سارے قاتل
کاہشِ دیدۂ پرخوں کا صلہ کچھ نہ ملا
کاشمر کوریا ویت نام دومنکن کانگو
کسی بسمل کو بجز حرفِ دعا کچھ نہ ملا
قصرِ انصاف کی زنجیر ہلانے والو
کجکلاہوں پہ قیامت کا نشہ ہے طاری
اپنی شمشیر پہ کشکول کو ترجیح نہ دو
دم ہو بازو میں تو ہر ضربِ جنوں ہے کاری
اس جزیرے میں کہیں نور کا مینار نہیں
جس کے اطراف میں اک قلزمِ خوں ہے جاری
"جوہرِ جامِ جم از کانِ جہانِ دگر است
تُو توقع ز گلِ کوزہ گراں می داری"
(احمد فراز)
 
Top