طلسم
بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا
کھو گئی ہے وُہ حرارت جو تِری یاد میں تھی
وُہ نہیں عِشرتِ آسودگیِ منزِل میں
جو کسک جادۂ گُم گشتہ کی اُفتاد میں تھی
دُور اِک شمع لرزتی ہے پس ِ پردۂ شب
اِک زمانہ تھا کہ یہ لَو مِری فریاد میں تھی
ایک لاوے کی دھمک آتی تھی کُہساروں سے
اِک قیامت کی...