امجد اسلام امجد جو اُتر کے زینئہِ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے ۔ امجد اسلام امجد

فرخ منظور

لائبریرین

جو اُتر کے زینئہ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے
وُہی جَلتے بجھتے چراغ سے ،مرے بام و دَر کو سجا گئے

یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ
کہ جو لفظ میرے گُماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آگئے !

وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، مِری عُمر بھر کا ریاض تھا
مرے درد کی تھی وہ داستاں ، جِسے تم ہنسی میں اُڑاگئے

وہ چراغِ جاں، کبھی جس کی لَو ، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی
تری بے وفائی کے وسو سے ، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے

وہ تھا چاند شامِ وصال کا ، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
مری روح سے مِری آنکھ تک، کِسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بند گانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکر ی !
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی، تو ترے حضور میں آگئے

تری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
ترے آئنے کی تلاش میں ، مِرے خواب چہرا گنوا گئے

ترے وسوسوں کے فشار میں ، ترا شہرِ رنگ اُجڑ گیا
مری خواہشوں کے غُبار میں، مرے ماہ وسالِ وفا گئے!

وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے
مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے

مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے
ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آگئے

امجد اسلام امجد
 
Top