الحمدللہ ، ہمارےپرائمری اسکول میں مرغا بنانے اور ڈنڈے وغیرہ سے مارنے کےغیرانسانی طریقے استعمال نہیں ہوتے تھے۔
اساتذہ کرام ہمیشہ لاتوں اور گھونسوں سے عزت افزائی کیا کرتے تھے۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ سب کو انسان بنا کر چھوڑا۔
بیشک زندگی رنگ اور ڈھنگ بدلتی رہتی ہے ۔ اور سچ پوچھیے تو اسی رنگارنگی میں زندگی کا لطف ہے۔ وقت گزر جاتا ہے تو پھر یادیں ہی رہ جاتی ہیں۔
یادش بخیریا یا ناسٹالجیا بذاتِ خود کوئی بری بات نہیں لیکن آگے دیکھنا مت چھوڑیئے۔ آگے بہت کچھ ہے!
بیشک اردو محفل کی کمیونٹی (مرحوم) کا ماحول بہت ہی شائستہ اور دوستانہ تھا۔ بس اب یہی کہا کریں گے کہ:
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر
جب بھی کوئی حلقہ بنے گا آپ ان شاء اللہ سر فہرست ہوں گی ۔ احمد بھائی کے ہُواں جا کر ایک فارم بھر دیجیے۔ میں نے بھی بھردیا ہے۔
اور پنکھی ذرا اچھی کوالٹی کی لائیے گا۔
ابھی تک یاد ہے آپ کو ، احمد بھائی!
یہی نسخۂ نسخ ہم عربی کے پیپر میں بھی آزمایا کرتے تھے۔
اَلِحصَانُ کھائے تھو گراس ٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی گھوڑا گھاس کھاتا ہے۔
احمد بھائی ، عاجزی نہیں حقیقت ہے۔ من آنم کہ من دانم !
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
سندھی البتہ نقلی ہے۔ :D
ہاں ، یہ ہے عاجزی اصلی والی۔ :)
سوچ لیجیے ، نظامی صاحب! جس حلقے میں نیرنگ خیال ہوں اُس کی چلم اور ہی قسم کی ہوتی ہے۔ :grin:
مزاح برطرف ، اللہ آپ تمام صاحبانِ علم و ہنر کو تادیر سلامت رکھے ۔ آپ سب کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے یہ خاکسار ہے نا۔ :notworthy: