نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر طلوعِ صبح ہے ، نظریں اُٹھا کے دیکھ ذرا - جاں نثار اختر

    طلوعِ صبح ہے ، نظریں اُٹھا کے دیکھ ذرا شکستِ ظلمتِ شب مسکرا کے دیکھ ذرا غمِ بہار و غمِ یار ہی نہیں سب کچھ غمِ جہاں سے بھی دل کو لگا کے دیکھ ذرا بہار کون سی سوغات لے کے آئی ہے ہمارے زخمِ تمنا تو آ کے دیکھ ذرا ہر ایک سمت سے اک آفتاب اُبھرے گا چراغِ دیر و حرم تو بجھا کے دیکھ ذرا وجودِ عشق کی...
  2. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر احساس - جاں نثار اختر

    احساس میں کوئی شعر نہ بھولے سے کہوںگا تجھ پر فائدہ کیا جو مکمل تری تحسین نہ ہو کیسے الفاظ کے سانچے میں ڈھلے گا یہ جمال سوچتا ہوں کہ ترے حسن کی توہین نہ ہو ہر مصور نے ترا نقش بنایا ، لیکن کوئی بھی نقش ترا عکس بدن بن نہ سکا لب و رخسار میں کیا کیا نہ حسیں رنگ بھرے پر بنائے ہوئے پھولوں سے چمن...
  3. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر تلخ نوائی - جاں نثار اختر

    تلخ نوائی کیا ہوا تُو نے جو پیمانِ وفا توڑ دیا میں نے خود بھی تو کسی پھول سے نازک دل کو وقت کی ریت پہ تپتا ہوا چھوڑا تھا کبھی اپنا پیمانِ وفا جان کے توڑا تھا کبھی کیا ہوا تُو نے جو پیمانِ وفا توڑ دیا کیا ہوا تجھ کو اگر مجھ سے محبت نہ رہی زندگی آپ تغیر کا فسانہ جب ہو دل کے جذبات بھی ہر آن...
  4. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر مے کشی اب مری عادت کے سوا کچھ بھی نہیں - جاں نثار اختر

    مے کشی اب مری عادت کے سوا کچھ بھی نہیں یہ بھی اک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں فتنہِء عقل کے جویا ! مری دنیا سے گزر میری دنیا میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں دل میں وہ شورشِ جذبات کہاں تیرے بغیر ایک خاموش قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں مجھ کو خود اپنی جوانی کی قسم ہے کہ یہ عشق اک جوانی کی شرارت...
  5. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر عزم - جاں نثار اختر

    عزم میں بہت دور بہت دور چلا جاؤں گا جب مرے اشک ترے ہار کے قابل ہی نہیں جب مرا پیار ترے پیار کے قابل ہی نہیں میں بہت دور بہت دور چلا جاؤں گا اب خلش بن کے نہ جھلکوں گا نگاہوں سے تری اپنا ہر نقش مٹا جاؤں گا راہوں سے تری میں بہت دور بہت دور چلا جاؤں گا مجھ کو اب یاں مرا احساس نہ جینے دے گا...
  6. فرحان محمد خان

    میر اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا - میر تقی میر

    اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں کب درمیاں سے وعدہء دیدار جائے گا چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا بے چارہ کیوں کے تاسرِ‌دیوار جائے گا دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا تدبیر...
  7. فرحان محمد خان

    کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے - میر تقی میر

    کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے الم جو یہ ہے تو درمندو! کہاں تلک تم دوا کرو گے جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہیے ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کرو گے جہاں کی مسلح تمام حیرت، نہیں ہے تِس پر نگہ کی فرصت نظر پڑے گی بسانِ بسمل کبھو جو مژگاں کو وا...
  8. فرحان محمد خان

    میر کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے - میر تقی میر

    کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے رہ گئے گاہ تبسم پہ، گہے بات ہی پر بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے خرقہ، مندیل و...
  9. فرحان محمد خان

    نفرت - از فرحان محمد خان

    نفرت پوری انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے نفرت ہمیشہ جیت جاتی ہے ۔ کیا ایسا نہیں ؟ ہاں ایسا ہی ہے مگر میں یہ کیسے کہہ رہا ہوں کے نفرت ہمیشہ جیت جاتی ہے بی بی محبت بات سُنو تم بہت خوش فہم ہو اور بہت ہی کمزور بھی تمہاری پوری ایک صدی کو نفرت کو ایک پل کافی ہے کیا تم اس حقیقت سے منہ پھیر لو گئی کیا...
  10. فرحان محمد خان

    افتخار مغل زلفِ شب رنگ کو ظُلمت کی علامت کریں ہم - افتخار مغل

    زلفِ شب رنگ کو ظُلمت کی علامت کریں ہم اس سے بہتر ہے کوئی اور حکایت کریں ہم تُو وہ خوشبو ہے جو رکھتی ہے گرفتار ہمیں اور خوشبو کی بھلا کیسے وضاحت کریں ہم وقت نے ہم کو عجب موڑ پہ ملوایا ہے وقت سے جان مگر! کیسے شکایت کریں ہم جب تجھے پا کے بھی کھو دینا ہی ٹھہرا مری جاں تجھ کو پانے کے لیے...
  11. فرحان محمد خان

    افتخار مغل اک ہم ، کہ خجل ، عشق کا آزار لگا کر - افتخار مغل

    یوں خشت و گل و سنگ کے انبار لگا کر کب شہر بنا کرتے ہیں معمار لگا کر اک وہ تھے کہ جو میرّ بنے عشق کے صدقے اک ہم ، کہ خجل ، عشق کا آزار لگا کر ہم جیسے کئی اہلِ ہنر جی لیے اے دوست ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ بازار لگا کر لوگ اور بھی اک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں یوں شہر میں دیوار سے دیوار لگا کر اک...
  12. فرحان محمد خان

    افتخار مغل اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر - افتخار مغل

    اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر تھک جاتا ہے انسان جوانی سے گزر کر بے رنگ نظر آتا ہے جس کو مرا کردار دیکھے تو ذرا میری کہانی سے گزر کر ہم تم بھی تو اے دوست! بہت ٹوٹ گئے ہیں ٹوٹی ہوئی ترتیبِ زمانی سے گزر کر لیکن، کوئی پہنچا ہی نہیں دل کے متن تک اجسام کے الفاظ و معانی سے گزر کر بھیگی ہوئی...
  13. فرحان محمد خان

    افتخار مغل کم کسی غم کے گرفتار نظر آئیں گے - افتخار مغل

    کم کسی غم کے گرفتار نظر آئیں گے ہم ہی دو چار گُنہ گار نظر آئیں گے یہ جو ہم لوگ ہیں ہم پھول اُگانے والے موسم آئے گا تو گُلزار نظر آئیں گے سر اُ ٹھیں گے تو بڑا قہر بپا ہو گا یہاں! سرو و شمشاد بھی گل دار نظر آئیں گے یہی دہلیز کے پتھر ، یہی افتادہ کے لوگ اُٹھ گئے تو یہی دیوار نظر آئیں گے قافلے...
  14. فرحان محمد خان

    مرشد ہے میاں پیر ہے سرکار ہے روٹی - فرحان محمد خان

    مرشد ہے میاں پیر ہے سرکار ہے روٹی خالق کا ہی شاید کوئی اوتار ہے روٹی قرآن نہ گیتا کوئی مسجد نہ ہی مندر بھوکے کو اگر کچھ ہے تو درکار ہے روٹی بھوکے کا یہ ایمان، یہی عشق ہے یارو محبوب ہے معشوق ہے دلدار ہے روٹی یہ علم یہ حکمت یہ عبادت یہ محبت لازم ہیں مگر ان کی بھی سردار ہے روٹی ظالم ہے یہ...
  15. فرحان محمد خان

    افتخار مغل میں تجھ کو یاد کروں، اور تجھے سنائی نہ دے- افتخار مغل

    میں تجھ کو یاد کروں، اور تجھے سنائی نہ دے ہے کھوٹ مجھ میں کہیں ، تو کوئی صفائی نہ دے ہم اہلِ درد کا دریا سا ظرف ہے لوگو! کہ ڈوب جائے سمندر میں اور دہائی نہ دے میں اس کے طاق پہ جلتا ہُوا دیا ہوں ایک وہ مجھ کو نیند سے پہلے کہیں بُجھا ہی نہ دے یہ رنج موت سے پہلے ہی مار دیتا ہے خدا ملا ہی اگر دے...
  16. فرحان محمد خان

    افتخار مغل آپ نے بھی پسِ تحریر نہیں دیکھا- افتخار مغل

    صدمہِء حرفِ گرہ گیر نہیں دیکھا ہے آپ نے بھی پسِ تحریر نہیں دیکھا اس قدر سہم گئے دیکھ کے مقتل کو جو تم تم نے شاید مرا کشمیر نہیں دیکھا ہے؟ میں نے اس غم کو چُھوا اس کی تلاوت کی ہے محض شعروں میں غمِ میرؔ نہیں دیکھا ہے مری اس نسل نے دیکھے ہیں جہانگیر کنی پر کہیں عدلِ جہانگیر نہیں دیکھا ہے آپ نے...
  17. فرحان محمد خان

    افتخار مغل حرفِ خاموش کو آواز بنا رکھا ہے - افتخار مغل

    حُبس میں ایک درِ باز بنا رکھا ہے حرفِ خاموش کو آواز بنا رکھا ہے تو نے جس شخص کو سمجھا تھا فقط گرد وغبار اس نے اب تک تجھے دمساز بنا رکھا ہے اس کی پلکیں بھی نہیں لرزیں کبھی اس کے لیے ہم نے جس عشق کو اعزاز بنا رکھا ہے داغِ رسوائی ! ترا شکر! کہ جس نے مجھ کو خلقتِ شہر میں ممتاز بنا رکھا ہے روح کی...
  18. فرحان محمد خان

    افتخار مغل اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے- افتخار مغل

    اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے لے گئے باندھ کے سب رُوپ کا دھن تم جیسے ہم نے کھینچے ہیں تو یہ ہم تھے، سو یہ غم کھینچے ہیں کھنچ سکتے نہیں یہ رنج و محن تم جیسے ہم بھی جی لیں گے کسی طور بہ ایں حال فراق ہم نے بھی سیکھ لیے تم سے چلن تم جیسے ہم میں قوت ہے بچھڑ جانے کی، ہم ہجر نصیب ہار آئے ہیں...
  19. فرحان محمد خان

    افتخار مغل سبھی فساد ہیں تن میں لہو کے ہونے سے - افتخار مغل

    سبھی فساد ہیں تن میں لہو کے ہونے سے بلا کا شور ہے اس آب جُو کے ہونے سے یہ دل کا روگ ، یہ آںکھوں میں انتظار ، یہ خواب کئی عذاب ہیں اک آرزو کے ہونے سے پُر انتشار بھی ہے جسم کا بھرا بازار تو رونقیں بھی اسی ہاؤ ہو کے ہونے سے بس اک جہت تھی ، محبت کی اک جہت ،ورنہ غرض نہیں تھی ہمیں ہشت سُو کے ہونے...
  20. فرحان محمد خان

    افتخار مغل دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار - افتخار مغل

    رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسی ہو دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار یار! یہ ہجر کا غم! اس سے تو موت اچھی ہے جاں سے یوں ہی کوئی بیزار نہیں ہوتا یار روح سنتی ہے محبت میں بدن بولتے ہیں لفظ پیرایۂ اظہار نہیں...
Top