افتخار مغل حرفِ خاموش کو آواز بنا رکھا ہے - افتخار مغل

حُبس میں ایک درِ باز بنا رکھا ہے
حرفِ خاموش کو آواز بنا رکھا ہے

تو نے جس شخص کو سمجھا تھا فقط گرد وغبار
اس نے اب تک تجھے دمساز بنا رکھا ہے

اس کی پلکیں بھی نہیں لرزیں کبھی اس کے لیے
ہم نے جس عشق کو اعزاز بنا رکھا ہے

داغِ رسوائی ! ترا شکر! کہ جس نے مجھ کو
خلقتِ شہر میں ممتاز بنا رکھا ہے

روح کی روح تلک مجھ پہ ہویدا ہے وہ شخص
خود کو جس شخص نے اک راز بنا رکھا ہے

میں ترے خواب کی تصویر بھی لے سکتا ہوں
نیند میں تو نے وہ انداز بنا رکھا ہے

مختصر یہ کہ وضاحت نہیں مسلک اپنا
ہم نے ایجاز کو اعجاز بنا رکھا ہے​
افتخار مغل
 
Top