افتخار مغل میں تجھ کو یاد کروں، اور تجھے سنائی نہ دے- افتخار مغل

میں تجھ کو یاد کروں، اور تجھے سنائی نہ دے
ہے کھوٹ مجھ میں کہیں ، تو کوئی صفائی نہ دے

ہم اہلِ درد کا دریا سا ظرف ہے لوگو!
کہ ڈوب جائے سمندر میں اور دہائی نہ دے

میں اس کے طاق پہ جلتا ہُوا دیا ہوں ایک
وہ مجھ کو نیند سے پہلے کہیں بُجھا ہی نہ دے

یہ رنج موت سے پہلے ہی مار دیتا ہے
خدا ملا ہی اگر دے تو پھر جُدائی نہ دے

تو پھر یہ عشق نہیں افتخار دھوکا ہے
گر اس کی شکل مری شکل میں دکھائی نہ دے​
افتخار مغل
 
Top