غزل
(فراق گورکھپوری)
زندگی درد کی کہانی ہے
چشمِ انجم میں بھی تو پانی ہے
بے نیازانہ سن لیا غمِ دل
مہربانی ہے مہربانی ہے
وہ بھلا میری بات کیا مانے
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے
شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز
یا ترا شعلۂ جوانی ہے
وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو
گاہ گل گاہ رات رانی ہے
بن کے معصوم...
غزل
(جگر مُراد آبادی)
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیئے
زندگی سے رُوٹھ جانا چاہیئے
ہمّتِ قاتل بڑھانا چاہیئے
زیرِ خنجر مُسکرانا چاہیئے
زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے
ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو، کھانا چاہیئے
لذّتیں ہیں دشمن اوج کمال
کلفتوں سے جی لگانا...
غزل
(جگر مُراد آبادی)
آج کیا حال ہے یا رب سر ِمحفل میرا
کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا
سوزِ غم دیکھ، نہ برباد ہو حاصل میرا
دل کی تصویر ہے ہر آئینہء دل میرا
صبح تک ہجر میں کیا جانیے کیا ہوتا ہے
شام ہی سے مرے قابو میں نہیں دل میرا
مل گئی عشق میں ایذا طلبی سے راحت
غم ہے اب جان مری درد ہے اب...
تعارفِ شاعر:
نام علی جواد زیدی اور تخلص زیدی تھا۔۱۰؍مارچ۱۹۱۶ء کو کرہان، ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ بی اے، ایل ایل بی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔ وہ شاعر کے علاوہ ادیب، نقاد اورمؤرخ تھے جرم محمد آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔انھوں نے متعدد بیرونی ممالک کا سفر کیا۔ وہ اردو اکادمی، اترپردیش کے صدر رہے۔ اور...
غزل
(علی جواد زیدی)
آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اُٹھی فتنے نئے جگا کے
میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسنِ پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مُسکرا کے
دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اُٹھا کے
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں...
لیڈر کی دُعا
(اسرار جامعی - کلاسکی روایت کے ممتاز مزاحیہ شاعر،اپنی مخصوص زبان اور طرزاظہار کے لیے مشہور)
ابلیس مرے دل میں وہ زندہ تمنّا دے
جو غیروں کو اپنا لے اور اپنوں کو ٹرخا دے
بھاشن کے لیے دم دے اور توند کو پھلوا دے
پایا ہے جو اوروں نے وہ مجھ کو بھی دلوا دے
پیدا دلِ ووٹر میں وہ شورشِ محشر...
غزل
(آتش بہاولپوری)
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہوجاتا ہوں میں
دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہوجاتا ہوں میں
طور پر جا کر کلیمِ طور ہوجاتا ہوں میں
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہوجاتا ہوں میں
اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا...
غزل
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی...