نتائج تلاش

  1. یاسر علی

    براہ اصلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: اس طرف مکھ ذرا نہیں کرتے ۔ رحم کیوں بے وفا نہیں کرتے ۔ لاکھ ہم پر ستم کرو لیکن تم سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔ بیٹھ جاتے زمین پر ہیں جو آدمی وہ گرا نہیں گرتے۔ مارنے والے تو ہیں مر جاتے مرنے والے مرا نہیں کرتے ۔ ۔کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں اس دن ہم سے جس دن ملا نہیں...
  2. یاسر علی

    براہ اصلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: نظم نظم کھڑکی یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی وہ کھڑکی روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا جب حسینہ کی گلی سے میں گزرنے لگتا تو وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی مجھ کو چاند سے چہرے کے میں پاس چلا جاتا تو خط حسینہ مرے ہاتھوں میں...
  3. یاسر علی

    برائے صلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: کالج وہ اب بھی یاد ہے مجھ کو جو پہلا دن تھا کالج کا جماعت روم میں سارے بڑے مایوس بیٹھے تھے نہ کوئی جانتا تک تھا نہ کوئی دیکھتا تک تھا نہ کوئی بات کرتا تھا سبھی چہرے تھے انجانے مگر پھر رفتہ رفتہ سے سبھی کرنے لگے باتیں فقط باتوں ہی باتوں میں تعارف ہو گیا سب سے ہوئی...
  4. یاسر علی

    برائے صلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: آزاد نظم (شاعری) شَبِ تنہائی میں گھر کے کسی تاریک کونے میں تمھاری یاد کا دیپک جلا کر خون کے ہی آنسوؤں سے با وضو ہو کر پیالہ اک جگر کے خون کا بھر کر جگر کے خون میں اپنی ڈبو کر انگلیاں میں نے سہانے دل کے صفحوں پر تخیل عشق سے لے کر تمھاری شاعری کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
  5. یاسر علی

    برائے اصلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: آزاد نظم (محبت اور خدا ) جہاں میں تو سما سکتے نہیں دونوں جہاں میں دیکھے دونوں ہی نہیں جاتے جہاں میں ڈھونڈ کے دیکھو یہ ہیں موجود ہر جا پر۔ نظر یہ آ نہیں سکتے۔۔۔۔ کبھی خوشبو کو کوئی دیکھ پایا ہے۔؟؟ فقط محسوس کی جاتی ہے۔ دیکھی جا نہیں سکتی۔ محبت اور خدا دونوں...
  6. یاسر علی

    برائے صلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: سید عاطف علی کسی شوخ سے دل لگا کر چلے ہیں۔ محبت کی ہم ابتدا کر چلے ہیں۔ وہ خیرات دیں یا نہ دیں ہم کو لیکن! انہیں مفت میں ہم دعا کر چلے ہیں۔ تبسّم پہ ان کے سبھی زندگی کی محبت کی دولت لٹا کر چلے ہیں۔ بجھاتے بجھاتے زمانہ لگے گا کہ ہم دیپ ایسے جلا کر چلے...
  7. یاسر علی

    برائے صلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: غربت دل ,جگر, آنکھ کبھی روح رلائے غربت ظلم ہر طرز کے ہم پر تو ہے ڈھائے غربت عمر پڑھنے کی ہے غربت نہیں پڑھنے دیتی پھول سے بچّوں کو مزدور بنائے غربت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو شعر اس نے نفرت کے سوا مجھ کو دیا کچھ بھی نہیں میں نے چاہت کے سوا اس کو دیا کچھ بھی نہیں میں تو...
  8. یاسر علی

    برائے اصلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: نظم (خیال) بیٹھے بیٹھے حسین پر دلکش اس کا اکثر مری طرف ہی خیال حسن کے پیرہن میں ہی ملبوس نازنیں چال چل کے آتا ہے اسکی پازیب کی ہی چھن چھن سے نہ کبھی ختم ہونے والا سا دلنشیں ساز چھیڑا جاتا ہے چوڑیوں کی نحیف سی دھن پر قلب دیوانہ رقص کرتا ہے جب اٹھائے نقاب چہرے...
  9. یاسر علی

    برائے صلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: خاموش رہیں گے کب تک ہم الفت کی کوئی بات کریں اظہار کریں ہم پیار کریں چل آج بیاں جذبات کریں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم بانہوں میں بانہیں بھر کے ہم یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم اک دوجے کو بانہوں میں بھر لیں اس ہجر کے سوکھے صحرا میں آوصل کی ہم برسات کریں...
  10. یاسر علی

    برائے اصلاح

    الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن دل مرا اداس ہے, روح بھی اداس ہے آپ کی بنا, مری ذندگی اداس ہے رونقیں اجڑ گئیں, ہو گئیں ہیں خلوتیں بن ترے گلی گلی گاؤں کی اداس ہے سب امید کے مرے بجھ گئے چراغ ہیں چھا گئی ہے تیرگی روشنی اداس ہے گل مرے چمن کے تو گر گئے ہیں شاخوں...
  11. یاسر علی

    برائے اصلاح

    برائے اصلاح الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: نہ دنیا نہ دولت نہ زر چاہیے مجھے دلنشیں ہمسفر چاہیے نہ مہتاب, خورشید کی ہے طلب مجھے ایک نورِ نظر چاہیے مجھے چاہیئے زندگی میں صنم نہ یاقوت لعل و گہر چاہیے بسی ذات جس میں فقط ایک ہو مجھے ایسا قلب وجگر چاہیے جو آنکھوں میں چاہت کو پہچان لے...
  12. یاسر علی

    برائے اصلاح

    وبا نے اس قدر لوگو زمانے کو ڈرایا ہے سپر پاور سی دھرتی کو بھی انگلی پر نچایا ہے ق ترقی یافتہ ہونے کا دعویدار تھا جو اب اسی یورپ کا اس نے تو کلیجہ تک ہلایا ہے لگا کشمیر پر جو کرفیو چپ سادھ لی سب نے وبا پھیلی تو دیکھو شور مغرب نے مچایا ہے کلیسا مسجد و مندر میں رب کا نام گونجا...
  13. یاسر علی

    برائے اصلاح

    مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن نہ عشق کی کتاب ہے نہ عشق کا سکول ہے تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق تو فضول ہے نظر ملا کے دل یہ لے یہ دل چرا کے جان لے تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق کا اصول ہے یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب ہے خار کی چبھن لئے یہ دیکھنے میں پھول ہے تلاش کر وفا وہاں حسین دل ہو جس کا...
  14. یاسر علی

    ایک غزل برائے اصلاح کے لئے

    جلتی ہے تری یاد میں اک ذات ہماری رو رو کے گزرتی ہے ہر اک رات ہماری ہم ساتھ چلیں گے تو ملے گی ہمیں منزل سمجائے انہیں کون یہ اک بات ہماری ہر دل میں چھپی بات انہیں کھل کے کہیں گے ہو جائے اگر ان سے ملاقات ہماری پوچھا جو ہمارے بنا کیسے تھی گزاری پلکوں سے اتر آئی تھی برسات ہماری...
  15. یاسر علی

    برائے اصلاح

    نگاہِ ناز سے وہ کہہ رہا تھا لوٹ آئوں گا بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے...
  16. یاسر علی

    برائے اصلاح

    آنکھ ہر دم اُداس رہتی ہے یاد تیری جو پاس رہتی ہے ڈھونڈ اسکو نہ دشتِ ویراں میں دل کے وہ آس پاس رہتی ہے لبِ دریا کھڑا ہوں میں لیکن پھر بھی ہونٹوں پہ پیاس رہتی ہے پاس دولت جو آئے لوگوں کو کب کسی کی شناس رہتی ہے ایک عرصہ ہوا جدا ہوئے پر اب بھی ملنے کی آس رہتی ہے بے وفاؤں کے شہر میں میثم با...
  17. یاسر علی

    برائے اصلاح

    برائے اصلاح وتنقید نظر تجھ پر ٹھر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی تو رگ رگ میں اتر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی کرے دیدار جو اک بار تیرے حسن کا جاناں وہ بندہ تجھ پہ مر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی حسیں تو ہیں بہت جاناں مگر تجھ سا نہیں کوئی فقط تجھ پر نظر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی...
  18. یاسر علی

    اصلاح درکار ہے

    اصلاح درکار ہے تبسم ان لبوں پر تم سجا کر سیلفی دے دو مرے نذدیک سے نذدیک آ کر سیلفی دے دو جو جاری ہے ہماری چشم سے تھم جائے وہ چشمہ اگر تم چشم پر چشمہ لگا کر سیلفی دے دو بہت ممکن ہے بارش پیار کی دل پر برس جائے مرے شانے پہ زلفیں تم گرا کر سیلفی دے دو دل۔ تشنہ کی ممکن ہے کہ ساری تشنگی ہو دور...
Top