یاسر علی

محفلین
وبا نے اس قدر لوگو زمانے کو ڈرایا ہے
سپر پاور سی دھرتی کو بھی انگلی پر نچایا ہے
ق
ترقی یافتہ ہونے کا دعویدار تھا جو اب
اسی یورپ کا اس نے تو کلیجہ تک ہلایا ہے

لگا کشمیر پر جو کرفیو چپ سادھ لی سب نے
وبا پھیلی تو دیکھو شور مغرب نے مچایا ہے

کلیسا مسجد و مندر میں رب کا نام گونجا ہے
کرشمہ اس قدر لوگو کرونا نے دکھایا ہے

ہے اُن کشمیریوں کی آہ جا کر عرش تک پہنچی
کہ ظالم مودی نے ظلم وستم کم کیا یہ ڈھایا ہے

مسلمانوں کے دشمن ہیں یہودی مودی امریکہ
کرو تم دشمنی کھل کر یہ شیطاں کی رعایا ہے

کرو مت پیروی اسکی فقط جو چاںد پر پہنچا
کرو تم پیروی اس کی جو رب کو دیکھ آیا ہے

چلو اچھا ہوا لوگو ہمارے ہاں وبا آئی
خدا کو بھول بیٹھے تھے خدا اب یاد آیا ہے

ابھی بھی وقت ہے لوگو معافی مانگ لو رب سے
خدا نے اپنی جانب سب زمانے کو بلایا ہے

زمانے میں جو کچھ دیکھا وہ میثم نے ہے لکھ ڈالا
خدا کی مہربانی ہے کہ حق اپنا نبھایا ہے
 

یاسر علی

محفلین
الف عین, راحل صاحب اور دیگر اساتذہ سے گزارش ہے کہ مری غزل کی اصلاح فرما دیں۔۔
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
یاسر میاں ٹیگ کرنے کے لئے @لکھ کر نام لکھ دو رکن کا تو رکن کو اطلاع مل جاتی ہے۔ میں تو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
تکنیکی طور پر بحر و اوزان کی شاید غلطی نہ ہو کہ تمہاری طبع موزوں کا کمال ہے۔ البتہ بھرتی کے الفاظ، محاورہ اور خیالات کے ہی مسائل ہیں۔
مثلاً مطلع والے قطعے میں
پہلے مصرع میں 'لوگو' بھرتی کا ہے
دوسرے مصرعے میں دھرتی کو سپر پاور کہنا حقیقت سے بعید ہے
تیسرے چوتھے مصرعوں میں یورپ کا ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنا حقیقت سے دور ہے، کیا یورپی یونین نے ایسا دعویٰ کیا ہے؟
کلیجہ ہلا دینا محاورہ نہیں، دل ہلا دینا ہوتا ہے۔
باقی اشعار میں لوگو، دیکھو بھرتی کے الفاظ ہیں
کشمیر 'پر' کرفیو!
مودی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں
'گونجا ہے' بھی ہے پر ختم ہوتا ہے جو ردیف کا شبہ پیدا کرتا ہے
آخری تین اشعار درست ہیں، یہاں لوگو کا لفظ بھرتی کا نہیں
مقطع میں 'ہے میثم نے لکھ ڈالا' رواں نہیں، 'وہ لکھ ڈالا ہے میثم نے' بہتر ہے
 

یاسر علی

محفلین
محترم الف عین صاحب!

سر ٹیگ کیا تھا شاید تکنیکی غلطی ہو۔۔
بہت بہت شکریہ سر حوصلہ افزائی کرنے کا۔
جی سر جن نکات سے آپ نے آگاہ کیا میں ان کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جلد آپ کی خدمت میں حاضر ہو تا ہوں۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اوپر والے ٹیگ جو تم نے کیے ہیں، وہ تلاش کے لئے ہیں، ارکان کی اطلاع کے لئے نہیں۔ اس کے لئے وہی واحد طریقہ ہے جو میں نے لکھا ہے یاسر علی
 

یاسر علی

محفلین
الف عین اب دیکھئے گا ۔
کلام مرا شکریہ۔۔

الف عین
زمانے کو وبا نے اس طرح سے اب ڈرایا ہے
کہ ہر اک آدمی نے ماسک سے چہرہ چھپایا ہے

غرور و ناز تھا جس کو بہت جدت طرازی پر
کرونا نے اسی یورپ کا دل گہرا د کھایا ہے
یا
کرونا نے اسی یورپ کو انگلی پر نچایا ہے

لگا کشمیریوں پر کرفیو چپ سادھ لی سب نے
وبا پھیلی تو اودھم خوب مغرب نے مچایا ہے

کلیسا مسجد و مندر میں رب کا نام ہے گونجا
کرونا نے کرشمہ دہر میں ایسا دکھایا ہے

ہے اُن کشمیریوں کی آہ جا کر عرش تک پہنچی
کہ نجس العین مودی نے ستم کم کیا یہ ڈھایا ہے

عدو ہیں دین کے مودی یہودی اور امریکہ
کرو تم دشمنی کھل کر یہ شیطاں کی رعایا ہے

کرو مت پیروی اسکی فقط جو چاںد پر پہنچا
کرو تم پیروی اس کی جو رب کو دیکھ آیا ہے

چلو اچھا ہوا لوگو ہمارے ہاں وبا آئی
خدا کو بھول بیٹھے تھے خدا اب یاد آیا ہے

ابھی بھی وقت ہے لوگو معافی مانگ لو رب سے
خدا نے اپنی جانب سب زمانے کو بلایا ہے

زمانے میں جو کچھ دیکھا وہ لکھ ڈالا ہے میثم نے
خدا کی مہربانی ہے کہ حق اپنا نبھایا ہے

یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:
زمانے کو وبا نے اس طرح سے اب ڈرایا ہے
کہ ہر اک آدمی نے ماسک سے چہرہ چھپایا ہے
میرے خیال میں دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے. ماسک وزن میں نہیں آرہا، صرف "ماس" وزن میں آتا ہے. ایک عروضی قاعدہ یہ ہے کہ ایسے فارسی الاصل الفاظ جن میں لگاتار 3 حروف ساکن ہون، جیسے دوست، زیست وغیرہ، تو ان کا آخری حرف تقطیع میں گرا دیا جاتا ہے. انگریزی الفاظ پر بھی یہ اصول لاگو ہوسکتا ہے، اس کا جواز میرے علم میں نہیں.

غرور و ناز تھا جس کو بہت جدت طرازی پر
کرونا نے اسی یورپ کا دل گہرا د کھایا ہے
یا
کرونا نے اسی یورپ کو انگلی پر نچایا ہے

معنویت کے لحاظ سے دوسرا متبادل بہتر ہے، تاہم انگلی پر نچانا کہنا میرے خیال میں درست نہیں، صحیح محاورہ "انگلیوں پر نچانا" ہے.

لگا کشمیریوں پر کرفیو چپ سادھ لی سب نے
وبا پھیلی تو اودھم خوب مغرب نے مچایا ہے
پہلا مصرعہ "جب" کے بغیر مکمل نہیں لگتا.
لگا کشمیر پر جب کرفیو، چپ سادھ لی سب نے

دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے. ایک تو یہ کہ لفظ ادھم کا جو املا آپ نے کیا ہے، اب وہ تقریبا متروک ہوچلا ہے. دوئم یہ کہ ادھم لکھیں یا اودھم، دونوں صورتوں میں تلفظ اُ+دھم ہی رہے گا، او+دھم نہیں.
معنوی اعتبار سے مسئلہ یہ ہے کشمیر کے کرفیو کا مغرب کے ادھم مچانے سے کوئی تعلق بنتا آپ کے شعر میں دکھائی نہیں دے رہا. ایک تو یہ کہ ادھم مچانا تو ایک طرح سے کرفیو کی ضد ہے. اگر آپ کا مدعا یہ ہے کہ اب مغرب والوں کو خود کرفیو کی سختی جھیلنا پڑ رہی ہے تو وہ بلبلا رہے ہیں، تو یہ مفہوم آپ کے الفاظ سے مکمل ادا نہیں ہورہا.

کلیسا مسجد و مندر میں رب کا نام ہے گونجا
کرونا نے کرشمہ دہر میں ایسا دکھایا ہے
یہ بھی معنوی اعتبار سے مہمل بات ہوئی، مساجد، مندر اور کلیسا تو ہیں ہی خدا کی عبادت گاہیں، اور مشاہدہ یہ ہے کہ وبا سے پہلے یہ کوئی اتنی زیادہ ویران بھی نہیں تھیں. پھر ان میں رب کا نام گونجنا کوئی کرشماتی واقعہ کیسے ہوسکتا ہے؟

ہے اُن کشمیریوں کی آہ جا کر عرش تک پہنچی
کہ نجس العین مودی نے ستم کم کیا یہ ڈھایا ہے
"اُن" کن؟؟؟ کشمیر میں تو ظلم عام ہے، سب ہی (یا واضح اکثریت) پریشان ہیں، پھر "ان" کی تخصیص ماسوائے وزن پورا کرنے کے لئے اور کیا مقصد نبھا رہی ہے؟ ایسے ہی الفاظ کو حَشْوْ یا بھرتی کا کہتے ہیں، جن کی طرف اوپر استاد محترم نے واضح اشارہ بھی کیا ہے.
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے. آپ نے نجس کا تلفظ غلط کیا ہے. نجس العین میں نجس کی ج مکسور ہوتی ہے، ساکن نہیں.

عدو ہیں دین کے مودی یہودی اور امریکہ
کرو تم دشمنی کھل کر یہ شیطاں کی رعایا ہے
اگر دوسرے مصرعے کا مخاطب عام مسلمان ہے اور مقصد اس کو مودی، یہودیوں اور امریکا سے کھلی دشمنی کی ترغیب دینا ہے تو گرائمر کے لحاظ سے یہاں ردیف درست نہیں کیونکہ مشار الیہ پہلے مصرعے اکثر من واحد ہیں، سو یہاں شیطان کی رعایا "ہیں" کہنا چاہیئے. ویسے اس شعر میں تخاطب کس سے ہے، یہ ٹھیک سے واضح نہیں.

کرو مت پیروی اسکی فقط جو چاںد پر پہنچا
کرو تم پیروی اس کی جو رب کو دیکھ آیا ہے
پہلے مصرعے کو یوں کردیں
کرو مت پیروی ان کی، فقط جو چاند تک پہنچے

چلو اچھا ہوا لوگو ہمارے ہاں وبا آئی
خدا کو بھول بیٹھے تھے خدا اب یاد آیا ہے
دوسرا مصرعہ بہتری چاہتا ہے.
بھلا بیٹھے تھے سب جس کو، وہ رب اب یاد آیا ہے

میرا مشورہ ہے کہ آپ لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنا مطالعہ بڑھانے پر زیادہ توجہ دیں. اساتذہ اور معتبر مشاہیر کا کلام پڑھیں گے تو معنی اور محاورے کے بہت سی اغلاط ازخود درست ہوجائیں گی.

دعاگو،
راحل.
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ راحل صاحب ۔
میں ان خامیوں کو دور کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔
سر جی یہ بتا دیجیئے کون سے شعرا کا کلام پڑھوں ۔نام مینشن کر دیجیئے گا
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے گا ۔
محترم راحل صاحب!


زمانے کو وبا نے اس طرح سے اب ڈرایا ہے
کہ ہر اک آدمی نے چہرہ کپڑے سے چھپایا ہے

غرور و ناز تھا جن کو بہت جدت طرازی پر
وبا نے انگلیوں پر ان ممالک کو نچایا ہے

سمجھتے جھوٹ تھے کشمیر کے جو کرفیو کو! اب
وبا پھیلاکے رب نے کرفیو ان پر لگایا ہے

اذانیں گونج اٹھیں مسجدو مندر, کلیسا میں
کرونا نے کرشمہ دہر میں ایسا دکھایا ہے

اذان کلیسا و مندر میں نہیں دی جاتیں۔)
کرونا آیا تو کلیسا مسجد اور مندروں میں اذانییں دی گئیں۔
مسجدوں میں معمول کے مطابق اذانییں دی جاتی ہیں ۔مگر وبا کی وجہ سے معمول سے ہٹ کر اذانیں دی گئیں۔۔
اس شعر میں اسی کا ذکر کیا ہے۔۔
کلیسا و مندر میں اذان کا آنا کرشمہ سے کم نہیں ۔)




ہے پہنچی عرش پر کشمیریوں کی آہ! ان پر جو
نجس مودی نے ناحق کو , ستم کم کیا یہ ڈھایا ہے

کرو مت پیروی ان کی فقط جو چاند پر پہنچے
کرو تم پیروی اس کی جو رب کو دیکھ آیا ہے

چلو اچھا ہوا لوگو ہمارے ہاں وبا آئی
بھلا بیٹھے تھے جس کو سب وہ رب اب یاد آیا ہے

ابھی بھی وقت ہے لوگو معافی مانگ لو رب سے
خدا نے اپنی جانب سب زمانے کو بلایا ہے

زمانے میں جو کچھ دیکھا وہ لکھ ڈالا ہے میثم نے
خدا کی مہربانی ہے کہ حق اپنا نبھایا ہے

یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماسک کی تقطیع کے بارے میں عزیزی راحل سے متفق نہیں۔ اس مطلع میں چہرہ کی ہ گرنے سے بہتر وہی اصل مصرع تھا، 'ماسک سے چہرہ چھپایا ہے'

غرور و ناز تھا جن کو بہت جدت طرازی پر
وبا نے انگلیوں پر ان ممالک کو نچایا ہے
.. درست تکنیکی طور پر، البتہ جدت طرازی کی توجیہہ کچھ نہیں کی گئی

سمجھتے جھوٹ تھے کشمیر کے جو کرفیو کو! اب
وبا پھیلاکے رب نے کرفیو ان پر لگایا ہے
.. پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے، کسی اور طریقے سے کہو

اذانیں گونج اٹھیں مسجدو مندر, کلیسا میں
کرونا نے کرشمہ دہر میں ایسا دکھایا ہے
... مندر میں تو کہیں اذان کی خبر میں نے تو نہیں سنی! ممکن ہے وہاں پاکستان میں کوئی خبر آ گئی ہو جو سچی بھی ہو سکتی ہے مگر مجھے شک ہے۔ یہاں تو ایسی کوئی خبر مجھے یاد نہیں کہ میں نے سنی ہو۔ ہاں، ایک چرچ کا ویڈیو میں نے بھی دیکھا تھا واٹس ایپ میں، لیکن اس کی بھی خبر نہیں دیکھی۔ واٹس ایپ پر تو تم جانو کتنے ہی فیک ویڈیو پھیلتے رہتے ہیں! بہر حال اگر درست ہو تب بھی مسجدوں کا ذکر مت کرو۔ اور اگر درست بھی ہوتا تو جمع میں لکھنا چاہیے تھا، 'مسجدوں، مندروں اور کلیساؤں میں'
آخری اشعار درست لگتے ہیں
 
ماسک کی تقطیع کے بارے میں عزیزی راحل سے متفق نہیں۔ اس مطلع میں چہرہ کی ہ گرنے سے بہتر وہی اصل مصرع تھا، 'ماسک سے چہرہ چھپایا ہے'
السلام علیکم استاذی،
یہ دوست اور زیست والے اصول کی وجہ سے ہے یا کوئی اور قاعدہ ہے؟
 
Top