یاسر علی

محفلین
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
نہ عشق کی کتاب ہے نہ عشق کا سکول ہے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق تو فضول ہے

نظر ملا کے دل یہ لے یہ دل چرا کے جان لے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق کا اصول ہے

یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب
ہے خار کی چبھن لئے یہ دیکھنے میں پھول ہے

تلاش کر وفا وہاں حسین دل ہو جس کا بس
وفا ملے گی حسن میں یہ عاشقوں کی بھول ہے

کہ دل کے ہی سرور میں یہ اپنا سر لٹا دیا
ہزار ہا کہا اے دل ںہ عشق کر فضول ہے

نظر کا تھا قصور پر سزا بھگت رہا ہے دل
بتا اے دل کہا تھا کیوں یہ عشق تو قبول ہے


کسی نہ سچ کہا تھا یہ کہ دل ہوتا ہے بادشاہ
لٹا دیا ہے سارا کچھ نہیں ہوا ملول ہے

بچھڑ گیا ہے جب سے تو بہار بھی چلی گئی
گھڑی گھڑی ہی دل پہ میرے درد کا نزول ہے

لٹا دیا ہے سارا کچھ فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو جان بھی قبول ہے
 
عزیزم یاسر، آداب!

نہ عشق کی کتاب ہے نہ عشق کا سکول ہے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق تو فضول ہے
پہلے مصرعے میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی school کو اردو میں اسکول تلفظ کریں گے، اسے سْکول یا سَکول نہیں کیا جاسکتا! پہلی صورت میرے نزدیک اس لئے جائز نہیں کہ اردو میں کوئی لفظ ساکن حرف سے شروع نہیں ہوتا. دوسرے یہ کہ اردو کے قواعد کے مطابق کسی بھی لفظ کے شروع میں آنے والا الف، حرف ناطق ہوتا ہے جس کو تقطیع سے گرایا نہیں جاسکتا (ہاں اس پہلے کے لفظ کے آخری حرف کے ساتھ اس کا وصال ممکن ہے، مگر مخصوص صورتوں میں اور یہاں یہ روا نہیں). سو اگر اسکول کو بمع الف تلفظ کریں گے تو مصرع وزن میں پورا نہیں آئے گا. اگر سَکول کہیں گے تو تلفظ کی غلطی لازم آئے گی.
دوسرے مصرعے کی بنت مزید بہتر ہوسکتی ہے. مثلا
تُو عشق میں نہ پڑ اے دل، یہ عشق تو فضول ہے

نظر ملا کے دل یہ لے یہ دل چرا کے جان لے
تو سوچ دل نہ عشق کر یہ عشق کا اصول ہے
مفہوم واضح نہیں ہورہا. الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ بیان بہت الجھ رہا ہے. پھر دوسرے مصرعے کے الفاظ مطلع کے الفاظ سے ٹکرا رہے ہیں، اس لئے دونوں اشعار کا لطف خراب ہو رہا ہے. یوں سوچ کر دیکھئے
نظر ملا کے دل وہ لے، یا دل چرا کے جان لے
اب اسکی مرضی جو کرے، یہ عشق کا اصول ہے

یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب
ہے خار کی چبھن لئے یہ دیکھنے میں پھول ہے
دوسرے مصرعے میں چبھن لئے کے بعد "یہ" کی بجائے "گو" کردیں.

تلاش کر وفا وہاں حسین دل ہو جس کا بس
وفا ملے گی حسن میں یہ عاشقوں کی بھول ہے
"وہاں" کا مطلب یہ ہوا کہ کسی مقام کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے، سو مصرعے کے دوسرے جزو میں کسی شخص کی جانب اشارہ کرنا درست نہیں.
وفا کو ڈھونڈ اس میں بس، کہ جس کا دل نفیس ہو
وفا ہے جزو حسن کا، یہ عاشقوں کی بھول ہے

کہ دل کے ہی سرور میں یہ اپنا سر لٹا دیا
ہزار ہا کہا اے دل ںہ عشق کر فضول ہے
اس شعر کو نکال دیں تو بہتر ہے. قافیہ کی غیر ضروری تکرار سے بچنا چاہیئے.

نظر کا تھا قصور پر سزا بھگت رہا ہے دل
بتا اے دل کہا تھا کیوں یہ عشق تو قبول ہے
جب نظر کے قصور کی سزا دل بھگت رہا ہے تو دوسرے مصرعے میں دل پر ہی طعن کیوں؟؟؟

کسی نہ سچ کہا تھا یہ کہ دل ہوتا ہے بادشاہ
لٹا دیا ہے سارا کچھ نہیں ہوا ملول ہے
پہلا مصرع بحر میں نہیں. ہوتا کی و ساقط نہیں کی جاسکتی.
سارا کچھ کہنا بھی ٹھیک نہیں، سبھی کچھ کہنا چاہیئے.
ملول یہاں غلط معنی میں استعمال ہوا ہے. کیفیت کا نام ملال ہے. ملول وہ ہوتا ہے جسے کسی بات کا ملال ہو. سو آپ کے مصرعے میں دراصل ملال کا مقام ہے. مزید یہ کہ "نہیں ہوا ملال ہے" کہنا بھی فصاحت کے منافی ہے.

بچھڑ گیا ہے جب سے تو بہار بھی چلی گئی
گھڑی گھڑی ہی دل پہ میرے درد کا نزول ہے
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
اور اس گھڑی سے دل پہ جاری درد کا نزول ہے

لٹا دیا ہے سارا کچھ فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو جان بھی قبول ہے
یہاں بھی "سارا کچھ" والا مسئلہ ہے
دوسرے مصرعے میں آخری والا جان مہمل سی بات لگتی ہے کیونکہ اصل میں تو یہاں جان دینے کا محل ہے، جو بحر میں لانا مشکل ہوگا. اس کو دار سے بدل دیں، یعنی
جو جان جان مانگ لے، تو دار بھی قبول ہے

دعاگو،
راحل.
 

یاسر علی

محفلین
عزیزم راحل صاحب آداب!
بہت بہت شکریہ ۔
قیمتی وقت نکال کر مرے کلام کی اصلاح کی اور کئی نکات سے آگاہ کیا ۔
میں آپ کا بے حد ممنون ہوں۔۔
سدا سلامت رہئیے۔۔
میں کلام میں مزید ترمیم کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔۔
 

یاسر علی

محفلین
آداب راحل صاحب اور دیگر اساتذہ کرام!
ترمیم کے بعد ایک بار پھر غزل پیش خدمت ہے۔

ضرور راہنمائی فرمائیئے گا۔۔
شکریہ



مصیبتوں ،اذیتوں دکھوں کا ہی نزول ہے
تو عشق میں نہ پڑ اے دل یہ عشق تو فضول ہے

نظر ملا کے دل وہ لے چرا کے قلب جان لے
اب اس کی مرضی جو کرے یہ عشق کا اصول ہے

یہ عشق تو عذاب ہے دکھوں کی یہ کتاب
ہے خار کی چبھن لئے گو دیکھنے میں پھول ہے

وفا کو ڈھونڈ اس میں بس کہ جس کا دل نفیس ہو
وفا ہے جزو حسن کا یہ عاشقوں کی بھول ہے

بچھڑ گیا ہے جب سے تو بہار بھی چلی گئی
اسی گھڑی سے دل پہ میرے درد کا نزول ہے

تمام کچھ لٹا دیا فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو دار بھی قبول ہے
 
نظر ملا کے دل وہ لے چرا کے قلب جان لے
اب اس کی مرضی جو کرے یہ عشق کا اصول ہے
درست محاورہ "دل چُرانا" ہے، اس کو قلب چرانا نہیں کیا جاسکتا ہے.
نظر ملا کے دل وہ لے، یا دل چرا کے جان لے

تمام کچھ لٹا دیا فقط بچی ہے جان اک
جو جان جان مانگ لے تو دار بھی قبول ہے

تمام کچھ کہنا بھی ٹھیک نہیں. "سبھی کچھ" اگر وزن میں نہیں آرہا تو پھر الفاظ بدل دیں، مثلا
سبھی تو عشق کھا گیا، فقط بچی ہے جان بس
 
Top