یاسر علی

محفلین
نگاہِ ناز سے وہ کہہ رہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا

بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا

کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا

مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے
سرہانے کے مرے نیچے رکھا تھا لوٹ آؤں گا

کبھی بھی بند دروازہ نہیں میں نے کیا گھر کا
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا

فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
وفا کے آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا
یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ، بحر و اوزان کے نک سک سے درست

نگاہِ ناز سے وہ کہہ رہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت میں نے یہ سنا تھا لوٹ آؤں گا
... نگاہ ناز سے کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
دوسرے مصرعے میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لوٹنے کی بات شاعر خود کر رہا ہے یا محبوب کے الفاظ دہرا رہا ہے؟

بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا
... درست

کھڑا رہتا ہوں در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے پیغام قاصد سے ملا تھا لوٹ آؤں گا

مجھے امید ہے لوٹے گا لکھ کر ایک خط اس نے
سرہانے کے مرے نیچے رکھا تھا لوٹ آؤں گا
... عجز بیان ہے، بظاہر لگتا ہے کہ محبوب'کوئی' لخط لکھ کر لوٹے گا! لیکن یقیناً یہ مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ خط میں لوٹنے کا لکھا تھا شاعر کے نام۔ یہ واضح نہیں
دوسرے مصرعے میں بھی :سرہانے' کہنا ہی کافی ہے، سرہانے کے نیچے کہنا غلط ہے

کبھی بھی بند دروازہ نہیں میں نے کیا گھر کا
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا
... بند دروازہ کرنا کی بہ نسبت دروازہ بند کرنا بھی لایا جا سکتا ہے یا جیسے
کبھی میں بند ہی کرتا نہیں ہوں گھر کا دروازہ

فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
وفا کے آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا
... وفا کا آخری خط سے مراد؟
یہی بس آخری خط......
سے بات زیادہ صاف اوع واضح ہو جاتی ہے، مکمل اوزان کے ساتھ
 

یاسر علی

محفلین
بصد شکریہ الف عین صاحب آپ نے بہت ہی عمدہ نکات سے آگاہ کیا ۔میں اس دوبارہ کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔
 

یاسر علی

محفلین
الف عین اور دیگر اساتذۂ کرام سے گزارش ہے ۔اک بار
پھر مری غزل پر نظر کرم فرمائیں ۔

مرے سینے پہ سر رکھ کر کہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت اس نے عہد کیا تھا لوٹ آؤں گا

گزاری زیست میں نےانتظارِ یار میں اس نے
جدا ہوتے ہوئے لکھ کر دیا تھا لوٹ آؤں گا

بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا

کھڑا ہوں کل سے در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے کل فون پر وہ کہہ رہا تھا لوٹ آؤں گا

کبھی میں بند ہی کرتا نہیں ہوں گھر کا دروازہ
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا

فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
یہی بس آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا

یاسر علی میثم
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
معزرت جناب مسٹیک ہو گئی ہے۔کوشش کے باوجود درست نہیں ہو پائی۔


مرے سینے پہ سر رکھ کر کہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت اس نے عہد کیا تھا لوٹ آؤں گا

گزاری زیست میں نےانتظارِ یار میں اس نے
جدا ہوتے ہوئے لکھ کر دیا تھا لوٹ آؤں گا

بہت جلدی میں سویا ہوں کہ شاید پھر ملے وہ آج
کہ کل شب خواب میں اس نے کہا تھا لوٹ آؤں گا

کھڑا ہوں کل سے در پر اس کے استقبال کی خاطر
مجھے کل فون پر وہ کہہ رہا تھا لوٹ آؤں گا

کبھی میں بند ہی کرتا نہیں ہوں گھر کا دروازہ
بچھڑے وقت کہہ کر وہ گیا تھا لوٹ آؤں گا

فقط اس آس میں میثم کبھی گھر سے نہیں نکلا
یہی بس آخری خط میں لکھا تھا لوٹ آؤں گا

یاسر علی میثم
 
مرے سینے پہ سر رکھ کر کہا تھا لوٹ آئوں گا
بچھڑنے وقت اس نے عہد کیا تھا لوٹ آؤں گا
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہوگیا ہے. یوں سوچا جاسکتا ہے
دمِ رخصت وہ وعدہ کر گیا تھا لوٹ آؤں گا

گزاری زیست میں نےانتظارِ یار میں اس نے
جدا ہوتے ہوئے لکھ کر دیا تھا لوٹ آؤں گا
پہلے مصرعے میں اگر "انتظار یار میں" کے بعد comma نہیں لگائیں گے تو معنی کا ابلاغ بہت مشکل ہوجائے گا. ویسے کوشش یہی کرنی چاہیئے کہ اشعار میں علامات وقف لگانے نوبت نہ آئے. ویسے بھی یہ بندش کافی کمزور معلوم ہوتی ہے. مفہوم کے اعتبار سے بھی یہ شعر کم و بیش مطلعے کا ہی عکس ہے. بہتر ہے اس کو نکال دیں.

باقی اشعار ٹھیک ہیں.
 

یاسر علی

محفلین
محترم راحل صاحب آپ کا بے حد مشکور ہوں ۔کہ آپ نے مری راہنمائی کی۔
میں اس شعر کو نکال دیتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ تمام اساتذۂ کرام مجھ نا سمجھ انسان کی ہمہ وقت راہنمائی کرتے رہو گے۔
سدا سلامت رہو جیتے رہو ۔
شکریہ
 

یاسر علی

محفلین
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہوگیا ہے. یوں سوچا جاسکتا ہے
دمِ رخصت وہ وعدہ کر گیا تھا لوٹ آؤں گا


پہلے مصرعے میں اگر "انتظار یار میں" کے بعد comma نہیں لگائیں گے تو معنی کا ابلاغ بہت مشکل ہوجائے گا. ویسے کوشش یہی کرنی چاہیئے کہ اشعار میں علامات وقف لگانے نوبت نہ آئے. ویسے بھی یہ بندش کافی کمزور معلوم ہوتی ہے. مفہوم کے اعتبار سے بھی یہ شعر کم و بیش مطلعے کا ہی عکس ہے. بہتر ہے اس کو نکال دیں.

باقی اشعار ٹھیک ہیں.
سر جی یہ بتائیں کہ یہ مصرعہ کیا لفظ کیا کی وجہ سے بحر از خارج ہے ۔کیا کی وجہ سے خارج ہے تو پھر کیا کا کیا کیا وزن باندھ سکتے ہیں۔
 
سر جی یہ بتائیں کہ یہ مصرعہ کیا لفظ کیا کی وجہ سے بحر از خارج ہے ۔کیا کی وجہ سے خارج ہے تو پھر کیا کا کیا کیا وزن باندھ سکتے ہیں۔
جناب آپ کا مصرع 'عہد' کی وجہ سے بحر سے خارج ہورہا ہے۔ اگرچہ راحل بھائی کا تجویز کردہ مصرع بہت خوب صورت ہے لیکن آپ کے سمجھنے کی خاطر آپ یوں کرسکتے ہیں

بچھڑتے وقت یہ وعدہ کیا تھا لوٹ آؤں گا
ہر چند کہ اس مصرع آس صورت میں پورے شعر میں یہ نہیں پتا چل رہا کہ کس نے سینے پر سر رکھا تھا یا بچھڑتے وقت یوں کہا تھا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ راحل بھائی کا تجویز کردہ مصرع اپنالیں کہ اس میں ' دمِ رخصت' جیسی خوبصورت ترکیب بھی موجود ہے۔
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ جناب میں مصرع راحل صاحب کا ہی شامل کروں گا۔
دراصل مرا سوال لفظ"کیا"کا وزن پوچھنا تھا۔
اس کا کیا کیا وزن باندھ سکتے ہیں۔
شکریہ جناب جیتے رہیئے۔۔
 
شکریہ جناب میں مصرع راحل صاحب کا ہی شامل کروں گا۔
دراصل مرا سوال لفظ"کیا"کا وزن پوچھنا تھا۔
اس کا کیا کیا وزن باندھ سکتے ہیں۔
شکریہ جناب جیتے رہیئے۔۔

کیا، بطور سوالیہ کلمہ کے "کا" تقطیع کیا جاتا ہے، یعنی فا کے وزن پر. کیا، بطور فعل (کِ+یا) کا وزن فعو ہوتا ہے. آپ کی غزل کی بحر میں یہ مفا کے مقابل آئے گا.
 

یاسر علی

محفلین
بہت شکریہ اب کلئیر ہو گیا کافی عرصہ سے اسی چنگل مہں پھنسا ہوا تھا۔
جیتے رہئے راحل صاحب۔۔
 
Top