نتائج تلاش

  1. مہ جبین

    رضا واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا....

    واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑہ تیرا اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستہ تیرا فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا...
  2. مہ جبین

    رضا ہم تمہارے ہوکے کس کے پاس جائیں.....

    ہم تمہارے ہوکے کس کے پاس جائیں صدقہ شہزادوں کا رحمت کیجئے عالِمِ علمِ دوعالَم ہیں حضور آپ سے کیا عرضِ حاجت کیجئے آپ سلطانِ جہاں ہم بے نوا یاد ہم کو وقتِ نعمت کیجئے تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمتِ غم کی شکایت کیجئے دربدر کب تک پھریں خستہ خراب طیبہ میں مدفن عنایت کیجئے ہر برس وہ...
  3. مہ جبین

    رضا حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجئے....

    حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجئے نار سے بچنے کی صورت کیجئے اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجئے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجئے اُن کے حسنِ باملاحت پر نثار شیرہء جاں کی حلاوت کیجئے اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوانو! کچھ تو ہمت کیجئے پھیر دیجئےپنجہء دیوِ لعیں مصطفےٰ کے بل پہ طاقت کیجئے ڈوب کر یادِ لبِ...
  4. مہ جبین

    رضا بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادرگیا....اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ

    بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا لمعہء باطن میں گمنے جلوہء ظاہر گیا تیری مرضی پاگیا ، سورج پھرا الٹے قدم تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجہ چِر گیا بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی...
  5. مہ جبین

    رضا نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا..... اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ

    نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی ہائے وہ دل جو تِرے در سے پُر ارمان گیا دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا...
  6. مہ جبین

    رضا چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو.....اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ

    چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو ہم سیہ کاروں پہ یارب تپشِ محشر میں سایہ افگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو آخرِ حج غمِ الفت سے پریشاں ہوکر تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہوجائے چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو بھینی...
  7. مہ جبین

    حزیں صدیقی مجھے فکرِ آرائشِ کائنات۔۔۔۔ حزیں صدیقی

    مجھے فکرِ آرائشِ کائنات زمانے کے پیشِ نظر اپنی ذات ابھی آشنا ہے ابھی اجنبی عجب ہے مزاجِ نگارِ حیات یہ پیرایہء عرضِ غم خوب ہے نہ آنکھوں میں آنسو نہ ہونٹوں پہ بات مذاقِ حسیں ہے مِری زندگی کہ ہے محورِ عالمِ بے ثبات سفر زندگی کا خدا کی پناہ بہر گام اک محشرِ حادثات جو مجھ سے مجھے چھین کر لے...
  8. مہ جبین

    حزیں صدیقی شائستہءجمال ہوئے کب نظر کے خواب۔۔۔۔حزیں صدیقی

    شائستہء جمال ہوئے کب نظر کے خواب بن بن کے اشک آنکھ سے ٹپکے سحر کے خواب کاغذ پہ سج گئے کبھی پتھر میں ڈھل گئے بھٹکے ہوئے خیال ہیں اہلِ نظر کے خواب کیسا نکھر گیا ہے شبستانِ آرزو آئے ہیں آج کس کی نظر سے گزر کے خواب تھی وہ بھی ایک چھوٹ کسی کے خیال کی میری کہاں بساط کہ دیکھوں اُدھر کے خواب...
  9. مہ جبین

    حزیں صدیقی اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے۔۔۔ حزیں صدیقی

    اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے ہر زاویے سے میرے خدو خالِ ذات کو پرکھا نگار خانہء لیل و نہار نے سورج سے تھی امیدِ توانائی جسم کو آواز دی بہت شجرِ سایہ دار نے میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان پگھلادیا ہے نغمگیء آبشار نے کہتے ہیں لوگ جبرِ مشیت ہے...
  10. مہ جبین

    حزیں صدیقی ایک ڈگر پر چل نادان۔۔۔۔ حزیں صدیقی

    ایک ڈگر پر چل نادان عقل کی سُن یا دل کی مان ہائے تمنّا کا مقسوم محرومی ہے دل کی جان زیست بھی ہے اس کا انعام موت بھی ہے اُس کا احسان جب سانس ہے تب تک آس اُس سے ملنے کا امکان ساحل موت کی راحت گاہ زیست کا گہوارہ طوفان کون سنے دل کی آواز دھیان کی بات ہے لیکن دھیان؟ شرحِ تمنا کیا اے دوست...
  11. مہ جبین

    حزیں صدیقی میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو۔۔۔۔ حزیں صدیقی

    میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو مرے ذوقِ نظر نے رنگ بخشے جہاں میں ورنہ کیا تھا دیکھنے کو تماشاگاہِ عالم میں ہوں تنہا کوئی تو ہو تماشا دیکھنے کو خرد نے زاویے کیا کیا نہ بدلے جنوں کا رنگ پھیکا دیکھنے کو وہ ہمراہِ مہ و خورشید آئے مِرا داغِ تمنّا دیکھنے کو سمندر...
  12. مہ جبین

    حزیں صدیقی اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے۔۔۔ حزیں صدیقی

    اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے ڈرتا ہوں اپنے آپ کو پہچانتے ہوئے بنجر زمیں کو بارشِ رحمت کا آسرا سرسبز وادیوں پہ ہیں بادل جھکے ہوئے چہروں کی آب و تاب پہ بھرپور طنز ہیں شیشوں میں رنگ رنگ کے پتھر سجے ہوئے منزل کے سنگِ میل سمجھتے ہیں راہرو اس فصل سے ہیں راہ میں کتبے لگے ہوئے اے حسنِ دوست آج...
  13. مہ جبین

    حزیں صدیقی پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی۔۔۔ حزیں صدیقی

    پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی خلوتِ دل سے بزمِ نظر تک ایک فضا کی بات چلی دونوں طرف سے اپنے اپنے حسن و ادا کی بات چلی ہم سے وفا نام چلا ہے تم سے جفا کی بات چلی رنگ فشاں ہے بات وہ دل کی آج بھی جس کے پردے میں سرخیء لب کی، غازہء رخ کی ، رنگِ حنا کی بات چلی بھول گئے پیمانِ...
  14. مہ جبین

    حزیں صدیقی جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے۔۔۔ حزیں صدیقی

    جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے میں ترے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ کتنے سورج مرے اشکوں کے خریدار ملے نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے میں...
  15. مہ جبین

    حزیں صدیقی کتنے باطل کے پرستار ہیں حق پر کتنے۔۔۔ حزیں صدیقی

    کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے بات اتنی تھی کہ برپا ہوئے محشر کتنے یہ تو ہم ہیں نہ سلگتے نہ دھواں دیتے ہیں ہوگئے خاک تری آگ میں جل کر کتنے پہلو پہلو سے پرکھ لیجئے کھل جائے گا کون آئینہ ہے اور کس میں ہیں جوہر کتنے جس کو مقدورِ چراغاں ہے اسے کیا معلوم اک دئے کو بھی ترستے ہیں یہاں گھر...
  16. مہ جبین

    حزیں صدیقی وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز۔۔۔ حزیں صدیقی

    وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز کچھ دن سے ہے کچھ اور در و بام کی آواز کس کام کی سازِ دلِ ناکام کی آواز جب تک نہ بنے دوست کے پیغام کی آواز ہے سرخیء گلبانگِ سحر، خونِ تمناّ موجِ طرب آہنگ ہے آلام کی آواز اب شب کو ابھرتے نہیں دیوار پہ چہرے اب دل کو ڈراتی نہیں اوہام کی آواز کرتی ہے سماعت کی...
  17. مہ جبین

    حزیں صدیقی بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہےچراغ۔۔۔حزیں صدیقی

    بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ آخر اسی حصار میں گم ہوگئے چراغ جس گھر سے تو خفا ہو وہاں روشنی کہاں کب سے بجھے پڑے ہیں شب و روز کے چراغ یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی اک دوسرے کی لوَ پہ لپکنے لگے چراغ شاید بہار نام ہے اک جشنِ رنگ کا آنچل اڑے ، گلاب کھِلے، ہنس پڑے چراغ جب آگیا خیال...
  18. مہ جبین

    حزیں صدیقی باوصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال۔۔۔حزیں صدیقی

    باوصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال اپنا تمام عکس رخِ زندگی پہ ڈال دو گام ہی چلے تھے سرِ جادہء جمال گھبرا کے زندگی نے پکارا مجھے سنبھال سب مرحلے تمام ہوئے حال ہے نہ قال اب عشقِ لازوال ہے اور حسنِ بے مثال تہذیبِ آرزو کی جھلک ہے کہیں کہیں تقدیسِ جستجو کا تصور ہے خال خال کب سے حصارِ دشتِ فنا...
  19. مہ جبین

    حزیں صدیقی پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ حزیں صدیقی

    پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں ہے یہ مرا وہم ہو شاید کبھی دیکھا تو نہیں تیرے کس کام کا دھنکے ہوئے خوابوں کا غبار سرمہء زر تو نہیں حسن کا غازہ تو نہیں جادہء دل میں سرابوں کا گزر کیا معنیٰ دشتِ پر خار سہی، ریت کا دریا تو نہیں اپنا آئینہ بنا کر مجھے حیران کیا آنکھ اٹھا کر مری جانب...
  20. مہ جبین

    حزیں صدیقی غزل : پرکھا نہ تمام پتھروں کو۔۔۔ از: حزیں صدیقی

    پرکھا نہ تمام پتھروں کو چنتے رہے خام پتھروں کو بخشا ہے نگاہِ جوہری نے ہیرے کا مقام پتھروں کو شیشے کا ہے کاروبار جن کا کرتے ہیں سلام پتھروں کو کھَلتا ہے مقامِ سنگِ اسود سب آئینہ فام پتھروں کو نسبت ہے بس ایک سنگِ در سے پوجا نہیں عام پتھروں کو آذر کا نشان تک نہیں ہے حاصل ہے دوام پتھروں...
Top