حزیں صدیقی پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی
خلوتِ دل سے بزمِ نظر تک ایک فضا کی بات چلی

دونوں طرف سے اپنے اپنے حسن و ادا کی بات چلی
ہم سے وفا نام چلا ہے تم سے جفا کی بات چلی

رنگ فشاں ہے بات وہ دل کی آج بھی جس کے پردے میں
سرخیء لب کی، غازہء رخ کی ، رنگِ حنا کی بات چلی

بھول گئے پیمانِ وفا ہم آپ کا یہ الزام بجا
لیکن پہلے کس کی طرف سے ترکِ وفا کی بات چلی

دونوں میں کچھ ربط نہیں ہے لیکن اس کو کیا کہئے
رہزن ہی کے ساتھ چلی جب راہ نما کی بات چلی

سینے میں پتھر تو نہیں تھا ، دل تھا آخر ٹوٹ گیا
ہم نے چلائی جب تک ہم سے ضبطِ جفا کی بات چلی

آج جسے گلبانگِ سحر کا نام دیا ہے دنیا نے
سچ تو یہ ہے آواز وہی تھی جس سے فضا کی بات چلی

شب بھر شبنم نے رو رو کر گلشن کو شاداب کیا
صبح ہوئی تو خندہء گل کی بادِ صبا کی بات چلی

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
واہ واہ کیا ہی خوبصورت انتخاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بھول گئے پیمانِ وفا ہم آپ کا یہ الزام بجا
لیکن پہلے کس کی طرف سے ترکِ وفا کی بات چلی
دونوں میں کچھ ربط نہیں ہے لیکن اس کو کیا کہئے
رہزن ہی کے ساتھ چلی جب راہ نما کی بات چلی
شب بھر شبنم نے رو رو کر گلشن کو شاداب کیا
صبح ہوئی تو خندہء گل کی بادِ صبا کی بات چلی
کیسی برجستگی اور روانی ہے غزل میں سبحان الله !!
شکریہ مہ جبین صاحبہ اس قدر خوبصورت غزل ارسال فرمانے کے ؛لیے
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خوب۔۔۔۔!

کیا عمدہ غزل پیش کی ہے آپ نے کہ بہ یک وقت نغمگی، تغزل اور ندرتِ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔

خوش رہیے۔
 
Top