حزیں صدیقی وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز
کچھ دن سے ہے کچھ اور در و بام کی آواز

کس کام کی سازِ دلِ ناکام کی آواز
جب تک نہ بنے دوست کے پیغام کی آواز

ہے سرخیء گلبانگِ سحر، خونِ تمناّ
موجِ طرب آہنگ ہے آلام کی آواز

اب شب کو ابھرتے نہیں دیوار پہ چہرے
اب دل کو ڈراتی نہیں اوہام کی آواز

کرتی ہے سماعت کی لطافت کا جگر چاک،
سازوں پہ تھرکتے ہوئے اجسام کی آواز

ہے نغمہ سرا، سازِ رگِ جاں پہ تری یاد
یا دل کے تراشے ہوئے اصنام کی آواز

ہم بنتے رہے سنگِ ملامت کا نشانہ
احباب اٹھاتے رہے الزام کی آواز

آغاز کی آواز تھی جاں بخش و فضا تاب
اک شور قیامت کا ہے انجام کی آواز

کانوں سے گزرتی ہے اترتی ہے دلوں میں
جب دل سے ابھرتی ہے ترے نام کی آواز

کام آئے گی تنہائی کی خاموش فضا میں
سن جاؤ شکستِ دلِ ناکام کی آواز

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top