چاندنی چوک (راولپنڈی والا)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اس بات کا تو مجھے پتہ نہیں اس چوک کا نام چاندنی چوک کیوں پڑا تھا لیکن مجھے اتنا پتہ ہے دنیا میں دو چاندنی چوک ہیں ایک پاکستان میں اور دوسرا ہندوستان میں (اس کے علاوہ بھی ہو سکتےہیں جب کا مجھے پتہ نہیں) چونکہ میں پاکستان میں ہوں اس لے پاکستانی چاندنی چوک کی ہی بات کروں گا چاندنی چوک پاکستان کے شہر راولپنڈی میں واقع ہیں مری روڑ پر صدر کی طرف سے آتے ہوئے ناز سینما سے کچھ آگے پہلا مکمل چوک چاندنی چوک کے نام سے مشہور ہے کل اتفاقاََ میرا وہاں جانا ہوا ۔ تو مجھے یاد آیا کہ 2000 میں پہلی دفعہ چاندنی چوک گیا تھا اور اس کے بعد پانچ سال تک وہی رہا۔ اصل میں میں چاندی چوک پر واقع ’’ٹیک مین“ کے نام سے پرائیویٹ ورکشاپ پر فوٹو سٹیٹ مشینوں کا کام سیکھنے کے لیے گیا تھا جہاں میرے استاد جناب قاصی تنویر السلام صاحب اس ورکشاپ کے مالک تھے میں نے ان کے پاس پانچ سال کام کیا ان کے مطابق ان کی زندگی میں میں تیسرا شاگرد تھا جس نے ان کے پاس پانچ سال تک کام کیا باقی ان کی سختی کی وجہ سے سب بھاگ گے تھے۔ ورکشاب والی گلی میں سب سے پہلی دوکان جمبو کلرلیب تھی جہاں سے میں اکثر تصویریں بنوایا کرتا تھا جمبو کلرلیب کے ساتھ ہی ایک بیکری تھی جس کا نام مجھے یاد نہیں اس کے باہر ایک شخص اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر برگر لگایا کرتا تھا اس کو سب ماموں کہتے تھے اس لے اس کا نام ہی ماموں برگر پڑ گیا۔ چاندی چوک کے سب سے مشہور برگر تھے اور لوگ بہت دور دور سے ماموں کے پاس برگر کھانے آتے تھے اس وقت اس برگر کی قیمت 28 روپے تھی اب پتہ نہیں کتنی ہو گی اصل میں چار سال بعد جب میں چاندنی چوک گیا تو میری ایک عجیب سی کیفیت ہو گی وہ جو لوگ تھے جن کو میں جانتا تھا ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا سب سے پہلے قاضی صاحب کی ورکشاپ پر گیا تو کیا دیکھا اس کا تو نام و نشان ہی نہیں ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ کاروبار ختم کر کے وہ کہی چلے گے ہیں۔ اس کے بعد جب میں واپس ہونے لگا تو سوچا کیوں نا ماموں برگر والے سے برگر کھایا جائے اور پورانی یاد تازہ کی جائے لیکن جب میں وہاں پونچا تو ایک عجیب ہی معاملہ دیکھا جہاں ایک ماموں کا برگر کا کھوکھا ہوتا تھا آج وہاں دو تھے۔ ایک پر لکھا تھا ”ماموں برگر اصل ماموں برگر یہی ہے ہماری کوئی برانچ نہیں ہے“ اور ساتھ ہی دوسرے پر لکھا تھا ” نیو ماموں برگر“ اب میں سوچنے لگا دونوں میں سے اصل کون ہے لیکن کچھ اندازہ نہیں‌ہوا پھر میں نے ماموں کے بارے میں جمبو کلر لیب کے سکورٹی گارڈ سے پوچھا تو اس نے بتایا ماموں کا تو انتقال ہو گیا ہے اور یہ دونوں اس کے بیٹے ہیں جنوں نے ماموں کے مرنے کے بعد الگ الگ کام شروع کر دیا ہے۔
یہ بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا ہم میں کون سی ایسی بات ہے جو بھائی کو بھائی سے الگ کر دیتی ہے جب تک والدین زندہ ہوتے ہیں سب اتفاق سے رہتے ہیں لیکن والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمیں کیا ہو جاتا ہے ہم کیوں ایسا کرتے ہیں ہم اپنے بھائیوں سے دور کیوں ہو جاتے ہیں یہ سب سن کر میں وہی سے واپس ہو گیا ماموں برگر کھائے بغیر

خرم شہزاد خرم
 

مغزل

محفلین
خوب ۔۔ اچھی تحریر ہے خرم ۔
خدا نے تمھیں گداز دل دیا ہے اسے سنبھال کر رکھو
اور اسی طرح اپنی رائے پیش کرتے رہو۔
( چاندنی چوک کراچی میں تین ہیں ، بلدیہ ، کورنگی اور پاپوش نگر )
 

شمشاد

لائبریرین
وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ میں روزانہ ہی چاندنی چوک سے گزر کر گورنمنٹ کالج جایا کرتا تھا۔
 

وجی

لائبریرین
خوب ۔۔ اچھی تحریر ہے خرم ۔
خدا نے تمھیں گداز دل دیا ہے اسے سنبھال کر رکھو
اور اسی طرح اپنی رائے پیش کرتے رہو۔
( چاندنی چوک کراچی میں تین ہیں ، بلدیہ ، کورنگی اور پاپوش نگر )

برائے مہربانی اس کی وضاحت کریں میرے معلومات کے مطابق پہلے تو کراچی میں صرف دو ہی چوک ہیں

ایک پاکستان چوک
دوسرا حقانی چوک
 

شمشاد

لائبریرین
جی بالکل گورنمنٹ کالج، سٹلائٹ ٹاؤں والا۔
ہم چھ سات لڑکے واپسی میں اکٹھے آیا کرتے تھے سائیکلوں پر اور راستے میں شرارتیں بھی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار سید پور روڈ سے واپس آتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بسم اللہ، خوش آمدید، جی آیاں نوں

خیر سے اجازت مل گئی، بہت خوشی کی بات ہے۔

ویسے جب کالج میں پڑھتے تھے تو تب تو لڑکے ہی تھے ناں۔
 

ظفری

لائبریرین
بسم اللہ، خوش آمدید، جی آیاں نوں

خیر سے اجازت مل گئی، بہت خوشی کی بات ہے۔

ویسے جب کالج میں پڑھتے تھے تو تب تو لڑکے ہی تھے ناں۔
ہاں ہاں ۔۔۔۔۔ بلکل شمشاد بھائی ۔۔۔۔ اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہم بوڑھے سائکلیوں پر اکھٹا آیا کرتے تھے ۔ ;)
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری بھائی کچھ اتنا زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ بوڑھے کہلانے لگ جائیں۔ ابھی ماضی قریب کی ہی تو بات ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب لڑکے نہیں رہے، عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں، شادی شدہ اور بچوں والے ہیں لیکن ایسا بھی کیا کہ بوڑھے کہلائیں اور اردو محفل کی ساری خواتین انکل انکل پکارنے لگ جائیں۔ کچھ تو خدا خوفی کریں۔
 

زین

لائبریرین
بھائی میں سوچ رہا تھا کہ یہ آپ کے نام کے ساتھ بھائی فٹ نہیں‌لگتا ۔
اب شمشاد انکل کہہ کر پکاروںگا۔:wink:
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن انکل کے لیے تو میں محفل کی خواتین کا ذکر کیا ہے، سوچ لیں آپ نے انکل کہنا ہے کہ نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
یہ پرانا مقولہ ہے

بچے ہمارے عہد کے عیار ہو گئے
یہ نیا مقولہ ہے۔
 

تیشہ

محفلین
خرم اس پنڈی والے چاندنی چوک سے میری بڑی پرُانی یادیں وابستہ ہیں :party: چاندنی چوک سے لفٹ والی طرف روڈ پے بلکل سامنے اک بہت بڑا بنگلہ ہے ۔ وہاں میرا بچپن گزرا ہے ۔۔ ابو کو ملا ہوا تھا سرکاری گھر ،جب ابو ایس۔ پی تھے ۔، یہی اسی بڑے سے گھر کے دو بڑے بڑے حصے بنے ہوئے تھے ، باہر کیطرف آفس ہوا کرتا تھا ، اور اندر کی طرف گھر ۔۔ یہ پنڈی کا آخری گھر تھا جس میں ہم ابو کے ساتھ رہے کیونکہ اسی گھر میں ابو کی ڈیتھ ہوئی تھی ہارٹ اٹیک سے :( :sad2: مگر یہ چاندنی چوک ہمارے لئے بہت اہم بن گیا ۔۔ بچپن گزرا یہاں ، کبھی بھولا ہی نہیں ، آج بھی چاندنی چوک سے کوئی گزرتا ہے تو ہم اپنے گھر کی طرف نظر ضرور ڈالتے ہیں ۔۔ اور ذکر کرتے ہیں :sad2:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جی بالکل گورنمنٹ کالج، سٹلائٹ ٹاؤں والا۔
ہم چھ سات لڑکے واپسی میں اکٹھے آیا کرتے تھے سائیکلوں پر اور راستے میں شرارتیں بھی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار سید پور روڈ سے واپس آتے تھے۔
شروع میں تو میں اکیلا آیا کرتا تھا لیکن دوسرے سال میرے ساتھ ایک اور دوست آیا کرتا تھا ہم نے بھی بہت شرارتیں کی لیکن میں نے دوسرے سال کے شروع میں ہی توبہ کر لی تھی سید پور روڈ پر تو میں بھی آتا جاتا رہا ہوں


بہت خوب خرم بھائی۔

ویسے دو چاندنی چوک کوئٹہ میں‌بھی ہے ۔
اچھا ارے بھائی معلوم کر کہاں کہاں چاندنی چوک ہیں مجھے بھی کچھ پتہ چلے

بسم اللہ، خوش آمدید، جی آیاں نوں

خیر سے اجازت مل گئی، بہت خوشی کی بات ہے۔

ویسے جب کالج میں پڑھتے تھے تو تب تو لڑکے ہی تھے ناں۔


ویسے تو آپ ابھی بھی لڑکے ہی ہو :grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم اس پنڈی والے چاندنی چوک سے میری بڑی پرُانی یادیں وابستہ ہیں :party: چاندنی چوک سے لفٹ والی طرف روڈ پے بلکل سامنے اک بہت بڑا بنگلہ ہے ۔ وہاں میرا بچپن گزرا ہے ۔۔ ابو کو ملا ہوا تھا سرکاری گھر ،جب ابو ایس۔ پی تھے ۔، یہی اسی بڑے سے گھر کے دو بڑے بڑے حصے بنے ہوئے تھے ، باہر کیطرف آفس ہوا کرتا تھا ، اور اندر کی طرف گھر ۔۔ یہ پنڈی کا آخری گھر تھا جس میں ہم ابو کے ساتھ رہے کیونکہ اسی گھر میں ابو کی ڈیتھ ہوئی تھی ہارٹ اٹیک سے :( :sad2: مگر یہ چاندنی چوک ہمارے لئے بہت اہم بن گیا ۔۔ بچپن گزرا یہاں ، کبھی بھولا ہی نہیں ، آج بھی چاندنی چوک سے کوئی گزرتا ہے تو ہم اپنے گھر کی طرف نظر ضرور ڈالتے ہیں ۔۔ اور ذکر کرتے ہیں :sad2:

چاندنی چوک پر میں نے بھی پانچ سال گزارے ہیں اور میری بھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں اس کے ساتھ میں تو چاندنی چوک سے فیض آباد تک اور صدر تک پیدل جایا کرتا تھا ایسی بات نہیں کے میرے پاس کرایہ کے پیسے نہیں ہوتے تھے یا مجھے پیدل چلنے کا شوق تھا صرف اس لے کے پیدل چلنے میں وقت زیادہ لگتا تھا اور میں اتنی دیر ورکشاپ سے باہر ہی رہتا تھا ہی ہی ہی:grin:
 
Top