فانی غزل - ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا - فانی بدایونی

محمد وارث

لائبریرین
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

(فانی بدایونی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ کیا غزل ہے وارث صاحب - آج کل تو اسکے اشعار ہی ذہن پر چھائے ہوئے ہیں‌- بہت شکریہ پوسٹ کے لئے!
 
غزل - ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا - شوکت علی فانی

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غمگسار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ ناخوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی امیدوار تھا ، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو ساز گار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغل فصلِ بہار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے!
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

مہرباں یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

شوکت علی فانی​
 
واہ بہت خوب! بہت زبردست جناب پیاسا صحرا جی! اچھی غزل شیئر کی ہے۔ واہ!
شوکت علی فانی صاحب کو پہلی مرتبہ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ بہت خوب۔ مزید کلام سے نوازیے گا۔ شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ بہت خوب! بہت زبردست جناب پیاسا صحرا جی! اچھی غزل شیئر کی ہے۔ واہ!
شوکت علی فانی صاحب کو پہلی مرتبہ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ بہت خوب۔ مزید کلام سے نوازیے گا۔ شکریہ

یہ شوکت علی فانی اصل میں فانی بدایونی ہیں۔ کیا آپ نے فانی بدایونی کی غزل پہلے کبھی نہیں پڑھی؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

واہ ۔۔۔۔! کیا خوبصورت غزل ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا
 
Top