میری پہلی غزل "محفل" کی نذر

محمد وارث

لائبریرین
لیکن سعیِ والے شعر میں میں مغل اور وارث دونوں صاحبان سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سعی میں ع اور ی دونوں ساکن ہیں۔ مغل نے بھی اسے ’سَ عِی عے‘ بر وزن فعولن تقطیع کیا ہے۔ یہ تلفظ غلط ہے میرے خیال میں۔ سعی در اصل بر وزن فعل، جیسے "سحر‘ یا’سرد‘ باندھا جانا چاہئے۔ سحر بمعنی جادو۔۔۔ صبح کے معنوں میں سَحَر نہیں۔

آپ کی رائے صائب ہے اعجاز صاحب اور میں اپنی رائے سے رجوع کرتا ہوں۔

حیرت ہے سامنے کی بات تھی اور مجھ سے چھپی رہی کہ لغات میں ڈھونڈتا رہا، غالب کا خوبصورت شعر ہے:

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

یہاں 'سعی' بروزنِ 'درد' ہی بندھا ہے نا کہ بروزنِ 'سَبَب'۔

شکریہ آپ کا اعجاز صاحب۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ وارث۔ ماشاء اللہ تمہارے پاس حوالے تیار رہتے ہیں۔ وہ کتابی حوالے ہوں یا شعری مثالیں۔اف،۔۔۔ یری یاد داشت۔۔ کبھی کام نہیں کر تی کہ سند پیش کروں اساتذہ سے۔
 

مغزل

محفلین
جناب جناب
بالاتّفاق یہ مصرع:
جسے سمجھے تھے سعئِ رائیگاں ہم
ہی درست ہے۔۔ (یعنی تھے کے ساتھ)
نیاز مند۔
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
وارث صاحب زحمت کیلئے معذرت خواہ ہوں۔
رات ایک چائے خانے میں
جناب سرور جاوید (شاعر، نقّاد، صحافی(ایکسپریس)، فراست رضوی ،
احمد امتیاز سمیت دیگر شعراء "سعی" کے حوالےسے بات رہی ان کے کہنے
کے مطابق " اطہر ہاپوڑی" اور " انشا" کے ہاں سعی بروزنِ سبب استعمال ہوا
ہے اور ویسے لفظ بروزنِ نفی یا درد ہی کے ہے مگر اضافت کے ساتھ ۔۔
سَعْئیِ رائگاں ۔۔ اس میں گرچہ عین خفی ہے مگر ء بطور رکن موجود ہے۔۔۔۔۔ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔۔۔ میں ایک دو روز میں ان صاحبان سے اسناد لیکر یہاں پیش کردوں گا۔

نیاز مند۔
م۔م۔مغل
 

الف عین

لائبریرین
سعی عربی ہے اور عربی میں اس کا یہی تلفظ ہے۔ اگر سعی بطور سبب ولا جاتا ہے یا شاعری میں باندھا گیا ہے تو یہ شعراء ضرورت؟ شعری کہہ گئے ہوں گے لیکن غلطی بہر ھال غلطی ہے، چاہے وہ غالب سے سرزد ہوئی ہو۔ جیسا کہ غالب کے کلام میں ایطا کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں غالب کی سند کے بعد 'سعی' کے درست تلفظ میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے یعنی 'سع ی' نا کہ 'سَ عی'۔

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

دوس غم خا - فاعلاتن
ری مِ میری - فاعلاتن
سع ی فر ما - فاعلاتن
ئی گِ کا - فاعلن

فرخ صاحب کے شعر میں میرے خیال میں سعیٔ رائگاں'، ہمزہ کی اضافت کی وجہ سے تھوڑی سی مزید کنفیوژن پیدا کر رہی ہے، شاید اسے 'زیر' کی اضافت کے ساتھ ہونا چاہیئے یعنی 'سعیِ رائگاں' (لیکن میں اس سلسلے میں قطعی بات نہیں کر سکتا)

جسے سمجھے تھے سعیِ رائگاں ہم

جسے سمجے - مفاعیلن
تِ سع یے را - مفاعیلن
ء گا ہم - فعولن

ویسے مجھے بھی اشتیاق ہو گیا ہے مغل صاحب کا مراسلہ پڑھ کر، اگر کچھ اشعار دیگر اساتذہ کے مل سکیں تو مزید بات واضح ہو گی، میں بھی ڈھونڈنے کی کوشش کرونگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں نے میر اور اقبال کا کلام دیکھنی کی 'سعی' کی ہے، 'سعی' کو ڈھونڈنے کیلیئے اور ان دونوں کے کئی اشعار ملے، جس میں 'سعی' بندھا ہے اور سبھی میں 'سعی' عین ساکن کے ساتھ یعنی بروزنِ 'درد' کے وزن پر پایا اور یہ بھی کہ 'سعی' کو اضافت کے ساتھ لکھنے کا صحیح طریقہ 'زیر' کے ساتھ ہے نا کہ 'ہمزہ' کے ساتھ یعنی 'سعیِ رائیگاں' نا کہ 'سعیٔ رائیگاں'۔ کچھ اشعار لکھتا ہوں۔

میر تقی میر

سعیِ طوفِ حرم نہ کی ہر گز
آستاں پر ترے مقام کیا
(بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع)

کب تک خرابِ سعیِ طوافِ حرم رہوں
دل کو اُٹھا کے بیٹھ رہوں گا کُنشت میں
(بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف)

بہت سعی کر یے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
(بحر متقارب مثمن محذوف)


علامہ اقبال

کس قدر لذّت کشودِ عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
(بحر رمل مثمن محذوف)

بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنّائے دلی آخر بر آئی سعیِ پیہم سے
(بحر ہزج مثمن سالم)

اسکے علاوہ دو شعر اور دیکھیئے

سعی تو کی وصل کی ہم نے بہت
جب نہ کچھ قابو چلا تو مر چلے
(امیر مینائی، بحر رمل مسدس محذوف)

ایک نے آ کے مری سعی نہ کی قاتل سے
کیا کوئی دوست مرا گبر و مسلماں میں نہ تھا
(مصحفی، بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع)
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ وارث صاحب آپ نے تفصیل سے پیش کیا ، فرخ منظور صاحب آپ کر غزل پر ایک بار پھر مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
 

آصف شفیع

محفلین
ٍفرخ بھائی! سب سے پہلے تو آپ کو مبارکباد کہ آپ نے شاعر ہونے کا باقاعدہ طور پر اعلان کر دیا۔
اب غزل کی بحث کی طرف آتے ہیں۔ میں ایک بار پھر فرخ کا شکریہ کا ادا کروں گا کہ ان کی اس غزل کی وجہ سے اتنے اہم نکات واضح ہوئے جس کی طرف عمومی طور پر ہم دھیان نہیں دیتے۔ اعجاز صاحب، وارث صاحب اور مغل صاحب کی بحث سے بہت سے کنسیپٹ کلیئر ہوئے۔
سعی کی حوالے سے میں بھی اسے فعو کے وزن پر ہی سمجھ رہا تھا مگر اعجاز صاحب کی نشان دہی پر وارث صاحب نے حوالے کے طور پر جو اشعار پیش کیے اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی اور یہ واضح ہو گیا کہ سعی کا وزن فعو نہیں بلکہ فعل ہے۔
مطلع کے حوالے سے میں اعجاز صاحب سے اتفاق کروں گا کہ ایطا عیبِ سخن ہے اور اس مطلع میں یقینا ایطا موجود ہے شاید ایطائے خفی ہے۔ میرے خیال میں اگر شاعر نے مطلع میں قیادت اور سیادت کے قافیے سلیکٹ کیے ہیں تو اسے باقی قافیے بھی اسی طرح ( عیادت وغیرہ)۔ استعمال کرنے چاہیئں لیکن چونکہ بہت سے لوگوں نے اس سے اجتناب نہیں کیا لہذا ایک مبتدی کیلیے ما فی مشکلہ۔ لیکن یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ عیب ہے
پوری غزل کا مجموعی تاثر میرے نزدیک یہ بنتا ہے کہ اگرچہ پوری غزل وزن میں ہے اشعار بھی مناسب ہیں لیکن کچھ اشعار میں ابلاغ کا مسئلہ ضرور ہے۔
مطلع میں یہ واضح نہیں کہ قیادت جو میسر ہوئی ہے وہ کس طرح جہالت پر مبنی ہے یا جاہل ہے، جہالت سیادت تو ہوئی لیکن کس طرح اس کا سبب کیا تھا۔ یہ اس شعر سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ بس قافیہ پیمائی لگتی ہے۔ دوسرے شعر میں بھی نہ فاعل ہے اور نہ مفعول ۔ کسے دعا دی جاتی تھی اور کس کی شہادت ہوئی؟
پانچویں شعر میں بھی یہ واضح نہیں کیا گیا کہ قدموں کو کہاں جانے کی عادت ہوئی ہے۔ یہ بات دوسرے مصرعے میں ہونی چاہیئے تھی۔
مرے قدموں کو عادت ہو گئی ہے۔
کس چیز کی؟
ایک اور بات کہ فرخ صاحب آج کا دور تو جدید غزل کا ہے نئی علامتیں استعمال کریں یا انہیں جدید انداز میں پیش کریں۔ امید ہے آئندہ آپ کی غزلوں میں مزید بہتری آئے گی۔
 

محسن حجازی

محفلین
تمام طرف سے قینچیاں استرے چل چکے اب ہمارے نشتر جانفزا کو بھی کچھ موقع ملنا چاہئے۔

میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
جہالت ہی سیادت ہوگئی ہے

کیا کہنے! کیا ہی کہنے! سبحان اللہ! کیا مضمون باندھا ہے سماجی حالات کی خوب نقشہ کشی ہے تاہم ایطائے خفی وغیرہ کی تہمت اساتذہ کی جانب سے ہے ہم کو کچھ ایسا نہیں دکھائی دیا یہی اساتذہ ہماری غزل گوئي کو خطائے جلی قرار دیتے ہیں۔ :grin:

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

کیا کہنے! سبحان اللہ! سفر سخن کے آغاز میں ہی مرنے مارنے کی باتیں۔

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

خوش قسمتی ہے جناب کی۔

جسے سمجھے تھے سعئ رائگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

بہت خوب۔۔۔

ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے

کیا کہنے۔۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے۔


تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے

یہ سعادت ہم کو کب ہو گی؟ ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ ہریڑ اور آملے کے مربے وغیرہ شروع کیے جائيں۔

بہرطور، فرخ بھائی پہلی غزل بہت مبارک ہو! امید ہے مزید پڑھنے کو ملتا رہے گا۔
 

جیہ

لائبریرین
میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
جہالت ہی سیادت ہوگئی ہے

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

جسے سمجھے تھے سعئ رائگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے

تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے

اس غزل کی اصلاح محمد وارث صاحب کی مرہونِ منت ہے - بہت شکریہ وارث صاحب !

میں نے تو یہ غزل دیکھی ہی نہ تھی۔ واقعی بہلی ہی کاوش اور اتنی اچھی ۔ بہت خوب

یہ دو شعر تو بہت ہی اچھے لگے

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

جسے سمجھے تھے سعئ رائگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

ویسے کیا "شہادت ہونا" اور "سعادت ہونا"
محاورات صحیح ہیں؟ اعتراض نہیں کر رہی ، سمجھنا چاہتی ہوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمام طرف سے قینچیاں استرے چل چکے اب ہمارے نشتر جانفزا کو بھی کچھ موقع ملنا چاہئے۔

میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
جہالت ہی سیادت ہوگئی ہے

کیا کہنے! کیا ہی کہنے! سبحان اللہ! کیا مضمون باندھا ہے سماجی حالات کی خوب نقشہ کشی ہے تاہم ایطائے خفی وغیرہ کی تہمت اساتذہ کی جانب سے ہے ہم کو کچھ ایسا نہیں دکھائی دیا یہی اساتذہ ہماری غزل گوئي کو خطائے جلی قرار دیتے ہیں۔ :grin:

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

کیا کہنے! سبحان اللہ! سفر سخن کے آغاز میں ہی مرنے مارنے کی باتیں۔

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

خوش قسمتی ہے جناب کی۔

جسے سمجھے تھے سعئ رائگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

بہت خوب۔۔۔

ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے

کیا کہنے۔۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے۔


تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے

یہ سعادت ہم کو کب ہو گی؟ ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ ہریڑ اور آملے کے مربے وغیرہ شروع کیے جائيں۔

بہرطور، فرخ بھائی پہلی غزل بہت مبارک ہو! امید ہے مزید پڑھنے کو ملتا رہے گا۔


بہت شکریہ محسن اتنے خوبصورت تبصرے کے لئے۔ لیکن میرا خیال ہے آپ کو کوئی مربہ کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کی نثر اتنی خوبصورت ہے کہ آپ کو شاعروں کے جمِ غفیر میں شامل ہونے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس ہجوم میں‌ آپ کہیں کھو جائیں۔ جبکہ آپ کی نثر اپنا منفرد مقام رکھتی ہے آپ نثر پر ہی توجہ مرکوز رکھیں۔ :happy:
 

آصف شفیع

محفلین
میں نے تو یہ غزل دیکھی ہی نہ تھی۔ واقعی بہلی ہی کاوش اور اتنی اچھی ۔ بہت خوب

یہ دو شعر تو بہت ہی اچھے لگے

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

جسے سمجھے تھے سعئ رائگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

ویسے کیا "شہادت ہونا" اور "سعادت ہونا"
محاورات صحیح ہیں؟ اعتراض نہیں کر رہی ، سمجھنا چاہتی ہوں

شہادت ہوتی ہے اور سعادت حاصل ہوتی ہے۔ یہ دونوں الفاظ صحیح طریقے سے نہیں برتے جاسکے۔
 
Top