فرخ منظور

لائبریرین
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو

نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپاکر سب کیا ہے روز روشن کو

اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو

قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو

تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں
قفس میں بھی سلام شوق کرلیتے ہیں گلشن کو

سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو

کمی ہوگی نہ بعد مرگ بھی بےتابیء دل میں
قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو

تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے
چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو

یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو


از خواجہ حیدر علی آتش
 
Top