ہمارے ایک استادِ محترم اپنی بیگم کے ساتھ کینیڈا سے تشریف لا رہے تھے۔ ان کا ارادہ بہاول پور آنے کا بھی تھا۔ میں نے انھیں درخواست کی کہ ہمارے گھر ہی رہیں یا کم از کم ایک وقت کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ وہ کھانے کے لیے راضی ہو گئے۔
میں نے کھانے میں کسی خاص شے کا پوچھا جو وہ پسند کرتے ہوں تو انھوں نے کہا کہ میں ان کے لیے اونٹ کے دودھ کا انتظام ضرور کروں اور کھانے میں چھوٹا گوشت اور کدو کھائیں گے۔
میں نے سوچا کہ کچھ اور پرہیز نہ ہو تو احتیاطاً دوبارہ پوچھ لیا۔ انھوں نے اب ذرا کھُل کے بتایا کہ گرم مصالحہ کے فلاں اجزاء اور صرف کالی مرچ بس۔
بیگم کیا کھانا پسند کرتی ہیں؟
وہ انسانوں والے کھانے کھاتی ہیں۔ (ان کا مخصوص قہقہہ)
اونٹ کا دودھ کئی لوگوں کو کہا تو بالآخر مل گیا۔ اسی کا میٹھا بنایا، دہی بنائی۔ اسی سے کھانے کے بعد صرف ان کی چائے بنائی۔ کباب، پلاؤ اور کدو گوشت چھوٹے کا۔ بیگم کے لیے عام طریقے سے۔
سر اتنے خوش ہو کے کھانا کھا رہے تھے کہ میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ انھوں نے خوب سیر ہو کے کھانا کھایا۔ چائے پی۔ پھر ہم باتیں کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے مہمان خانے کے خانسامہ نے باوجود تاکید کرنے کے، ہری مرچ ڈال دی کھانے میں کہ ذائقہ اچھا ہو جائے گا۔
یہ سُن کر میں نے باقی بچا کھانا ڈبوں میں پیک کر دیا۔
بہت خوبصورت یاد ہے۔
میرے محترم استاد اور میرے محسن ہیں وہ۔ بس اب وہی رہ گئے ہیں اساتذہ میں شاید۔
اللہ پاک جانے والوں کو وہاں اور یہاں والوں کو یہاں آسانیاں عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے اساتذہ سمیت سب بڑوں کو چلتے ہاتھ پاؤں رکھے۔ کسی کا محتاج نہ کرے۔ اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے۔ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!