پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

آورکزئی

محفلین
12274458_992909350765802_3010722104258605258_n.jpg
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے یہ لگتا تھا کہ ڈیوڑھی دروازہ کے بعد آتی ہے۔ دروازہ سے اندر آئیں تو سامنے ایک دیوار کہ جس کے دونوں اطراف سے گذر کے گھر کے اندر جایا جا سکتا تھا۔
اوپر جس تصویر میں دروازہ کے بعد کا تھوڑا منظر ہے، یہ بھلا کیا ہے؟ دروازہ کے فوراً بعد۔
میں اسے ڈیوڑھی سمجھتی تھی۔
ڈیوڑھی مکان کی بیرونی دیوار سے باہر ہوتی ہے ۔ جیسا کہ اوپر مراسلے میں بھی لکھا کہ ڈیوڑھی کے اوپر چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ اس میں سیڑھیاں بھی ہوسکتی ہیں ، یہ چبوترہ بھی ہوسکتا ہے اور دونوں بھی ۔ دہلیز پار کرکے جب گھر میں داخل ہوں تو فوراً ہی دالان یا ورانڈہ یا برآمدہ آتا ہے ۔ اس کے اوپر بھی چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ جبکہ صحن یا آنگن دالان کے بعد آتا ہے اور اوپر سے کھلا ہوتا ہے ۔ اوپر کی تصویر میں ڈیوڑھی تو پوری نظر نہیں آرہی ۔ لیکن چھوٹا سا برآمدہ اور اس کے بعد صحن کا کچھ حصہ دکھائی دیتا ہے ۔ یہ کسی پرانی حویلی کی تصویر ہے اور اس کا اندرونی نقشہ پیچیدہ سا معلوم ہوتا ہے ۔
 

جاسمن

لائبریرین
دہلیز پار کرکے جب گھر میں داخل ہوں تو فوراً ہی دالان یا ورانڈہ یا برآمدہ آتا ہے ۔
دالان اور برآمدہ اردو کا لفظ ہے؟ ورانڈہ انگریزی کا۔
پورچ بھی انگریزی کا لفظ ہے اور ڈیوڑھی اسی کو کہتے ہیں۔ مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ ہم تو پورچ کو بس گاڑی ٹھہرانے کی جگہ سمجھتے تھے اور ہم لوگ اس کے دیگر استعمالات اپنی مرضی کے بھی کرتے ہیں۔:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دالان اور برآمدہ اردو کا لفظ ہے؟ ورانڈہ انگریزی کا۔
پورچ بھی انگریزی کا لفظ ہے اور ڈیوڑھی اسی کو کہتے ہیں۔ مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ ہم تو پورچ کو بس گاڑی ٹھہرانے کی جگہ سمجھتے تھے اور ہم لوگ اس کے دیگر استعمالات اپنی مرضی کے بھی کرتے ہیں۔:)
خواہرم جاسمن ، دالان اور برآمدہ اردو کے الفاظ ہیں ۔ ورانڈہ انگریزی کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہندوستانی لفظ ہے اور انگریزوں کے توسط سے انگریزی میں داخل ہوا ۔ ہندوستان میں یہ لفظ پرتگیزی لائے تھے ۔
یہ آپ نے بالکل درست کہا کہ ڈیوڑھی کو انگریزی میں پورچ کہتے ہیں ۔
وقت کے ساتھ ساتھ تمدن بھی بدلتا جارہا ہے ، سو چیزوں کا استعمال بھی تبدیل ہورہا ہے ۔ پہلے ڈیوڑھی میں ہاتھی جھولتے تھے اب کار کھڑی ہوتی ہے ۔ :):):)
 

زیک

مسافر
برآمدہ اردو کے الفاظ ہیں ۔ ورانڈہ انگریزی کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہندوستانی لفظ ہے اور انگریزوں کے توسط سے انگریزی میں داخل ہوا ۔ ہندوستان میں یہ لفظ پرتگیزی لائے تھے ۔
برآمدہ ورانڈہ سے نکلا لگتا ہے- یا اس کی اصل کچھ اور ہے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
برآمدہ ورانڈہ سے نکلا لگتا ہے- یا اس کی اصل کچھ اور ہے؟
برآمدہ تو فارسی الاصل ہے ۔ برآمد یعنی (باہر) نکلنا سے مشتق لفظ ہے ۔ چونکہ برآمدہ گھر کی اصل عمارت سے باہر ہوتا ہے اور اسے عبور کرکے گھر سے باہر نکلا جاتا ہے اس لئے برآمدہ کہلاتا ہے ۔
ورانڈا (یا ورانڈہ) کی متغیر شکلیں ورنڈا ، برانڈا اور برنڈا ہیں ۔ جان پلاٹس نے اپنی مشہور لغت میں ورانڈا کے کئی متغیرات لکھے ہیں ۔
 

زیک

مسافر
برآمدہ تو فارسی الاصل ہے ۔ برآمد یعنی (باہر) نکلنا سے مشتق لفظ ہے ۔ چونکہ برآمدہ گھر کی اصل عمارت سے باہر ہوتا ہے اور اسے عبور کرکے گھر سے باہر نکلا جاتا ہے اس لئے برآمدہ کہلاتا ہے ۔
ورانڈا (یا ورانڈہ) کی متغیر شکلیں ورنڈا ، برانڈا اور برنڈا ہیں ۔ جان پلاٹس نے اپنی مشہور لغت میں ورانڈا کے کئی متغیرات لکھے ہیں ۔
اس فارسی لغت میں “برآمدہ” موجود ہے لیکن اس کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں۔ ورانڈہ اور برآمدہ اتنے ملتے جلتے ہیں (اور ب اور و اکثر ایک دوسرے کا بدل ہوتے ہیں) کہ اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا آپس میں تعلق ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس فارسی لغت میں “برآمدہ” موجود ہے لیکن اس کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں۔ ورانڈہ اور برآمدہ اتنے ملتے جلتے ہیں (اور ب اور و اکثر ایک دوسرے کا بدل ہوتے ہیں) کہ اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا آپس میں تعلق ہے۔
لفظ برآمدہ کا " ورانڈہ" کی بگڑی ہوئی شکل ہونا تو قرین از قیاس نہیں کیونکہ برآمدہ " برآمد" سے مشتق ہے ۔ برآمد فارسی کا اصیل لفظ ہے اور اس کے معنی آگے کو نکلنا ، باہر کی طرف نکلنا وغیرہ ہیں ۔ چونکہ برآمدہ گھر سےذرا باہر کی طرف ہوتا ہے اس لئے برآمدہ کہلاتا ہے ۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ ورانڈہ کا لفظ برآمدہ کی بگڑی ہوئی شکل ہو ۔ اس کے لئے تحقیق کرنی پڑے گی کہ اہلِ فارس اور پرتگیزیوں کا تاریخی طور پر آپس میں کب اور کس نہج پر تعلق رہا ہے ۔ قدیم ادوار میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک الفاظ کا سفر عام طور پر تجارت و سیاحت کے ذریعے ہوا کرتا تھا یا پھر جنگ و جدل کے نتیجے میں کشور کشائی اس کا سبب بنتی تھی ۔
 

آورکزئی

محفلین
لفظ برآمدہ کا " ورانڈہ" کی بگڑی ہوئی شکل ہونا تو قرین از قیاس نہیں کیونکہ برآمدہ " برآمد" سے مشتق ہے ۔ برآمد فارسی کا اصیل لفظ ہے اور اس کے معنی آگے کو نکلنا ، باہر کی طرف نکلنا وغیرہ ہیں ۔ چونکہ برآمدہ گھر سےذرا باہر کی طرف ہوتا ہے اس لئے برآمدہ کہلاتا ہے ۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ ورانڈہ کا لفظ برآمدہ کی بگڑی ہوئی شکل ہو ۔ اس کے لئے تحقیق کرنی پڑے گی کہ اہلِ فارس اور پرتگیزیوں کا تاریخی طور پر آپس میں کب اور کس نہج پر تعلق رہا ہے ۔ قدیم ادوار میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک الفاظ کا سفر عام طور پر تجارت و سیاحت کے ذریعے ہوا کرتا تھا یا پھر جنگ و جدل کے نتیجے میں کشور کشائی اس کا سبب بنتی تھی ۔

ہمارے لولکل پشتو میں اسے برانڈہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20200728-140948.jpg

IMG-20200728-141005.jpg

IMG-20200728-140829.jpg

سیدھا برقعہ گو اور رنگوں کا بھی ہوتا تھا تاہم سفید لٹھے کا خاص طور پہ اور کسی اور سفید کپڑے کا عام طور پہ بنایا جاتا تھا۔ اس کے اوپر سے سموکنگ کے کام کی ٹوپی سی جاتی تھی(یہ ٹوپی علیحدہ بنا کر برقعہ کے ساتھ سلائی کی جاتی تھی) اور آنکھوں والے حصہ پہ کشیدہ کاری کے ذریعہ جالی بنائی جاتی تھی۔ جالی کے نیچے بھی کڑھائی ہوتی تھی۔ کڑھائی کے نقش و نگار مخصوص ہوتے تھے۔
کڑھائی اور سموکنگ کے لیے اسی رنگ کے ریشمی دھاگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا، جس رنگ کے کپڑے کا برقعہ ہوتا تھا۔
اللہ بخشے میری نانی جان پہنا کرتی تھیں۔ سفید لٹھے کا برقعہ۔ بہت نفیس۔ ظاہر ہے کہ ہماری پچھلی نسلوں میں اور خواتین بھی پہنتی ہوں گی۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
IMG-20200728-140948.jpg

IMG-20200728-141005.jpg

IMG-20200728-140829.jpg

سیدھا برقعہ گو اور رنگوں کا بھی ہوتا تھا تاہم سفید لٹھے کا خاص طور پہ اور کسی اور سفید کپڑے کا عام طور پہ بنایا جاتا تھا۔ اس کے اوپر سے سموکنگ کے کام کی ٹوپی سی جاتی تھی اور آنکھوں والے حصہ پہ کشیدہ کاری کے ذریعہ جالی بنائی جاتی تھی۔ جالی کے نیچے بھی کڑھائی ہوتی تھی۔ کڑھائی کے نقش و نگار مخصوص ہوتے تھے۔
کڑھائی اور سموکنگ کے لیے اسی رنگ کے ریشمی دھاگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا، جس رنگ کے کپڑے کا برقعہ ہوتا تھا۔
اللہ بخشے میری نانی جان پہنا کرتی تھیں۔ سفید لٹھے کا برقعہ۔ بہت نفیس۔ ظاہر ہے کہ ہماری پچھلی نسلوں میں اور خواتین بھی پہنتی ہوں گی۔
ہماری بھی کچھ بزرگ خواتین کے پاس یہی ہوا کرتا تھا ۔ بچپن میں تو کافی نظر ایا کرتا تھا ۔ اب یکسر مفقود ہے ۔شاید اب تو دیہات میں بھی نظر نہیں آتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہماری بھی کچھ بزرگ خواتین کے پاس یہی ہوا کرتا تھا ۔ بچپن میں تو کافی نظر ایا کرتا تھا ۔ اب یکسر مفقود ہے ۔شاید اب تو دیہات میں بھی نظر نہیں آتا۔

نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہاں دیہات میں نظر آ جاتا ہے ابھی بھی۔ بلکہ کبھی کبھی یہاں شہر میں بھی۔
 
ان بنٹوں، بانٹوں، کنچوں یا گولیوں سے کھیلتے بچپن کا ایک بڑا حصہ گزرا۔ گھر میں ان کی موجودگی کا انکشاف ابا جی کے مزاج اور میرے ’پِنڈے‘ پر سخت گراں گزرتا رہا ہے۔ باوجود ہفتے میں ایک آدھ بار ’لتر پولا‘ ہونے کے، میں باز پھر بھی نہیں آتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بارشیں خوب ہونی تو کالونی کے میدانوں، اور گلیوں کے کونوں کھدروں میں بھنگ خوب اُگ جایا کرتی۔ انھی بھنگ کے باغات میں میرے بے تحاشہ جیتے ہوئے بنٹوں کا مستقل مسکن ہوتا۔ موٹی اونی لمبی سی جرابوں میں چھپا کر بھنگ کے پودوں کے درمیان کہیں چھوٹا موٹا گھڑا کھود کر دبا دیا کرتا تھا۔ جب سو فیصد یقین ہوتا کہ ابا جی اگلے دو چار گھنٹے گھر یا ایریا میں نہیں ہوں گے تو چھپ چھپا کر وہاں سے پندرہ بیس نکالنے اور پھر انھیں اگلے آدھے پونے گھنٹے میں ڈبل ٹرپل کر کے پھر لا چھپانا۔

صحیح سے یاد نہیں کہ ایک روپے کے 20 یا 30 ملا کرتے تھے، اور بچپن کے بے شمار سالوں میں، ہر سال میں بس ایک ہی بار خریدتا۔ روزانہ نیا ٹارگٹ سیٹ کرتا کہ آج اتنے کرنے ہیں اور پھر بس۔ جب دو تین ماہ میں آٹھ دس جرابیں بھر جاتیں تو ان سے دل اوب جاتا اور کچھ نیا کرنے کے شوق میں حاتم طائی بن کر سب دوستوں، یاروں اور جن سے جیتے ہوتے انھی کو دان کر دیتا۔ کیا مزیدار زمانہ تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ان بنٹوں، بانٹوں، کنچوں یا گولیوں سے کھیلتے بچپن کا ایک بڑا حصہ گزرا۔ گھر میں ان کی موجودگی کا انکشاف ابا جی کے مزاج اور میرے ’پِنڈے‘ پر سخت گراں گزرتا رہا ہے۔ باوجود ہفتے میں ایک آدھ بار ’لتر پولا‘ ہونے کے، میں باز پھر بھی نہیں آتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بارشیں خوب ہونی تو کالونی کے میدانوں، اور گلیوں کے کونوں کھدروں میں بھنگ خوب اُگ جایا کرتی۔ انھی بھنگ کے باغات میں میرے بے تحاشہ جیتے ہوئے بنٹوں کا مستقل مسکن ہوتا۔ موٹی اونی لمبی سی جرابوں میں چھپا کر بھنگ کے پودوں کے درمیان کہیں چھوٹا موٹا گھڑا کھود کر دبا دیا کرتا تھا۔ جب سو فیصد یقین ہوتا کہ ابا جی اگلے دو چار گھنٹے گھر یا ایریا میں نہیں ہوں گے تو چھپ چھپا کر وہاں سے پندرہ بیس نکالنے اور پھر انھیں اگلے آدھے پونے گھنٹے میں ڈبل ٹرپل کر کے پھر لا چھپانا۔

صحیح سے یاد نہیں کہ ایک روپے کے 20 یا 30 ملا کرتے تھے، اور بچپن کے بے شمار سالوں میں، ہر سال میں بس ایک ہی بار خریدتا۔ روزانہ نیا ٹارگٹ سیٹ کرتا کہ آج اتنے کرنے ہیں اور پھر بس۔ جب دو تین ماہ میں آٹھ دس جرابیں بھر جاتیں تو ان سے دل اوب جاتا اور کچھ نیا کرنے کے شوق میں حاتم طائی بن کر سب دوستوں، یاروں اور جن سے جیتے ہوتے انھی کو دان کر دیتا۔ کیا مزیدار زمانہ تھا۔
چوہدری صاحب ہمارا بچپن بھی کچھ ایسے ہی گزرا ہے۔ ہمیں والد صاحب سے زیادہ محلے کے ایک ماما جی سے ڈر لگتا تھا، تھے تو وہ میری امی کے سگے ماموں لیکن سارے محلے ہی کے "ماما" تھے۔ ہمارے بنٹے اٹھا کر بڑی سی بد رو میں پھینک دیتے تھے جس سے نکالنے بھی محال ہوتے تھے، ان کے چھاپے سے بچنے کے لیے کھیلتے ہوئے پہریدار کھڑے کیے جاتے تھے۔ اور "بلوری" اور "لیشا" وغیرہ خوبصورت کنچوں کی قسمیں ہوتی تھیں جو اُس وقت جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتے تھے۔ :)
 
Top