زیک

مسافر
لِونگ رُوم میں پچھلے کچھ روز سے کبوتروں کی غٹر غوں سنائی دے رہی تھی۔ پھر ان کو دیکھ بھی لیا۔ بالکونی کی دیواروں پر پڑی پلاسٹک کی کیاریاں، جہاں پر پھول لگے ہوئے ہیں، وہاں پر میں نے ان کو دیکھا۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا بڑی کیاری میں پھولوں کے پودے کچھ مسلے ہوئے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے وہاں گھونسلہ بنانا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ وہ ٹہنیاں لے کر آ رہے ہیں۔بڑی کیاری میں پہلے سے لگے ہوئے پودوں کے علاوہ ایک پودے کا بیج میں نے بھی بویا اور پچھلے قریباً 10 ماہ سے سینچ رہا ہوں۔ گھونسلے کہ وجہ سے ڈر ہے کہ یہ پودے تباہ ہو جائیں گے۔ اب میں سوچ رہاہوں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے۔
اگر گھونسلے میں انڈے دے دیئے ہیں تو انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
محفلین کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
عرفان سعید جاسم محمد تابش صدیقی جاسمن زیک محمد وارث اور دیگر معززین و معززات
پودوں کو بڑھتے اور پھولوں کو کھلتے دیکھنے کا بھی ایک عجب ہی منظر ہے اور پرندوں کو گھونسلہ بناتے اور پھلتے پھولتے دیکھنا، واللہ کیا نظارہ ہوگا اور کیا کیفیات ہونگی، واہ واہ واہ۔ اللہ درجات بلند کرے مولانا ابوالکلام آزاد یاد آ گئے، "غبارِ خاطر" میں چڑے چڑیا کی کہانی ہے۔سبحان اللہ۔ :)
 
ہم سے بائیک کے چالان کی پرچی ضائع ہوگئی ہے۔:)
اب چالان جمع کروانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ کیا شناختی کارڈ نمبر یا پلیٹ کا نمبر کام آسکتا ہے؟
 
ہم سے بائیک کے چالان کی پرچی ضائع ہوگئی ہے۔:)
اب چالان جمع کروانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ کیا شناختی کارڈ نمبر یا پلیٹ کا نمبر کام آسکتا ہے؟
جس پولیس نے چالان کیا تھا ان کے ریکارڈ میں ہونا چاہیئے
آج ٹریفک پولیس کے دفتر حاضری ہوئی۔ اپنا مسئلہ بتایا جس کے جواب میں چودہ تاریخ کو دوبارہ آنے کا کہا گیا۔
 
آج ٹریفک پولیس کے دفتر حاضری ہوئی۔ اپنا مسئلہ بتایا جس کے جواب میں چودہ تاریخ کو دوبارہ آنے کا کہا گیا۔
آج دوبارہ ٹریفک پولیس کے محکمہ میں پہنچے۔ متعلقہ دفتر میں گئے جہاں پچھلی بار کی طرح تین ڈیوٹی آفیسر (ایک مرد اور دو خواتین) براجمان تھے۔ اور پچھلی بار کی طرح سر نیچے کیے موبائل میں خاصے منہمک تھے۔ پچھلی بار تین افسران کا یہ پینل ہماری جانب کافی دیر تک متوجہ نہ ہوا تھا اس لیے ہم نے "سوچی سمجھی اسکیم" کے تحت خاصی زوردار آواز میں سلام کیا۔ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اس بار بھی پورا پینل کسی گہری مصروفیت میں غرق تھا۔
آخر کار مرد آفیسر ہماری جانب ایک آنکھ سے متوجہ ہوئے اور سوالیہ نگاہوں سے ہمیں گھورا۔ ہم نے جونہی اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا وہ دوبارہ سر نیچا کر کے پھر سے موبائل میں کھوگئے۔ خیر ہم نے "سبق سنانے" کے انداز میں اپنا مسئلہ سنایا اور کہا کہ چالان کی پرچی گم ہوگئی ہے، میں وہ نکلوانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر سرد لہجے میں کہا:
"چالان نہیں مل سکتا۔ سیشن کورٹ جائیں۔"
سیشن کورٹ کے نام سے ہمارے دل کو ایک دھکا سا لگا اور چشم تصور سے ہم نے دیکھا کہ ہم کمرۂ عدالت کے کٹہرے میں دست بستہ کھڑے ہیں اور عدالت عالیہ ہم پر قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ چالان گم کرنے پر فرد جرم عائد کر رہی ہے۔
ہم نے منمناہٹ کے انداز میں خاتون افسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سسٹر نے تو کہا تھا کہ 14 تاریخ کو آجائیں۔ جواب میں وہ ہلکا سا کچھ بڑبڑائے اور خاموش ہوگئے۔
اب کمرے میں سناٹا تھا۔ اور ہم مرد آفیسر کی جانب رخ کیے "ہمیں نظرِ کرم کی بھیک ملے، اجی بھیک ملے۔۔۔۔" کی مجسم صورت بنے کھڑے تھے۔ :)
خاتون افسر جو ہمارے خیال میں خاصی مصروف تھیں اور ہماری جانب بالکل متوجہ نہیں تھیں اچانک ہم سے مخاطب ہوئیں کہ "گاڑی کا نمبر کیا ہے؟" ہمیں اس سوال پر خوشگوار حیرت ہوئی اور چچا غالب اور تغافل اور ہشیاری وغیرہ یاد آگئے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر آپ شعر تک پہنچ گئے ہیں تو اسپ تخیل کو لگام دیجیے کیونکہ معانی کے بحر ذخار اس شعر کے بہت سے مندرجات کا جائے وقوع سے کوئی تعلق نہیں۔
خاتون افسر نے معلومات ہم سے لے کر ایک کاغذ پر درج کیں۔ کچھ اور چیزیں لکھ کر پرچی ہمیں تھماتے ہوئے پھر اسی نامراد "سیشن کورٹ" جانے کو کہا۔
خیر ہم نے ہمت کی اور "وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونیں منظر سے" دہراتے ہوئے سیشن کورٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ روانہ کیا ہوئے، یوں کہیے کہ قدم قدم پر محبوب کی گلی کی مانند اس کا پتہ پوچھنے لگے کیونکہ یہ ہمارا سیشن کورٹ کی جانب یہ پہلا رخت سفر تھا۔ خدا خدا کرکے سیشن کورٹ پہنچے اور پوچھتے پچھاتے متعلقہ کمرے میں پہنچے۔
200 روپے کا چالان جس کے کٹنے کے وقت ہماری طبیعت پر منوں بوجھ تھا آج اس کا دگنا 400 روپے ادا کرتے وقت جاں بخشی کی اتنی خوشی تھی کہ گویا یہ 400 ہمیں مل رہے ہیں۔
یہ تھی ہمارے زندگی کے پہلے چالان کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس میں ہم پر وہی کیفیات گزریں جو عموماً پہلی چیزوں میں گزرا کرتی ہیں جیسے پہلی شادی، پہلی جاب وغیرہ وغیرہ
:):):)
 
آخری تدوین:
آج دوبارہ ٹریفک پولیس کے محکمہ میں پہنچے۔ متعلقہ دفتر میں گئے جہاں پچھلی بار کی طرح تین ڈیوٹی آفیسر (ایک مرد اور دو خواتین) براجمان تھے۔ اور پچھلی بار کی طرح سر نیچے کیے موبائل میں خاصے منہمک تھے۔ پچھلی بار تین افسران کا یہ پینل ہماری جانب کافی دیر تک متوجہ نہ ہوا تھا اس لیے ہم نے "سوچی سمجھی اسکیم" کے تحت خاصی زوردار آواز میں سلام کیا۔ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اس بار بھی پورا پینل کسی گہری مصروفیت میں غرق تھا۔
آخر کار مرد آفیسر ہماری جانب ایک آنکھ سے متوجہ ہوئے اور سوالیہ نگاہوں سے ہمیں گھورا۔ ہم نے جونہی اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا وہ دوبارہ سر نیچا کر کے پھر سے موبائل میں کھوگئے۔ خیر ہم نے "سبق سنانے" کے انداز میں اپنا مسئلہ سنایا اور کہا کہ چالان کی پرچی گم ہوگئی ہے، میں وہ نکلوانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر سرد لہجے میں کہا:
"چالان نہیں مل سکتا۔ سیشن کورٹ جائیں۔"
سیشن کورٹ کے نام سے ہمارے دل کو ایک دھکا سا لگا اور چشم تصور سے ہم نے دیکھا کہ ہم کمرۂ عدالت کے کٹہرے میں دست بستہ کھڑے ہیں اور عدالت عالیہ ہم پر قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ چالان گم کرنے پر فرد جرم عائد کر رہی ہے۔
ہم نے منمناہٹ کے انداز میں خاتون افسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سسٹر نے تو کہا تھا کہ 14 تاریخ کو آجائیں۔ جواب میں وہ ہلکا سا کچھ بڑبڑائے اور خاموش ہوگئے۔
اب کمرے میں سناٹا تھا۔ اور ہم مرد آفیسر کی جانب رخ کیے "ہمیں نظرِ کرم کی بھیک ملے، اجی بھیک ملے۔۔۔۔" کی مجسم صورت بنے کھڑے تھے۔ :)
خاتون افسر جو ہمارے خیال میں خاصی مصروف تھیں اور ہماری جانب بالکل متوجہ نہیں تھیں اچانک ہم سے مخاطب ہوئیں کہ "گاڑی کا نمبر کیا ہے؟" ہمیں اس سوال پر خوشگوار حیرت ہوئی اور چچا غالب اور تغافل اور ہشیاری وغیرہ یاد آگئے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر آپ شعر تک پہنچ گئے ہیں تو اسپ تخیل کو لگام دیجیے کیونکہ شعر کے بہت سے مندرجات کا جائے وقوع سے کوئی تعلق نہیں۔
خاتون افسر نے معلومات ہم سے لے کر ایک کاغذ پر درج کیں۔ کچھ اور چیزیں لکھ کر پرچی ہمیں تھماتے ہوئے پھر اسی نامراد "سیشن کورٹ" جانے کو کہا۔
خیر ہم نے ہمت کی اور "وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونیں منظر سے" دہراتے ہوئے سیشن کورٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ روانہ کیا ہوئے، یوں کہیے کہ قدم قدم پر محبوب کی گلی کی مانند اس کا پتہ پوچھنے لگے کیونکہ یہ ہمارا سیشن کورٹ کی جانب یہ پہلا رخت سفر تھا۔ خدا خدا کرکے سیشن کورٹ پہنچے اور پوچھتے پچھاتے متعلقہ کمرے میں پہنچے۔
200 روپے کا چالان جس کے کٹنے کے وقت ہماری طبیعت پر منوں بوجھ تھا آج اس کا دگنا 400 روپے ادا کرتے وقت جاں بخشی کی اتنی خوشی تھی کہ گویا یہ 400 ہمیں مل رہے ہیں۔
یہ تھی ہمارے زندگی کے پہلے چالان کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس میں ہم پر وہی کیفیات گزریں جو عموماً پہلی چیزوں میں گزرا کرتی ہیں جیسے پہلی شادی، پہلی جاب وغیرہ وغیرہ
:):):)
عبید بھائی آپ کا دلچسپ واقعہ پڑھ کر ہمیں آپ سے دل ہمدردی محسوس ہوئی ۔آپ کے احساسات اور ذہنی پریشانی کا اندازہ آپ کی اس تحریر سے ہو رہا ہے ۔اکثر اوقات زندگی کے کسی معاملے سے حاصل ہوا پہلا تجربہ انسان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔
 
بعض اوقات چھوٹی سی غلطی فائدہ بھی دے جاتی ہے۔
امی ابو کے لیے آنلائن ائر ٹکٹ بک کرتے ہوئے صدیقی میں ui کی جگہ uu لکھ گیا۔ جب پیمنٹ کرنے سیلز آفس گیا تو انہوں نے کہا کہ نام درست ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اسے کینسل کر کے دوبارہ بک کر دیں۔ دوبارہ بک ہونے سے فائدہ یہ ہوا کہ بکنگ آفیسر نے اپنا کوئی پرومو کوڈ بھی استعمال کیا اور دو ٹکٹ پر 15 ہزار کا فائدہ حاصل ہو گیا۔ :)
 

م حمزہ

محفلین
بعض اوقات چھوٹی سی غلطی فائدہ بھی دے جاتی ہے۔
امی ابو کے لیے آنلائن ائر ٹکٹ بک کرتے ہوئے صدیقی میں ui کی جگہ uu لکھ گیا۔ جب پیمنٹ کرنے سیلز آفس گیا تو انہوں نے کہا کہ نام درست ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اسے کینسل کر کے دوبارہ بک کر دیں۔ دوبارہ بک ہونے سے فائدہ یہ ہوا کہ بکنگ آفیسر نے اپنا کوئی پرومو کوڈ بھی استعمال کیا اور دو ٹکٹ پر 15 ہزار کا فائدہ حاصل ہو گیا۔ :)
اسکا مطلب یہ ہوا کہ ایر سروس بحال کر دی گئی ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
آج دوبارہ ٹریفک پولیس کے محکمہ میں پہنچے۔ متعلقہ دفتر میں گئے جہاں پچھلی بار کی طرح تین ڈیوٹی آفیسر (ایک مرد اور دو خواتین) براجمان تھے۔ اور پچھلی بار کی طرح سر نیچے کیے موبائل میں خاصے منہمک تھے۔ پچھلی بار تین افسران کا یہ پینل ہماری جانب کافی دیر تک متوجہ نہ ہوا تھا اس لیے ہم نے "سوچی سمجھی اسکیم" کے تحت خاصی زوردار آواز میں سلام کیا۔ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اس بار بھی پورا پینل کسی گہری مصروفیت میں غرق تھا۔
آخر کار مرد آفیسر ہماری جانب ایک آنکھ سے متوجہ ہوئے اور سوالیہ نگاہوں سے ہمیں گھورا۔ ہم نے جونہی اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا وہ دوبارہ سر نیچا کر کے پھر سے موبائل میں کھوگئے۔ خیر ہم نے "سبق سنانے" کے انداز میں اپنا مسئلہ سنایا اور کہا کہ چالان کی پرچی گم ہوگئی ہے، میں وہ نکلوانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر سرد لہجے میں کہا:
"چالان نہیں مل سکتا۔ سیشن کورٹ جائیں۔"
سیشن کورٹ کے نام سے ہمارے دل کو ایک دھکا سا لگا اور چشم تصور سے ہم نے دیکھا کہ ہم کمرۂ عدالت کے کٹہرے میں دست بستہ کھڑے ہیں اور عدالت عالیہ ہم پر قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ چالان گم کرنے پر فرد جرم عائد کر رہی ہے۔
ہم نے منمناہٹ کے انداز میں خاتون افسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سسٹر نے تو کہا تھا کہ 14 تاریخ کو آجائیں۔ جواب میں وہ ہلکا سا کچھ بڑبڑائے اور خاموش ہوگئے۔
اب کمرے میں سناٹا تھا۔ اور ہم مرد آفیسر کی جانب رخ کیے "ہمیں نظرِ کرم کی بھیک ملے، اجی بھیک ملے۔۔۔۔" کی مجسم صورت بنے کھڑے تھے۔ :)
خاتون افسر جو ہمارے خیال میں خاصی مصروف تھیں اور ہماری جانب بالکل متوجہ نہیں تھیں اچانک ہم سے مخاطب ہوئیں کہ "گاڑی کا نمبر کیا ہے؟" ہمیں اس سوال پر خوشگوار حیرت ہوئی اور چچا غالب اور تغافل اور ہشیاری وغیرہ یاد آگئے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر آپ شعر تک پہنچ گئے ہیں تو اسپ تخیل کو لگام دیجیے کیونکہ معانی کے بحر ذخار اس شعر کے بہت سے مندرجات کا جائے وقوع سے کوئی تعلق نہیں۔
خاتون افسر نے معلومات ہم سے لے کر ایک کاغذ پر درج کیں۔ کچھ اور چیزیں لکھ کر پرچی ہمیں تھماتے ہوئے پھر اسی نامراد "سیشن کورٹ" جانے کو کہا۔
خیر ہم نے ہمت کی اور "وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونیں منظر سے" دہراتے ہوئے سیشن کورٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ روانہ کیا ہوئے، یوں کہیے کہ قدم قدم پر محبوب کی گلی کی مانند اس کا پتہ پوچھنے لگے کیونکہ یہ ہمارا سیشن کورٹ کی جانب یہ پہلا رخت سفر تھا۔ خدا خدا کرکے سیشن کورٹ پہنچے اور پوچھتے پچھاتے متعلقہ کمرے میں پہنچے۔
200 روپے کا چالان جس کے کٹنے کے وقت ہماری طبیعت پر منوں بوجھ تھا آج اس کا دگنا 400 روپے ادا کرتے وقت جاں بخشی کی اتنی خوشی تھی کہ گویا یہ 400 ہمیں مل رہے ہیں۔
یہ تھی ہمارے زندگی کے پہلے چالان کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس میں ہم پر وہی کیفیات گزریں جو عموماً پہلی چیزوں میں گزرا کرتی ہیں جیسے پہلی شادی، پہلی جاب وغیرہ وغیرہ
:):):)
اللہ اکبر۔
بہرحال آپ کا اندازِ بیان دلچسپ ہے۔
 
Top