زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
ایک درد تھا
جو سگریٹ کی طرح
میں نے چپ چاپ پیا ہے
صرف کچھ نظمیں ہیں
جو سگریٹ سے میں نے
راکھ کی طرح جھاڑی ہیں

امرتا پریتم​
 

زیرک

محفلین
اس نے میٹنگ بلائی
کہا، لوگ دن رات کنٹرول میں ہیں
ٹیپ منہ پر لگائی
کہا، سب بیانات کنٹرول میں ہیں
اس نے گولی چلائی
کہا، سر جی! حالات کنٹرول میں ہیں
سب زمیں پر خدا کے نائب تھے
سب زمیں پر خدا کے نائب ہیں
وہ جو اپنی رضا سے مارے گئے
وہ جو اپنی خوشی سے غائب ہیں

ادریس بابر​
 

زیرک

محفلین
عقلیت پسندی سے اقلیت پسندی تک

دیگر میرے خلاف بول رہے ہیں
اکثر اپنے حق میں خاموش ہیں
مُرده پرستی کی کلاس ختم
ہیرو وَرشِپ کا پیریڈ شروع
پرانے بُتوں کو توڑ مروڑ کر
جوڑ لیے گئے ہیں نِت نئے بُت
جبکہ اکثریت کے ہاتھ کچھ نہیں آنے دیا جاتا
ہر اقلیت کو ہے اپنے حقوق کی پامالی کا رونا
کم لوگ بھی جھوٹ بولیں تو کیا وه جھوٹ نہیں ہوتا؟
جعل سازوں کے پاس کیا کوئی اصلی نوٹ نہیں ہوتا؟

ادریس بابر​
 

زیرک

محفلین
سچ تو چاندنی ہے
اسے روکا نہیں جا سکتا
مگر
کوئی سچ بولے تو سہی
لب کھولے تو سہی
انسان قید ہو سکتا ہے، سچ نہیں​
 

زیرک

محفلین
سہمے سہمے ہوئے لوگ ملتے ہوں جب
ہر طرف خوف کے پھول کھلتے ہو جب
جانِ جاں! کم سے کم ایسے موسم میں ہم
حرف حق تو کجا، لب نہیں کھولتے
ہم صحافی ہیں ہم سچ نہیں بولتے
اظہر عباس​
 

زیرک

محفلین
آج کی رات میں اپنی تمام تر اداسی لکھ سکتا ہوں
محبت بہت مختصر ہے اور اسے بھلانا بہت طویل
شاید یہ آخری دکھ ہے جو اس نے مجھے دیا
اور یہ آخری نظم، جو میں نے اس کے لیے لکھی

پابلو نرودا کی نظم کا اردو ترجمہ​
 

زیرک

محفلین
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک میں خون بہتا رہا ہے
اسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر
سزا دو، سزا دو، سزا دو، سزا دو

پابلو نرودا کی نظم کا اردو ترجمہ​
 

زیرک

محفلین
وقت مسافر

وقت ریت گھڑی میں گرتا ہے
وقت دھوپ گھڑی میں چڑھتا ہے
وقت ہندسوں میں چلتا ہے
وقت مسافر ہے
پیچھے سے آوازیں دو
آگے بھاگتا جاتا ہے

انیس ناگی​
 

زیرک

محفلین
تیرے واسطے

میں لفظ کی سب حدوں سے، سرحدوں سے
بہت دور ایسی لغت کی تلاشِ مسلسل میں ہوں
جو کبھی ان کہی داستان کو کہے گی
نیا اک جہان اس زمیں پر نمودار ہو گا
نئے لفظ سے میں شاعری لکھوں گا
تیرے واسطے

انیس ناگی​
 

زیرک

محفلین
ایک آسودہ تھکن سے بیزاری کے بعد

شاید زندگی سے
میرا رشتہ کچھ کمزور پڑ گیا ہے
بہت دنوں سے ہم ایک دوسرے سے الجھے نہیں
دیر دیرتک جاگنے کی عادت نے
مجھے اتنا بوجھل کر دیا ہے
کہ تازہ دم ہونے کے لیے سوچتا ہوں
کیوں نا
زندگی کو کچھ جنموں کے لیے ملتوی کر دوں

انجم سلیمی​
 

زیرک

محفلین
ورنہ، محبت دم گھٹ کر مر سکتی ہے

محض
ایک کھونٹے سے بندھے رہنا
محبت نہیں ہوتی
ایک مٹھی میں سما جانے والا دل
اتنا چھوٹا نہیں ہوتا
کہ نئی محبتوں کا سواگت نہ کر سکے
یہ بات سیاحوں کے سوا
کوئی نہیں سمجھ سکتا
کہ روشندان
دیوار سے پہلے دل میں بنانا چاہیے

انجم سلیمی​
 
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک میں خون بہتا رہا ہے
اسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر
سزا دو، سزا دو، سزا دو، سزا دو

پابلو نرودا کی نظم کا اردو ترجمہ​

خوبصورت
 

زیرک

محفلین
تم ان لوگوں میں شامل ہو
جو ساتھ رہیں تو دنیا کی
ہر چیز اضافی لگتی ہے
دم بھر کی قربت بھی جن کی
صدیوں کی تلافی لگتی ہے
تم ان لوگوں میں شامل ہو​
 

زیرک

محفلین
سنو
تتلی سی لڑکی ہو
تمہیں ہرگز نہیں یہ زیب دیتا کہ
تم اپنے ریشمی پر لے کے صحرا میں بھٹک جاؤ
کسی اندھے بیاباں میں
کسی گمنام وادی میں
کسی گہرے کنویں کی دھول ہو جاؤ
تمہیں اللہ نے رنگوں کی نعمت سے سجایا ہے
تمھیں تو یوں بنایا ہے
کہ
تم اپنے پروں سے پھول کی آنکھوں میں اگتے وسوسے توڑو
جدھر بھی نرم کلیاں ہوں
وہاں امید کی تم دلکشی گھولو
سنو تتلی سی لڑکی ہو
تو خوشبو کی زباں بولو
سلمیٰ سید​
 

یاسر شاہ

محفلین
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک میں خون بہتا رہا ہے
اسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر
سزا دو، سزا دو، سزا دو، سزا دو

پابلو نرودا کی نظم کا اردو ترجمہ​

بہت خوب !
یہ منظوم اردو ترجمہ ہے -کس شاعر نے کیا ہے ؟
 

زیرک

محفلین
محبت کو نہ جانے دو

محبت کو نہ جانے دو
اگر تم چاروں جانب غور سے دیکھو
تو تم کو یہ خبر ہوگی
زمانہ ایک مٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں
اگر آنکھوں میں ڈالو گے​
تو بینائی گنواؤ گے
 

زیرک

محفلین
ولچر کلچر

یہ جو ہمارے تاجر ہیں
کیا نہیں سمجھتے کہ
خریدار بھی تو آخرکار
ان ہی جیسے انساں ہے
لیکن ان کے ذہنوں پر
بس منافع چھایا ہے
جب سے رمضان آیا ہے
ظالم منافع خوروں نے
سب ہی کو لِٹایا ہے
اور چھری چلائی ہے
کیونکہ ان کی نظروں میں
سب سے اہم کمائی ہے

زیرک راٹھور​
 

زیرک

محفلین
ہم صحافی ہیں ہم سچ نہیں بولتے

جانِ جاں سچ پہ کیوں اتنا اصرار ہے
سچ کی عظمت سے کب ہم کو انکار ہے
ہم صحافی ہیں آخر اسی قوم کے
جس کا ہر فرد بکنے کو تیار ہے
تیز تلوار سے وقت کی دھار ہے
اس لیے جانِ جاں اپنی تحریر سے
خوفِ تعزیر سے
سچے موتی کبھی ہم نہیں رولتے
ہم صحافی ہیں ہم سچ نہیں بولتے
سہمے سہمے ہوئے لوگ ملتے ہوں جب
ہر طرف خوف کے پھول کھلتے ہوں جب
جانِ جاں کم سے کم ایسے موسم میں ہم
حرفِ حق تو کجا، لب نہیں کھولتے
ہم صحافی ہیں ہم سچ نہیں بولتے
فصل آتی ہے جب حفظِ پندار کی
سچ کے اظہار کی
ہم حقائق سے نظریں چرائے ہوئے
مصلحت کے جنازے اٹھائے ہوئے
سر جھکائے ہوئے
سوچتے بھی نہیں، بولتے بھی نہیں

اظہر عباس​
 

زیرک

محفلین
دائروں کے باہر بھی
ایک بستی، بستی ہے
ان گنت جزیرے ہیں
حسرتوں کے پیچھے بھی
کس نے کب یہ جانا ہے؟
کون کیسے جیتا ہے؟
صبر کیسے بیتا ہے؟
کس نے مرنے والوں کے
کچھ عذاب جھیلے ہیں
زخم کیسے رِستے ہیں؟
کیسے سہہ کر ہنستے ہیں؟
کس نے کب یہ جانا ہے؟
دائروں کے باہر بھی
ایک بستی، بستی ہے​
 
Top