زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
بہت گھٹن ہے

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے، کم سے کم فغاں نکلے
فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیرِ شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
اداس کیوں ہو جو کچھ خواب رایگاں نکلے
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ادھر بھی خاک اڑی ہے، ادھر بھی زخم پڑے
جدھر سے ہو کے بہاروں کے کارواں نکلے
ستم کے دور میں ہم اہلِ دل ہی کام آئے
زباں پہ ناز تھا جن کو، وہ بے زباں نکلے

ساحر لدھیانوی​
 

زیرک

محفلین
ملبے پر لکھی گئی ایک نظم

دیمک ہماری نیو میں اتر چکی تھی
سو میں نے اسے بُلڈوزر چلانے کا اختیار دے دیا
آج میں ملبے پر بیٹھی
سوچ رہی ہوں
ٹپکتی ہوئی چھت
اور گرتی ہوئی دیواروں نے
کتنے بھیڑیوں کو
مجھ سے دور رکھا تھا

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
پیش کش

اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں

پروین شاکر​
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
مشورہ

ہماری محبت کی کلینیکل موت واقع ہو چکی ہے
معذرتوں اور عذر خواہیوں کا مصنوعی تنفس
اسے کب تک زندہ رکھے گا
بہتر یہی ہے
کہ ہم منافقت کا پلگ نکال دیں
اور ایک خوبصورت جذبے کو باوقار موت مرنے دیں

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
اے رنج بھری شام

دہلیزِ سماعت پہ کسی وعدے کی آہٹ
اترے کہ نہ اترے
اے رنج بھری شام
دُکھتے ہوئے دل پر
کوئی آہستہ سے آ کر
اِک حرفِ تسلی تو رکھے پھول کی مانند

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
ترے پیار کا نام

دل پہ جب ہوتی ہے یادوں کی سنہری بارش
سارے بیتے ہوئے لمحوں کے کنول کھلتے ہیں
پھیل جاتی ہے ترے حرفِ وفا کی خوشبو
کوئی کہتا ہے مگر روح کی گہرائی سے
"شدتِ تشنہ لبی بھی ہے ترے پیار کا نام"

علی سردار جعفری​
 

زیرک

محفلین
اقتباس از نظم "میرا سفر"

اِک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش، دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی

علی سردار جعفری​
 

زیرک

محفلین
میرے دروازے سے اب چاند کو رخصت کر دو
ساتھ آیا ہے تمہارے جو تمہارے گھر سے
اپنے ماتھے سے ہٹا دو یہ چمکتا ہوا تاج
پھینک دو جسم سے کرنوں کا سنہرا زیور
تم ہی تنہا مِرے غم خانے میں آ سکتی ہو
ایک مدت سے تمہارے ہی لیے رکھا ہے
میرے جلتے ہوئے سینے کا دہکتا ہوا چاند
دلِ خوں گشتہ کا ہنستا ہوا خوش رنگ گلاب

علی سردار جعفری​
 

زیرک

محفلین
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
وہ جو الفاظ کے ہاتھوں میں ہے سنگِ دشنام
طنز چھلکائے تو چھلکایا کریں زہر کے جام
تیکھی نظریں ہوں
ترش ابروئے خمدار رہے
بن پڑے جیسے بھی دل سینوں میں بیدار رہے
بے بسی حرف کو زنجیرِ با پا کر نہ سکے
کوئی قاتل ہو مگر قتلِ نوا کر نہ سکے
صبح تک ڈھل کے کوئی حرفِ وفا آئے گا
عشق آئے گا بصد لغزشِِ پا آئے گا
نظریں جھک جائیں گی
دل دھڑکیں گے
لب کانپیں گے
خاموشی بوسۂ لب بن کے بہک جائے گی
صرف غنچوں کے چٹخنے کی صدا آئے گی
اور پھر حرف و نوا کی نہ ضرورت ہو گی
چشمِ ابرو کے اشاروں میں محبت ہو گی
نفرت اٹھ جائے گی مہمان مروّت ہو گی
ریزگاروں سے عداوت کے گزر جائیں گے
خون کے دریا سے ہم پار نکل جائیں گے

علی سردار جعفری​
 

زیرک

محفلین
خامشی
دیر تک نہیں ٹوٹی
جان لیوا بڑا تھا سناٹا
میں نے گھبرا کے آئینہ دل کا
ہاتھ سے پتھروں پہ پھینک دیا

کنول حسین​
 

زیرک

محفلین
تم

بھوری آنکھوں میں دکھ نہیں سجتے
یہ ستاروں کا استعارہ ہیں
ان میں بس کہکشاں سجایا کرو
تم، مِری جان! مسکرایا کرو

کنول حسین​
 

زیرک

محفلین
چار سُو ہیں سناٹے
ہر طرف ہے ویرانی
ذوقِ وصل کی اب تو
خاک بھی نہیں باقی
رہ گئی تھی اک خواہش
میں نہ اس کو یاد آؤں
ایک تھی خلش دل میں
اس کو دُکھ نہ ہو کوئی
اے عزیز اندیشے
آ، گلے سے لپٹا لوں
اس کے ساتھ تھا کوئی
مسکرا رہا تھا وہ

فہمیدہ ریاض​
 

زیرک

محفلین
کب دور تلک دیکھا
لرزاں تھی زمیں کس پل
کب سُوئے فلک دیکھا
کب دشت کی تنہائی
آنکھوں میں اتر آئی
کب وہم سماعت تھی
کب کھو گئی گویائی
کس موڑ پہ حیراں تھے
کس راہ میں ویراں تھے
اجمال حقیقت کے
شاید نہ رقم ہوں گے
اک دن جو بہم ہوں گے

فہمیدہ ریاض​
 

زیرک

محفلین
عام لڑکی

وہ میرے ساتھ چلنا چاہتا تھا
اسے منزل سے دلچسپی نہ تھی
وہ میرے دل کے
صحرائے محبت میں
سیاح بن کر
چاہتوں کی وصل راہوں پر
گھڑی بھر چہل قدمی کرکے
لوٹ جانا چاہتا تھا
مگر میری یہ خواہش تھی
وہ میرے دشتِ دل کے
کسی ویران گوشے میں
کوئی خیمہ لگا لے،اور
کبھی نہ لوٹ کر جائے
میری یہ بات سن کر
وہ ہنس کے بولا تھا
کہ”تم بھی عام لڑکی ہو“

فرزانہ ناز​
 

زیرک

محفلین
گریز

کس قدر عجیب ہے
دیکھتا نہیں مجھ کو
بولتا نہیں مجھ سے
میں جو بات کرتی ہوں
ان سنی سی کرتا ہے
دور دور رہتا ہے
جانے کس سے ڈرتا ہے
بے خبر ہے وہ لیکن
یوں گریز کرنے سے
راستے بدلنے سے
کون دل سے نکلا ہے

فرزانہ ناز​
 

زیرک

محفلین
میں
تمام نوعِ انسانی کو
ایک خاندان سمجھتا ہوں
اور دیکھنا چاہتا ہوں
وطنیت کے اس ناپاک تخیل کو
جو
خود غرضی
تنگ نظری
منافرت
اور ابنِ آدم کی تقسیم چاہتا ہے
انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں
لیکن
اس قدر وطنیت میرا ایماں ضرور ہے
کہ
اپنے گھر کو
غاصبوں کی درندگی سے محفوظ رکھا جائے

جوش ملیح آبادی​
 

زیرک

محفلین
دستک

دل اٹھو نا
دیکھو نا
عشق نے دستک دی ہے
یا پھر
موت کھڑی دروازے پر؟

نوشی گیلانی​
 

زیرک

محفلین
شکوہ

عجیب ہے یہ کمالِ قدرت
کہ عہدِ بے اختیار آیا
کسی کے حصے میں رزق آیا
کسی کے حصے میں
رزق کا انتظار آیا

نوشی گیلانی​
 

زیرک

محفلین
محبت کا دن

اسی ڈھلتے ہوئے دن کی منڈیروں پر
چراغِ شام جلتا ہے
تو دستِ مہرباں جیسے
مِرے آنچل کے کونے سے، وفا کا
ایک لمحہ باندھ دیتا ہے
مِرے صحنِ ہنر میں حرف و معنی کی
تلاوت سانس لیتی ہے
کوئی روشن ستارہ آسماں پہ مسکراتا ہے
سمندرگیت گاتا ہے
کوئی چپکے سے کہتا ہے
''مجھےتم سے محبت ہے''

نوشی گیلانی​
 

زیرک

محفلین
سائیں

سائیں تُو اپنی چِلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے

امرتا پریتم​
 
Top