زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
دوستو آج ایک نیا دھاگہ شروع کر رہا ہوں، کس میں اردو کے نئے اور قدیمم شعراء کی اردو نظمیں آپ سے بانٹنے کا دل کر رہا ہے، امید کرتا ہوں کہ آپ احباب کو یہ نیا سلسلہ پسند آئے گا۔
گیت

جلنے لگیں یادوں کی چتائیں
آؤ کوئی بَیت بنائیں
جن کی رہ تکتے تکتے جُگ بیِتے
چاہے وہ آئیں یا نہیں آئیں
آنکھیں مُوند کے نِت پل دیکھیں
آنکھوں میں ان کی پرچھائیں
اپنے دردوں کا مُکٹ پہن کر
بے دردوں کے سامنے جائیں
جب رونا آوے مسکائیں
جب دل ٹوٹے دِیپ جلائیں
پریم کتھا کا انت نہ کوئی
کتنی بار اسے دھرائیں
پرِیت کی رِیت انوکھی ساجن
کچھ نہیں مانگیں، سب کچھ پائیں
فیض ان سے کیا بات چھپی ہے
ہم کچھ کہہ کر کیوں پچھتائیں

فیض احمد فیض​
 

زیرک

محفلین
یاد

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دورافق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

فیض احمد فیض​
 

زیرک

محفلین
بول

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سےپہلے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض​
 

زیرک

محفلین
شامِ غربت

دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے
غم کے سنسان بیابانوں پہ رات آئی ہے
نورِ عرفان کے دیوانوں پہ رات آئی ہے
شمعِ ایمان کے پروانوں پہ رات آئی ہے
بیت شببر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے
درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے
ایسی تنہائی کہ پیارے نہیں دیکھے جاتے
آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے
درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے
ضعف سے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے
ایسا سنّاٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے
دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے

فیض احمد فیض​
 

زیرک

محفلین
شہرِ برباد میں

شہرِ برباد میں
ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
ہمارے دلوں کی اداسی
یونہی بے سبب تو نہ تھی
تم نے سمجھا جو ہوتا کسی آرزو کے شکستہ دریچے کی اجڑی ہوئی
داستاں کو کبھی
ہم کو مدت ہوئی
راستہ راستہ
خار و خس کی طرح
گردشیں کاٹتے
اس سے بڑھ کر بھی ہو گا کوئی خواب صد چاک
ظلمت کا مارا ہوا
کیا دکھوں کی یہ ساری کہانی بھلا خواب ہے؟
ہم تو باز آئے
ایسی کسی خوش گمانی
یا امید سے
خوش گمانی میں ہم تو
اذیت کی ساری فصیلوں کو چھو آئے
صدیوں کی ساری اداسی کو
لمحوں میں ہم نے سمیٹا
مگر
اب بھی وحشت کھڑی ہے
ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
مسافت کے مارے دلوں کے لیے

عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
انجان پن

لیے پھرو تم ہم کو جہاں بھی لیے پھرو
ہم دکھیارے
ہم بنجارے
درد کے مارے
گلی گلی کی خاک پہن کر
صدا لگائیں
لیے پھرو تم ہم کو جہاں بھی لیے پھرو
بستی بستی کرب کے مارے موسم کا سندیس
ہر بستی کی ایک کہانی
ہر نگری کا اپنا روگ
ہر اک روگ ،کہانی، موسم
سب کا ایک وجود
اس بستی سے اس بستی تک
بچھی ہوئی ہے
لمبی کالی رات
کیسی کیسی گھات
تنہا اپنی ذات
جانے کس کے ہاتھ لکھی ہے
جیون کی سوغات

عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
بے کلی

سمے کی بے کلی بڑھنے لگی ہے
لہو میں درد پیچ و تاب کھاتا ہے
کواڑوں پر اگی خاموشیوں کے لب کھلے ہیں
اور درختوں پر جمی شاموں میں کوئی مضطرب کروٹ بدلتا ہے
بڑی مدت سے بچھڑی آرزو
پردیس سے واپس سیہ ملبوس اوڑھے لوٹ آئی ہے
پرانے راستے پھر سے ہمارا دل مسلتے ہیں
نگاہیں آس سے اکثر گلے لگ لگ کے روتی ہیں
اور اب تو خواب بھی ہم سے گریزاں ہیں
سمے کی بے کلی بڑھنے لگی ہے
دل پریشاں ہے

عدیم ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
پُتلی گھر

وفا کی پُتلیو
میں نارسائی کے کڑے رستوں میں ہوں
جن پر روپہلی اور چمکتی دھوپ بھی تلوار لگتی ہے
کبھی تم اُن ستاروں کی طرح آنکھوں میں چُبھتی ہو
کہ جن کی روشنی میرے لیے اُس نارسائی کی عبادت ہے
جسے شامِ ازل کی سرمئی کرنوں نے پہلی بار میرے
زرد ماتھے پر لکھا تھا
(اور میں آئینے میں اس نوحے کو اب تک پڑھ رہا ہوں)
کہ میں یہ جانتا ہوں
جو ستارے رات بھر میرے تصور کی سنہری وادیوں کو جگمگاتے ہیں
وہ ہاتھوں میں اُتر آئیں تو آب و تاب کھو دیتے ہیں
یا پھر ہاتھ ان کی نیلگوں حِدّت سے جل اُٹھتے ہیں
اور میں جانتا ہوں
اپنے ہاتھوں میں ابھی وہ انجذابی کیفیت مفقود ہے
جس کو ستارے ڈھونڈتے ہیں

وفا کی پُتلیو
کبھی تم خار زاروں کی طرح دامن پکڑ لیتی ہو
اور ہم سنگدل
بیگانۂ مہر و وفا آوارگی کے آشنا
روشن سرابوں کے گدا
دل کے خدا بن کے تمہیں پامال کرتے ہیں
کہ جب دامن میں کلیاں ہوں
تو خوشبوؤں کی مقناطیسیت فطرت سے بے بہرہ بنانے کی
سعی کرتی ہے
اور کہتی ہے
کلیاں بے ثباتی کی علامت ہیں
جہانِ رنگ و بو میں رنگ فانی ہے
فقط خوشبو ہے اور تم ہو

وفا کی پُتلیو
کبھی تم ادھ کھِلے جُوہی کے پھولوں کی طرح آنکھوں میں
رنگِ رخ سمیٹے کانپتی ڈرتی لرزتی دل کے ایوانوں میں
خوابوں کے مدھر رستوں سے در آتی ہو
ہم درد آشنا (شاید وفا نا آشنا)
اپنے سبھی جذبوں سبھی خوابوں کو اس اِک دھیمی دھیمی
مسکراہٹ پر نچھاور کر دیا کرتے ہیں
جو شاید تمہارے رنگِ رخ کا ایک حصہ ہو
مگر اپنے لیے روشن سرابوں کا اجالا ہے

خالد شریف​
 

زیرک

محفلین
رابن ROBIN

میں تم سے بیس برس پیچھے تھا رابن
ورنہ ہم دونوں مِل جاتے
سمجھ نہ پایا میں تم کیا ہو
سُندر سُندر پنکھوں والی
نیلی چڑیا
آنکھوں میں اِک حیرت
کہ یہ شخص مجھے کیوں سمجھ نہ پایا
سمجھ نہ پائیں تم میں کیا ہوں
اِک دیہات کا باسی
جس نے پہلی بار قدم رکھا تھا
ایسے شہر میں جو اس شخص سے بیس برس آگے چلتا تھا
جِس نے پہلی بار لبرٹی کا رستہ دریافت کیا تھا
صرف تمہارے گھر جانے کو
(اس رستے سے روز نجانے کتنی بار گزرتا ہوں اب)
کچھ دن حیرت کے عالم میں
دیکھا اِک دُوجے کو ہم نے
پھر میں نے سوچا میں میں ہوں
پھر تم نے سوچا تم تم ہو
حالانکہ دونوں ہی غلط تھے
ورنہ ہم دونوں مِل جاتے

خالد شریف​
 

زیرک

محفلین
سردیوں کی دھوپ

ابھی کچھ روز پہلے
سردیوں کی دھوپ میں
بیٹھے ہوئے اس نے کہا تھا
زندگی کتنی حسیں ہے
پھول کتنے خوبصورت ہیں
پرندوں کی اڑانیں کتنی سُندر ہیں
اور ساتھی من کو بھا جائے
تو جینے کا بہانہ مل ہی جاتا ہے
آج بھی ویسی سنہری دھوپ ہے
لیکن پرندے سر بہ زانوں
زندگی خاموش ہے
اور پھول مرجھائے ہوئے ہیں

خالد شریف​
 

زیرک

محفلین
ٹیک اِٹ ایزی
(TAKE IT EASY)

تم نے ملنا ہے ملو
ورنہ بچھڑ جاؤ اب
یہ جو تلوار سی سر پر ہے ہٹا دو اس کو
دکھ تو مجھ کو بھی بہت ہو گا کہ یکجان تھے ہم
اور کچھ روز ذرا تم بھی افسردہ ہو گی
پر یہ تلوار سی سر پر جو ہے ہٹ جائے گی
زندگی پھر کسی پہلو سے پلٹ آئے گی
جیتے جی ایسے تو مرنے کا نہ سامان کرو
ایسی باتیں نہ مِری جان کرو
زیست آسان کرو

خالد شریف​
 

زیرک

محفلین
اشارہ

جب ملگجی شام ہو
اور دھندلی دھندلی بوندوں کی چادر
چاروں اور محیط ہو
اور تم گاڑی کی اگلی سیٹ پر
اپنے ساتھی کے قرب کی مہک
اور شام کے دلکش منظر سے اس درجہ مسرور ہو
کہ تمہارے پاس اظہار کے لیے لفظ باقی نہ رہیں
جب زیرِ لب کوئی اچھا سا خوبصورت سا شعر پڑھنا
اور خالی نگاہوں سے
اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر
مسکرا دینا
فطرت کا یہ معصوم اشارہ
خود بخود مجھ تک پہنچ جائے گا
اور نہ پہنچے بھی تو کیا

خالد شریف​
 

زیرک

محفلین
تُو

وہاں، جس جگہ پر صدا سو گئی ہے
ہر اک سمت اونچے درختوں کے جھنڈ
ان گنت سانس روکے ہوئے کھڑے ہیں
جہاں ابر آلود شام اڑتے لمحوں کو روکے ابد بن گئی ہے
وہاں عشق پیچاں کی بیلوں میں لِپٹا ہوا اک مکاں ہو
اگر میں کبھی راہ چلتے ہوئے اس مکاں کے دریچوں کے
نیچے سے گزروں
تو اپنی نگاہوں میں اک آنے والے مسافر کی
دھندلی تمنا لیے تُو کھڑی ہو

منیر نیازی​
 

زیرک

محفلین
حقیقت

نہ تُو حقیقت ہے اور نہ میں ہوں
نہ تیری مری وفا کے قصے
نہ برکھا رُت کی سیاہ راتوں میں
راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی سجل ناریوں کے جھرمٹ
نہ اجڑے نگروں میں خاک اڑاتے
فسردہ دل پریمیوں کے نوحے
اگر حقیقت ہے کچھ تو یہ ایک ہوا کا جھونکا
جو ابتدا سے سفر میں ہے
اور جو انتہا تک سفر میں رہے گا

منیر نیازی​
 

زیرک

محفلین
آتما کا روگ

شراپ دے کے جا چکے ہیں سخت دل مہاتما
سمے کی قید گاہ میں بھٹک رہی ہے آتما
کہیں سلونے شیام ہیں نہ گوپیوں کا پھاگ ہے
نہ پائلوں کا شور ہے نہ بانسری کا راگ ہے
بس ان اکیلی رادھِکا ہے اور دکھ کی آگ ہے

ڈراؤنی صداؤں سے بھری ہیں رات کی گپھائیں
اداس ہو کے سن رہی ہیں دیوتاؤں کی کتھائیں
بہت پرانے مندروں میں رہنے والی اپسرائیں
ہوئیں ہوائیں تیز تر بڑھی بنوں کی سائیں سائیں

منیر نیازی
 

زیرک

محفلین
اپدیش

جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں ہیرے جیسے گال
جادو ہے ہونٹوں میں اس کے بجلی جیسی چال
اس کی حنائی مٹھی میں ہے عطر بھرا رومال
جس کی مہک سے شہر بنا ہے خوشبوؤں کا جال
جو اس سارے جگ میں نہیں ہے اس کی چاہ میں مرنا
یہ تو پاگل پن ہے لوگو، ایسا کبھی نہ کرنا

منیر نیازی​
 

زیرک

محفلین
پرِزم

پانی کے اک قطرے میں
جب سورج اترے
رنگوں کی تصویر بنے
دھنک کی ساتوں قوسیں
اپنی بانہیں یوں پھیلائیں
قطرے کے ننھے سے بدن میں
رنگوں کی دنیا کھِنچ آئے
میرا بھی اِک سورج ہے
جو میرا تَن چھو کر مجھ میں
قوسِ قزح کے پھول اگائے
ذرا بھی اس نے زاویہ بدلا
اور میں ہو گئی
پانی کا اِک سادہ قطرہ
بے منظر، بے رنگ

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
نئی آنکھ کا پرانا خواب

آتش دان کے پاس
گلابی حِدت کے ہالے میں سمٹ کر
تجھ سے باتیں کرتے ہوئے
کبھی کبھی تو ایسا لگا ہے
جیسے اوس میں بھیگی گھاس پہ
اس کے بازو تھامے ہوئے
میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
کنگن بیلے کا

اس نے میرے ہاتھ میں باندھا
اجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی کلائی
بعد اس کے ہولے ہولے پہنایا
گہنا پھولوں کا
پھر جھک کر ہاتھ کو چوم لیا
پھول تو آخر پھول ہی تھے
مرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے
(اک صنوبر پر اِک چاند دمکتا ہے)
پھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹا ہوا ہے

پروین شاکر​
 

زیرک

محفلین
بلاوا

میں نے ساری عمر
کسی مندر میں قدم نہیں رکھا
لیکن جب سے
تیری دعا میں
میرا نام شریک ہوا ہے
تیرے ہونٹوں کی جنبش پر
میرے اندر کی اداسی کے اجلے تن میں
گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں

پروین شاکر​
 
Top