زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
وہم

وہ نہیں ہے
تو اس کی چاہت میں
کس لیے
رات دن سنورتے ہو
خود سے بے ربط باتیں کرتے ہو
اپنا ہی عکس نوچنے کے لیے
خود الجھتے ہو، خود سے ڈرتے ہو
ہم نہ کہتے تھے
ہجر والوں سے، آئینہ گفتگو نہیں کرتا

محسن نقوی​
 

زیرک

محفلین
تھی سے ہے تک

کہا میں نے
مجھے تم سے محبت ہے
مگر تم نے سہولت سے کہا ہنس کر
ذرا تم "ہے" بدل ڈالو
لکھو کہ"تھی"
صحیح مصرع لکھو جاناں
تمہیں مجھ سے محبت تھی، تمہیں مجھ سے محبت تھی
٭
سنو ، جذبے کبھی بھی اس قدر مہمل نہیں ہوتے
یہ جذبے گو کبھی ندی کی صورت میں
کبھی دریا کی طغیانی سے ہوتے ہیں
مگر یہ اس قدر ارزاں نہیں ہوتے
٭
یہ "ہے" ہوتے ہیں جس لمحے، فقط اثبات ہوتے ہیں
اگر یہ "تھا" کا معنی بن گئے تو پھر کبھی بھی حال کا صیغہ نہیں بنتے
مگر تم کیسے سمجھو گے،مگر تم کیسے جانو گے؟
یہ سب جذبوں کی باتیں ہیں
عجب جذبوں کی باتیں ہیں

محسن نقوی​
 

زیرک

محفلین
الوداع

الوداع
شامِ غم کی دُکھن، الوداع
موسمِ ہجر کی بے ارادہ چُبھن
الوداع
دل میں کھلتے ہوئے
خواہشوں کے چمن
لب جلاتے ہوئے
ہجرتوں کے سخن
نفرتوں کی گُھٹن
الوداع
٭
دل پہ چھائی ہوئی
دُکھ کی سورج گرہن
الوداع
الوداع
فکر گور و کفن
الوداع
دل نے مجھ سے کہا
ساعت فرق ہے
جانِ من الوداع

محسن نقوی​
 

زیرک

محفلین
اب سو جاؤ

کیوں رات کی ریت پہ بکھرے ہوئے
تاروں کے کنکر چنتی ہو
کیوں سناٹے کی سلوٹ میں
لپٹی آوازیں سنتی ہو
کیوں اپنی پیاسی پلکوں کی جھالر میں
خواب پروتی ہو
٭
اب کون تمہاری آنکھوں میں
صدیوں کی نیند انڈیلے گا؟
اب کون تمہاری چاہت کی
ہریالی میں کھل کھیلے گا؟
اب کون تمہاری تنہائی کا
اندیکھا دکھ جھیلے گا؟
٭
اب ایسا ہے
یہ رات مسلط ہے جب تک
یہ شمعیں جب تک جلتیں ہیں
یہ زخم جہاں تک چبھتے ہیں
یہ سانسیں جب تک چلتی ہیں
تم اپنی سوچ کے جنگل میں
رَہ بھٹکو اور پھر کھو جاؤ
اب سو جاؤ

محسن نقوی​
 

زیرک

محفلین
کاش اک بار

رات چپ چاپ دبے پاؤں چلی جاتی ہے
صرف خاموش ہے، روتی نہیں، ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گنبد بھی اڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے
اور سناٹوں کی اِک دھول اڑی جاری ہے
کاش اِک بار کبھی نیند سے اٹھ کر تم بھی
ہجر کی راتوں میں یہ دیکھو تو کیا ہوتا ہے

گلزار​
 

زیرک

محفلین
کسی موسم کا جھونکا تھا
جو اس دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر تِرچھی کر گیا
گئے ساون میں یہ دیواریں یوں سیلی نہیں تھیں
نہ جانے اس دفعہ کیوں ان میں سیلن آگئی ہے
دراڑ پڑ گئی ہے اور سیلن اس طرح بہتی ہے
جسے خشک رخساروں پہ گیلے آنسو چلتے ہیں
یہ بارش گنگناتی تھی
اسی چھت کی منڈیروں پر یہ بارش
گنگناتی تھی
اسی چھت کی منڈیروں پر
یہ گھر کی کھڑکیوں کے کانچ پر
انگلی سے لکھ جاتی تھی
سندیسے
بلکتی رہتی ہے بیٹھی ہوئی اب بند
روشندانوں کے پیچھے
دوپہریں ایسی لگتی ہیں
بِنا مہروں کے خالی خانے رکھے ہیں
نہ کوئی کھیلنے والا ہے بازی
نہ کوئی چال چلتا ہے
دن ہوتا ہے نہ اب رات ہوتی ہے
سبھی کچھ رک گیا ہے
وہ کیا موسم کا جھونکا تھا
جو اس دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر تِرچھی کر گیا

گلزار​
 

زیرک

محفلین
بوچھاڑ

میں کچھ کچھ بھولتا جاتا ہوں اب تجھ کو
ترا چہرہ بھی دھندلانے لگا ہے اب تخیل میں
بدلنے لگ گیا ہے اب وہ صبح و شام کا معمول جس میں
تجھ سے ملنے کا بھی اک معمول شامل تھا
تیرے خط آتے رہتے تھے تو مجھ کو یاد رہتے تھے تری آواز کے سُر بھی
تری آواز کو کاغذ پہ رکھ کے، میں نے چاہا تھا کہ "پِن" کر لوں
و ہ جیسے تتلیوں کے پر لگا لیتا ہے کوئی اپنی البم میں
ترا "ب" کو دبا کر بات کرنا "واؤ" پر ہونٹوں کا چھلّا گول
ہو کر گھوم جاتا تھا
بہت دن ہو گئے دِکھا نہیں، نہ خط ملا کوئی
بہت دن ہو گئے سچی
تری آواز کی بوچھاڑ میں بھیگا نہیں ہوں میں

گلزار​
 

زیرک

محفلین
اب خانم کی فکر نہ کرنا ابو تم

اب خانم کی فکر نہ کرنا ابو تم
نیند کی گولیاں بند کر دی ہیں
تلخ دوائیاں ختم ہوئیں
٭
وہ جو رات کو ڈرتی تھی نا
آسماں پر اڑتے تمبو دیکھتی تھی
دیوار پکڑ کے کہتی تھی وہ
’روکو، روکو، گھر چلتا ہے‘
ہول نہیں پڑتے اب اس کو
ایک ٹینک اچانک گھر میں گھس آیا تھا
جمعرات کے دن، تھوڑی سی، جو بھی ملی، دفنا آئے ہم
٭
اب خانم کی فکر نہ کرنا ابو تم

گلزار​
 

زیرک

محفلین
رات

مِری دہلیز پر بیٹھی ہوئی زانوں پہ سر رکھے
یہ شب افسوس کرنے آئی ہے کہ میرے گھر پہ
آج ہی جو مر گیا ہے دن
وہ دن ہمزاد تھا اس کا
وہ آئی ہے کہ میرے گھر میں اس کو دفن کر کے
ایک دِیا دہلیز پر رکھ کر
نشانی چھوڑ دے کہ محو ہے یہ قبر
اس میں دوسرا آ کر نہیں لیٹے
میں شب کو کیسے بتلاؤں
بہت دن مرے آنگن میں یوں آدھے ادھورے سے
کفن اوڑھے پڑے ہیں کتنے سالوں سے
جنہیں میں آج تک دفنا نہیں پایا

گلزار​
 

زیرک

محفلین
اے صبح کے ستارے
ڈوبیں گے ساتھ تیرے
کچھ لوگ غم کے مارے
اے صبح کے ستارے
٭
بھولے ہوئے منظر، آنکھوں میں تیرتے ہیں
کچھ عکس دوستی کے، سانسوں میں پھیلتے ہیں
خوابوں میں ڈولتے ہیں
کچھ نقش بے سہارے
اے صبح کے ستارے
٭
ہر راہ ڈھونڈتی ہے، گزرے مسافروں کو
لمحے ترس رہے ہیں، مانوس آہٹوں کو
ہم اور سجن ہیں جیسے
دریا کے دو کنارے
اے صبح کے ستارے
ڈوبیں گے ساتھ تیرے
کچھ لوگ غم کے مارے

امجد اسلام امجد​
 

زیرک

محفلین
گزرتے لمحوں

مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے
تمام ہاتھوں میں آئینے ہیں
کون کس سے چھپتا ہے
اگر صدا کا وجود کانوں سے منسلک ہے
تو کون خوشبو بن کر بولتا ہے
اگر سمندر کی حد ساحل ہے
تو کون آنکھوں میں پھیلتا ہے
تمام چیزیں اگر ملتی ہیں
تو کون چیزوں سے ماورا ہے
کِسے خبر ، بدلتی رت نے پرانے پتوں سے کیا کہا
یہ کون بادل سے پوچھے کہ اتنے سال کہاں رہا
یہ جو آج دیکھا ہے وہ کل نہ ہو گا
کوئی لمحہ اٹل نہ ہو گا
گزرتے ہوئے لمحو
مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے

امجد اسلام امجد
 

زیرک

محفلین
چشمِ بے خواب کو سامان بہت

رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی لہراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
درد کا نام سماعت کے لیے راحتِ جاں
دستِ بے مایہ کو زر
نقطۂ خاموش کو لفظ
خوابِ بیدار کو مکاں
درد کا نام میرے شہرِ خواہش کا نشاں
منزلِ رگِ رواں
درد کی راہ پر تسکین کے امکان بہت
چشمِ بے خواب کو سامان بہت

امجد اسلام امجد​
 

زیرک

محفلین
اکیسویں صدی کے لیے ایک نظم

سمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہے
٭
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پر ان کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے
وہ سارے رسے روایتوں کے جن کی گرہیں کسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سر اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک
ہماری روحوں میں کھُبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا، چھڑانے والا کوئی نہیں ہے
٭
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے
٭
مرے عزیزو مجھے یہ غم ہے
جو ہو چکا ہے بہت ہی کم ہے
سمے کے رستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اب ختم ہو رہے ہیں
بچے کھچے یہ جو بال و پر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آ رہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جا رہی ہے
تو اس سے پہلے زمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کر دے
یہ سرد مٹی جو بھُربھُری ہے
ہماری آنکھوں کے زرد حلقے لہو سے بھر دے
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مل کے دیکھیں
کہاں سے سورج نکل رہے ہیں
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں

امجد اسلام امجد​
 

زیرک

محفلین
دریچہ ہائے خیال

چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ہائے خیال
جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں
بند کر دوں کہ کچھ اس طرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آ نہ سکے
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں
جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

جون ایلیا​
 

زیرک

محفلین
اجنبی شام

دُھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اڑ رہے ہیں پرندے ٹیلوں پر
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف

اپنے گَلوں کو لے کے چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام میں کہاں جاؤں؟
اجنبی شام، میں کہاں جاؤں؟

جون ایلیا​
 

زیرک

محفلین
جانکاری کے بھی کتنے دکھ ہوتے ہیں
بِن کہے ہی تلخ بات سمجھ میں آ جاتی ہے
اچھی بات کو دہرانے کی سعی
اور بری بات کو بھلانے کی جدوجہد میں
زندگی بیت جاتی ہے

کشورناہید​
 

زیرک

محفلین
اعتقاد

جب تم میرے ساتھ ہوتے ہو
تو ہوا میرا نام نہیں پوچھتی ہے
بارش مجھ سے بغل گیر ہو جاتی ہے
دریا مجھ سے لپٹنا چاہتا ہے
چڑیاں مجھ میں بولنے لگتی ہیں
سیپیاں میری کوکھ جیسی لگتی ہیں
مجھے لگتا ہے
میرے کمزور لمحوں میں
خدا مجھ سے اور زیادہ پیار کرتا ہے

کشور ناہید​
 

زیرک

محفلین
زمانہ بازار بن گیا ہے

حشیش و بارود کی کثافت
لہو کی بدرَو میں بہہ رہی ہے
ہوس کا لاکر اٹا ہوا ہے زرِ سیہ سے
اسی کی آتش پہ پکنے والی ضیافتوں پر
خدائے واحد کے ساتھ اس کے چنیدہ بندے
ہجوم کرتے ہیں شام ہوتے ہی
پانچ تارا عشائیوں میں
کہار کاروں کی دوڑ عشرت سرائے یک شب
کی منزلوں تک لگی ہوئی ہے
یہ شہرِ سوداگراں ہے جس میں
معاش کے لنگروں پہ پلتی ہوئی رعایا
انا کی قلت سے اپنے باطن میں مر چکی ہے
وگرنہ اٹھ کر
دکانِ زرگر سے، قصرِ قیصر سے
اپنے سرقہ شدہ لہو کا حساب لیتی
یہی ہے موجود کی حقیقت
نشیب ہے تو فراز ہو گا
فراز جس پر
تمام اخوان نعمتوں کے
بدن کا خوانچہ فروش دن رات بیچتا ہے
یہ جشنِ ہر روز و شب تو جیسے یہاں کا تہوار بن گیا ہے
زمانہ بازار بن گیا ہے

آفتاب اقبال شمیم​
 

زیرک

محفلین
کایا کا کرب

اُس نے دیکھا
وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں
کھڑا تھا
بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں
کسی جلاد کے قدموں کی آوازیں مسلسل
سن رہی تھیں
آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدت سے
اپنی بے بسی کا زہر پی کر
مر چکے تھے
اس نے چاہا
بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے
مگر شاخوں سے مرجھائے ہوئے پتوں کی صورت
ہاتھ اس کے بازوؤں سے
گر چکے تھے

آفتاب اقبال شمیم​
 

زیرک

محفلین
ریت پر سفر کا لمحہ
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو

احمد شمیم​
 
Top