زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
عدو سے جا کے کہہ دینا
شجاعت کا حسِیں جذبہ
دماغ و دل میں مت ڈھونڈے
شہادت وہ تمنا ہے
جسے مردِ مجاہد کا لہو تجسِیم کرتا ہے
بدن سے ماوراء ہے جو
مِرے دشمن کو سمجھانا
کہ لاہوتی پرندوں کا
بدن مسکن نہیں ہوتا

عاطف جاوید عاطف​
 

زیرک

محفلین
ایزی لوڈ

دل کی سِم میں جانِ جاں
جس قدر بھی بیلنس تھا
قرض تھا محبت کا
خرچ کر دیا ہم نے سانس کی تجارت میں
کیش کے زمانے میں
ادھار کون دیتا ہے؟
دھڑکنوں کا ایزی لوڈ یار کون دیتا ہے

عاطف جاوید عاطف​
 

زیرک

محفلین
انگلیوں کی پوروں پہ
رابطے میسر ہیں
پھر بھی گر یہ دوری ہے
تو جاننا ضروری ہے
کہ فاصلے زماں کے ہیں ؟
یا دلوں میں دوری ہے؟​
 

زیرک

محفلین
خالی ہاتھ

جب اس کے ساتھ تھی
میں اس وسیع کائنات میں
نفس نفس، قدم قدم
نظر نظر امیر تھی
اور اب
غبارِ روز و شب کے
جام میں اسیر ہوں

ادا جعفری​
 

زیرک

محفلین
آشوبِ آگہی

جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب
آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں
میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے
میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے
جو فقط لوحِ جاں پر لکھے رہ گئے

ادا جعفری​
 

زیرک

محفلین
کیسے لوگوں کے شکنجے میں ہے بستی میری
آگ بھی خود ہی لگاتے ہیں مری بستی میں
اور پھر خود ہی بجھانے بھی چلے آتے ہیں

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
گُل فروشوں کا شہر ہے، اس میں
پھول ملتے نہیں ٹھکانے پر
تتلیاں جا بجا بھٹکتی ہیں

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
پہلے جیسا ہے آج کا فرعون
اپنے جاہ و جلال کی خاطر
یہ بھی بچوں کو مار دیتا ہے

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
گُل فروشوں کی مہربانی ہے
کھل کے ہنسنے کے دن ہیں اور کلیاں
مسکراتے ہوئے بھی ڈرتی ہیں

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
تجزیہ

میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی جب پاس تو نہیں ہوتی
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی
میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی رہ رہ کے میرے کانوں میں
گونجتی ہے تری حسیں آواز
جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز
ہر صدا ناگوار ہوتی ہے
ان سکوت آشنا ترانوں میں
میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں
تیری ہر بات سوچتا ہوں میں
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں
میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی احساس سے نجات نہیں
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے
دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں
جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں
میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن

جاں نثار اختر​
 

زیرک

محفلین
پیڑوں سے سیکھا ہے میں نے
شاخیں ساری کٹ جائیں تو
پھر کیسے زندہ رہتے ہیں

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
اکیلے ایک ہم نہیں

کبھی کبھی یہ سوچ کر بهی
اپنے رنج کم ہوئے
کہ اس کٹهن سراب میں
حیات کے عذاب میں
اکیلے ایک ہم نہیں
بہت ہیں لوگ اور بهی
بہت ہیں اپنے ہمسفر
جو بے نیازِ غم نہیں
اکیلے ایک ہم نہیں

اعتبار ساجد​
 

زیرک

محفلین
تو کیا

تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مِرے تیمار داروں سے
مسیحا جب یہ کہہ دیں گے
دوا تاثیر کھو بیٹھی
دُعا کا وقت آ پہنچا
یہ بیماری بہانہ تھی
قضا کا وقت آ پہنچا
تو کیا تم اتنی بے حس ہو
یقیں اس پر نہ لاؤ گی
تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مجھے ملنے نہ آؤ گی

اعتبار ساجد​
 

زیرک

محفلین
اگر تم کھول بیٹھے ہو
یہ صفحہ شام سے پہلے
مقامِ صبر سے پہلے
حدِ الزام سے پہلے
کہانی ختم ہی کرنی ہے
اگر انجام سے پہلے
تو یہ بھی فیصلہ کر لو
کہ میں لکھوں
تو کیا لکھوں
تمہار ے نام سے پہلے​
 

زیرک

محفلین
جاگتے دریچوں میں
خواب سوئے رہتے ہیں
آنکھ کے پیالے میں
ان گنت زمانوں کی
ریت گرتی رہتی ہے

ادھ بجھے مکانوں میں
جا چکے مکینوں کی
بات چلتی رہتی ہے
راکھ اڑتی رہتی ہے

مقصود وفا​
 

زیرک

محفلین
فقط ہم تم ہی بدلے ہیں

چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
نہ ماہ و سال ہیں بدلے نہ ماضی حال ہیں بدلے
وہاں پہ لوٹ جائیں ہم جہاں معلوم ہو کے بس
نہیں کچھ اور ہے بدلا فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
وہی مٹی وہی خوشبو وہی سوندھی فضائیں ہیں
وہی گلزار منظر تو وہی من چاہی راہیں ہیں
وہی بچپن وہی بوڑھے وہی سب ہیں جواں قصّے
مگر اب تم نہیں ہو وہ مگر اب میں نہیں ہوں وہ
وہی بادل وہی بارش وہی کشتی ہے کاغذ کی
وہی دھوپیں وہی سائے وہی دن رات من بھائے
وہی رونق وہی خوشیاں وہی جینے کی چاہت ہے
مگر بے کار ہے سب کچھ اگر ہم، ہم نہیں ہیں وہ
سبھی کچھ پھر خیالوں میں یہاں کیوں جی رہا ہوں میں
جو گھاؤ بھر چکا کب کا یونہی پھر سی رہا ہوں میں
سبھی کچھ وہ پرانا ہے سبھی کچھ پھر سہانا ہے
اگر ہے کچھ نیا تو بس نہیں ہو تم , نہیں ہیں ہم
گیا وہ لوٹ آئے پھر یہاں ایسا نہیں ہوتا
ہے رستہ ایک طرفہ یہ کوئی واپس نہیں ہوتا
مگر کب کوئی ہے سمجھا مگر کب کوئی ہے مانا
سبھی مڑ مڑ کے ہیں تکتے سبھی یہ آس ہیں مرتے

چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا

اتباف ابرک​
 

زیرک

محفلین
محبت چھوڑ دو کرنا

محبت ہی نہیں لازم
نبھانا بھی ضروری ہے
اگر ایسا نہیں ممکن
محبت چھوڑ دو کرنا

محبت تب ہی تم کرنا
کہ جب احساس شامل ہو
اگر باتوں میں کرنی ہے
محبت چھوڑ دو کرنا

اتباف ابرک​
 

زیرک

محفلین
فیل بانو
گھر میں ہاتھی کون رکھتا ہے
ذرا تم اپنے دروازوں کے قد تو ناپ لیتے
جہاں پر فیل بانی ہو
وہاں اگر چیونٹیاں پامال ہو جائیں تو حیرانی نہیں ہوتی

وحید احمد​
 

زیرک

محفلین
اے دست شناسو! بتلاؤ
جو ہاتھ لکیریں کھو بیٹھے
پھر ان کی قسمت کیا ہو گی
جو سب کو جنت دیتے ہیں
وہ دوزخ میں کیوں جلتے ہیں
کیوں بھوکے ننگے مرتے ہیں
اے دست شناسو! بتلاؤ

عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
سورج سانجھا ہوتا ہے نا؟
سورج سب کا ہوتا ہے نا؟
تیری دنیا روشن کیسے؟
مجھ کو کِرنیں ڈستی کیوں ہیں؟
سانسیں سانسیں ہوتی ہیں نا؟
تیری ہوں یا میری ہوں وہ
تیرے کتبے مہنگے کیسے؟
میری لاشیں سستی کیوں ہیں؟

عابی مکھنوی​
 
Top