نہ ساقی کی نگہ سے اور نہ پیمانے سے ملتی ہے

نمرہ

محفلین
نہ ساقی کی نگہ سے اور نہ پیمانے سے ملتی ہے
شرابِ معرفت خلوت کے میخانے سے ملتی ہے

اگر بیگانگی ملتی ہے اپنوں سے تو کیا غم ہے
ہمیں اپنائیت جنگل سے، ویرانے سے ملتی ہے

فقیروں کے لیے غم اور خوشی بالکل برابر ہیں
مگر یہ آگہی بھی رنج کے آنے سے ملتی ہے

جھلک بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے غیر کو اس کی
ضیا جو ذہن کے خود ہی جِلا پانے سے ملتی ہے

یہ دنیا اک فریبِ آرزو کا کارخانہ ہے
یہاں جو چیز ملتی ہے وہ ٹھکرانے سے ملتی ہے

ہمیں کیا راس آئے وہ خوشی جو اور لوگوں کو
وفورِ شوق میں چپ چاپ بہہ جانے سے ملتی ہے

حضورِ شمع پھرتے ہیں ذرا سا فاصلہ رکھ کر
ہماری وسعتِ پرواز پروانے سے ملتی ہے

بڑھا اصرار جو حد سے تو اس نے یہ کہا ہنس کر
تری ہر بات میرے ایک دیوانے سے ملتی ہے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
لا جواب:notworthy:
بالخصوص یہ اشعار تو بے حد پسند آئے۔
فقیروں کے لیے غم اور خوشی بالکل برابر ہیں
مگر یہ آگہی بھی رنج کے آنے سے ملتی ہے

یہ دنیا اک فریبِ آرزو کا کارخانہ ہے
یہاں جو چیز ملتی ہے وہ ٹھکرانے سے ملتی ہے

حضورِ شمع پھرتے ہیں ذرا سا فاصلہ رکھ کر
ہماری وسعتِ پرواز پروانے سے ملتی ہے
یہ غزل ہمیں اس قدر اچھی لگی کہ ہم اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیے بغیر رہ نہیں سکے۔امید ہے کہ آپ ہماری اس جسارت کو معاف کر دیں گی۔
پیروڈی: خوشی بیگم جو تیرے مائیکے جانے سے ملتی ہے
 
Top