محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب خلیل الرحمٰن بھائی!

کیا یہ نظم مکمل ہو گئی ہے؟

اور کیا ایک ہی پوسٹ میں ساری نظم جمع کی جا سکتی ہے۔
 
بہت خوب خلیل الرحمٰن بھائی!

کیا یہ نظم مکمل ہو گئی ہے؟

اور کیا ایک ہی پوسٹ میں ساری نظم جمع کی جا سکتی ہے۔

جزاک اللہ محمداحمد بھائی۔ ابھی دو یا تین باب رہ گئے ہیں۔

اب تک کی نظم تسلسل کے ساتھ پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

ہماری گوگل ڈرائیو پر جنگل بک کی اب تک کی فائل شریکِ محفل کررہے ہیں۔ آپ کی قیمتی آرا کا انتظار رہے گا۔

جنگل بُک

نیز آپ کی پابندِ بحور شاعری میں بھی اصلاح شدہ نظم پیش کررہے ہیں۔

جنگل بُک
 
باب ہجدھم: شیر خان کا حملہ


ابھی اس دوستی کو صرف کچھ لمحے ہی گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے

یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے مسحور کُن جس کی بہت لَے ہے

ذرا سی دیر گزری اور وہ گہرے دوست بن بیٹھے
انہیں ایسا لگا عرصے سے گہرے دوست ہوں جیسے

ہوئے باتوں میں ایسے گُم کہ دنیا ہی بھُلا بیٹھے
بگھیرا اور بھالو دوسری جانب پریشاں تھے

اُنہیں بس موگلی کے دشمنوں کا خوف کھاتا تھا
خیال اُن کو بس اپنے موگلی کا ہی ستاتا تھا

کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر خان اس کو کہیں پائے
کہیں نہ موگلی کو کوئی وہ نقصان پہنچائے

کہاں پر جا چھپا ہے موگلی ، کیسے اُسے پائیں
یہ موذی تاک میں ہے موگلی کوکیسے بتلائیں

اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے

خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پائی
یہاں ہر واقعے کی خود ہی قدرت ہے تماشائی

گِدھوں کے غول نے جب موگلی سے دوستی کرلی
فضاء میں اُڑتے کوّوں نے خبر یہ خوب پھیلادی

یہی سرگوشیاں پھر شیر کے کانوں تلک آئیں
اندھیری رات تھی، جب بدلیاں بھی جھوم کر چھائیں

کہا یہ شیر نے موقع بہت اچھا ہے ، اٹھ بیٹھو!
اٹھو ہانکا لگانے کے لیے کوّوے وہاں بھیجو

دبے پاؤں وہاں پہنچا، یہاں دیکھا وہاں جھانکا
اُدھر اُس کے اشارے پر لگا کوّوں کا بھی ہانکا

سُنا جب شور کوّوں کا تو اپنا موگلی نکلا
اچانک شیر کو پھر اپنی جانب گھورتا پایا

ہُوا تیار لڑنے کو ، بہادر، وہ نہتّا ہی
گِدھوں نے جب اُسے دیکھا، اُڑان اپنی وہیں بھرلی
ٌٌ ٌ ٌ ٌ ٌ ٌ​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی ! ہمیشہ کی طرح اعلیٰ!
نہایت اچھا منظوم کیا ہے۔ چونکہ آپ نے اس زمرے میں پوسٹ کیا ہے اس لئے ایک دو کمزور مقامات کی نشاندہی کئے دیتا ہوں ۔ آپ کو تو اشارہ دینا ہی کافی ہوگا ۔
ابھی اس دوستی کو صرف کچھ لمحے ہی گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے

-یوں شاید رواں تر ہو : ابھی اس دوستی کو چند ہی لمحات گزرے تھے

ذرا سی دیر گزری اور وہ گہرے دوست بن بیٹھے
انہیں ایسا لگا عرصے سے گہرے دوست ہوں جیسے

-یوں دیکھئے: ذرا سی دیر میں ایسے وہ گہرے دوست بن بیٹھے - لگا ایسے کہ مدت سے وہ دونوں دوست ہوں جیسے ۔ ( اگر ایک سے زیادہ کی بات ہورہی ہے تو "وہ دونوں" کی جگہ وہ سارے بھی لاسکتے ہیں )۔

یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے مسحور کُن جس کی بہت لَے ہے
- پہلا مصرع غضب کا ہے لیکن دوسرا اس کی ٹکر کا نہیں ۔ اس کی تعقید یوں دور کی جاسکتی ہے: یہ ایسا گیت ہے جس کی بہت مخمور سی لے ہے

کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر خان اس کو کہیں پائے
کہیں نہ موگلی کو کوئی وہ نقصان پہنچائے
- دوسرا مصرع گرامر کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے خلیل بھائی ۔ اسلوب کے لحاظ سے اس میں "نہ" کا محل نہیں ہے ۔ یوں دیکھئے:
کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر خان اس کو کہیں پائے
اکیلا جان کر اس کو کوئی نقصان پہنچائے

اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے
- خوبصورت! خوبصورت ۔ لیکن اس کے بعد والا شعر زمانہ حال کا متقاضی ہے یعنی " خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پاتی" ہونا چاہئے۔

ہُوا تیار لڑنے کو ، بہادر، وہ نہتّا ہی
گِدھوں نے جب اُسے دیکھا، اُڑان اپنی وہیں بھرلی

- اسے بہتر کیجئے خلیل بھائی ۔ اڑان اپنی وہیں بھرلی ٹھیک نہیں ہے ۔ اپنی کا لفظ نکالئے اور وہیں کو بھی حذف کیجئے۔

خلیل بھائی ، منظوم ترجمے جیسے کٹھن اور صبر آزما کام کے لئے آپ کو خراجِ تحسین ہے !
 
بہت خوب خلیل بھائی ! ہمیشہ کی طرح اعلیٰ!
نہایت اچھا منظوم کیا ہے۔ چونکہ آپ نے اس زمرے میں پوسٹ کیا ہے اس لئے ایک دو کمزور مقامات کی نشاندہی کئے دیتا ہوں ۔ آپ کو تو اشارہ دینا ہی کافی ہوگا ۔
ابھی اس دوستی کو صرف کچھ لمحے ہی گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے

-یوں شاید رواں تر ہو : ابھی اس دوستی کو چند ہی لمحات گزرے تھے

ذرا سی دیر گزری اور وہ گہرے دوست بن بیٹھے
انہیں ایسا لگا عرصے سے گہرے دوست ہوں جیسے

-یوں دیکھئے: ذرا سی دیر میں ایسے وہ گہرے دوست بن بیٹھے - لگا ایسے کہ مدت سے وہ دونوں دوست ہوں جیسے ۔ ( اگر ایک سے زیادہ کی بات ہورہی ہے تو "وہ دونوں" کی جگہ وہ سارے بھی لاسکتے ہیں )۔

یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے مسحور کُن جس کی بہت لَے ہے
- پہلا مصرع غضب کا ہے لیکن دوسرا اس کی ٹکر کا نہیں ۔ اس کی تعقید یوں دور کی جاسکتی ہے: یہ ایسا گیت ہے جس کی بہت مخمور سی لے ہے

کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر خان اس کو کہیں پائے
کہیں نہ موگلی کو کوئی وہ نقصان پہنچائے
- دوسرا مصرع گرامر کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے خلیل بھائی ۔ اسلوب کے لحاظ سے اس میں "نہ" کا محل نہیں ہے ۔ یوں دیکھئے:
کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر خان اس کو کہیں پائے
اکیلا جان کر اس کو کوئی نقصان پہنچائے

اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے
- خوبصورت! خوبصورت ۔ لیکن اس کے بعد والا شعر زمانہ حال کا متقاضی ہے یعنی " خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پاتی" ہونا چاہئے۔

ہُوا تیار لڑنے کو ، بہادر، وہ نہتّا ہی
گِدھوں نے جب اُسے دیکھا، اُڑان اپنی وہیں بھرلی

- اسے بہتر کیجئے خلیل بھائی ۔ اڑان اپنی وہیں بھرلی ٹھیک نہیں ہے ۔ اپنی کا لفظ نکالئے اور وہیں کو بھی حذف کیجئے۔

کہ شیر خاں اس کو....
مجھے مزید اعتراض کہ پر ہوتا ہے!

استادِ محترم اعجاز صاحب اور ظہیر بھائی کے شکرئیے کے ساتھ اصلاح شدہ ورژن ملاحظہ فرمائیے!

ابھی اس دوستی کو چند ہی لمحات گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے

یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے جس کی بہت مخمور سی لَے ہے

ذرا سی دیر میں ایسے وہ گہرے دوست بن بیٹھے
لگا ایسے کہ مدت سے وہ سارے دوست ہوں جیسے

ہوئے باتوں میں ایسے گُم کہ دنیا ہی بھُلا بیٹھے
بگھیرا اور بھالو دوسری جانب پریشاں تھے

اُنہیں بس موگلی کے دشمنوں کا خوف کھاتا تھا
خیال اُن کو بس اپنے موگلی کا ہی ستاتا تھا

کہیں ایسا نہ ہوجائے، اسے اب شیر پاجائے
اکیلا جان کر اُس کو کوئی نقصان پہنچائے

کہاں پر جا چھپا ہے موگلی ، کیسے اُسے پائیں
یہ موذی تاک میں ہے موگلی کوکیسے بتلائیں

اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے

خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پاتی
پہنچتی ہے وہ جنگل کے ہر اِک گوشے کو گرماتی

گِدھوں کے غول نے جب موگلی سے دوستی کرلی
فضاء میں اُڑتے کوّوں نے خبر یہ خوب پھیلادی

یہی سرگوشیاں پھر شیر کے کانوں تلک آئیں
اندھیری رات تھی، جب بدلیاں بھی جھوم کر چھائیں

کہا یہ شیر نے موقع بہت اچھا ہے ، اٹھ بیٹھو!
اٹھو ہانکا لگانے کے لیے کوّوے وہاں بھیجو

دبے پاؤں وہاں پہنچا، یہاں دیکھا وہاں جھانکا
اُدھر اُس کے اشارے پر لگا کوّوں کا بھی ہانکا

سُنا جب شور کوّوں کا تو اپنا موگلی نکلا
اچانک شیر کو پھر اپنی جانب گھورتا پایا

گِدھوں نے جب اُسے دیکھا ، اُڑن چھو ہوگئے فوراً
ڈرا اب موگلی دِل میں ، جو پایا سامنے دشمن​
 
آخری تدوین:
باب نوزدھم: دو بدو مقابلہ

مقابل موگلی نے شیر کو دیکھا تو گھبرا یا
مگر یہ سوچ کر اُس ناتواں نے حوصلہ پایا


جیے سو سال ڈر کر ہم تو اس سے موت بہتر ہے
بہادر بن کے مر جائیں اگر مرنا مقدر ہے


کیا جب فیصلہ مرنے کا تب وہ جوش میں آیا
نہتّے موگلی کو دیکھ کر پھر شیر للچایا


لگائی اِک چھلانگ اور موگلی کے سر پہ وہ آیا
ہمارے موگلی نے بھی عجب کرتب یہ دکھلایا


قلابازی اچھل کر کھائی اور یوں دور جاپہنچا
گیا جب وار خالی اَوج پر تھا شیر کا غصہ


پلٹ کر شیر نے چاہا کہ جھپٹے حوصلہ پاکر
اُچک کر موگلی کو لے اُڑا پھر ایک گِدھ آکر


اسی اثناء میں بھالو بھی اِسی منظر میں آٹپکا
اُسے جب شیر نے دیکھا تو اس کی سَمت وہ لپکا


بہادر تھا، جری تھا وہ مگر آخر کو بھالو تھا
اُسے سہنا پڑا آکر یہاں پر شیر کا غصہ


ذرا سی دیر میں دُرگت بنادی شیر نے اُس کی
کیا زخمی، بری حالت بنادی شیر نے اُس کی


یہ منظر دیکھ کر بادل بڑے ہی زور سے گرجے
ہمارے موگلی کا ہاتھ چھوٹا، وہ گرا دھڑ سے


قریب اِک پیڑ پر بجلی گری، یکدم وہ جل اٹھّا
اسے جلتے جو دیکھا موگلی اس کی طرف لپکا


وہیں سے ایک جلتی شاخ اس نے توڑ لی فوراً
وہ جلتی شاخ اُس نے شیر کے جبڑوں میں دی فوراً


ہُوا دھشت کے مارے شیر پاگل اور نکل بھاگا
اب اِس جنگل میں اُس کا لوٹ کر آنا بھی مشکل تھا


بھگاکر شیر کو اب موگلی بھالو کے پاس آیا
اُسے اِس کُنج میں بے ہو ش اور بے سُدھ پڑا پایا


جتن سارے ہی کرڈالے، نہ بھالو ہوش میں آیا
بگھیرا جب وہاں پہنچا، فضا میں سوگ طاری تھا​
 
آخری تدوین:
Top