حسان خان

لائبریرین
حضرات!
بیدل کے ایک شعر کی تلاش ہے جس کا صرف اردو مفہوم یا ترجمہ میرے پاس ہے۔ اگر کوئی صاحب اصل فارسی متن تک رسائی دے سکیں تو ممنون ہونگا۔
شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے:
ساری دنیا میں میری کہانی گونج رہی ہے لیکن میں تو محض ایک خلا ہوں۔

منتظر

انعام ندیم
عنقا سر و برگیم مپُرس از فُقَرا هیچ
عالَم همه افسانهٔ ما دارد و ما هیچ

(بیدل دهلوی)
 

حسان خان

لائبریرین
ای که رُویت چو گُل و زُلفِ تو چون شمشادست
جانم آن لحظه که غمگینِ تو باشم شادست

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے کہ تمہارا چہرہ گُل کی طرح، اور تمہاری زُلف شمشاد کی مانند ہے۔۔۔ جس وقت میں تمہارے غم میں مبتلا ہوؤں، میری جان شاد ہے۔
 

انعام ندیم

محفلین
عنقا سر و برگیم مپُرس از فُقَرا هیچ
عالَم همه افسانهٔ ما دارد و ما هیچ

(بیدل دهلوی)
جزاک اللہ۔ بہت بہت شکریہ حسان صاحب! کیا اس کا قریب ترین اردو ترجمہ دستیاب ہوسکتا ہے، یا وہ مفہوم ہی مکمل ہے جو میں نے درج کیا؟
 

حسان خان

لائبریرین
عنقا سر و برگیم مپُرس از فُقَرا هیچ
عالَم همه افسانهٔ ما دارد و ما هیچ

(بیدل دهلوی)
فی الحال یہ مفہوم ذہن میں بن رہا ہے:
ہم عنقا جیسا ساز و سامان رکھنے والے ہیں (یعنی ہمارا سر و سامان عنقا کی مانند معدوم و نایاب ہے)، ناداروں کے بارے میں ہرگز/کچھ مت پوچھو۔۔۔۔ کُل عالَم میں ہمارا افسانہ مُشتَہر ہے، [لیکن] ہم ہیچ ہیں۔
 
آخری تدوین:

انعام ندیم

محفلین
فی الحال یہ مفہوم ذہن میں بن رہا ہے:
ہم عنقا جیسا ساز و سامان رکھنے والے ہیں (یعنی ہمارا سر و سامان عنقا کی مانند معدوم و نایاب ہے)، ناداروں کے بارے میں بالکل/کچھ مت پوچھو۔۔۔۔ کُل عالَم میں ہمارا افسانہ مُشتَہر ہے، [لیکن] ہم ہیچ ہیں۔
بہت بہت شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچہ صاحبانِ تحقیق کا کم و بیش اِس رائے پر اتفاق ہے کہ فردوسی طوسی شیعہ تھے، یا کم از کم شیعی تمایُلات رکھتے تھے، لیکن فردوسی نے شاہنامہ کے پیش گُفتار میں ابتدائی تین خُلَفائے راشدین کی ستائش میں بھی ابیات کہی ہیں۔

چه گفت آن خداوندِ تنزیل و وحی
خداوندِ امر و خداوندِ نهی
که خورشید بعد از رسولانِ مِه
نتابید بر کس ز بوبکر بِه
عُمر کرد اسلام را آشکار
بِیاراست گیتی چو باغِ بهار
پس از هر دوان بود عُثمان گُزین
خداوندِ شرم و خداوندِ دین

(فردوسی طوسی)
اُن صاحبِ تنزیل و وحی، اور صاحبِ امر و نہی (یعنی رسولِ اکرم ص) نے کیا فرمایا ہے؟: [یہ] کہ عظیم رسولوں کے بعد خورشید ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہیں چمکا ہے۔۔۔ عُمر نے اسلام کو آشکار کیا، اور دنیا کو باغِ بہار کی طرح آراستہ کیا۔۔۔ اُن دونوں کے بعد عُثمانِ برگُزیدہ تھے (یا: اُن دونوں کے بعد عُثمان مُنتخَب تھے)، جو صاحبِ حیا و صاحبِ دین تھے۔
 
آخری تدوین:
فردوسی طوسی شیعہ تھے، یا کم از کم شیعی تمایُلات رکھتے تھے

یہ بات زیادہ قرینِ قیاس لگتی ہے کہ وہ زیدی شیعہ تھے، جن کی نظر میں خلفائے ثلاثہ کی تکریم لازم ہے، گوکہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان سے افضل مانتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
یہ بات زیادہ قرینِ قیاس لگتی ہے کہ وہ زیدی شیعہ تھے، جن کی نظر میں خلفائے ثلاثہ کی تکریم لازم ہے، گوکہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان سے افضل مانتے ہیں
اکثر محقّقین اُن کو امامی شیعہ سمجھتے ہیں۔ زیدی شیعوں کا مرکزِ استحکام طبرستان تھا، جبکہ طُوس اور اُس کے اطراف کے قصبوں میں امامی شیعوں کی کافی تعداد تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
منم بندهٔ اهلِ بیتِ نبی
سِتایندهٔ خاکِ پایِ وصی

(فردوسی طوسی)
میں اہلِ بیتِ نبی کا بندہ ہوں، اور وصی (حضرتِ علی) کی خاکِ پا کا سِتائش کُنندہ ہوں۔
(حضرتِ علی کے لیے 'وصی' شیعی اصطلاح ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
اگر چشم داری به دیگر سرای
به نزدِ نبی و وصی گیر جای

(فردوسی طوسی)
اگر تم عالَمِ آخرت [میں رستَگاری] کی اُمید رکھتے ہو تو نبی و وصی کے نزدیگ جگہ اختیار کرو۔
× 'وصی' سے حضرتِ علی مُراد ہیں۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
گر سنگ ہمہ لعلِ بدخشاں بودے
پس قیمتِ لعل و سنگ یکساں بودے

(شیخ سعدی)

اگر سارے پتھر ہی لعلِ بدخشاں ہوتے تو پھر پتھر اور لعل کی ایک جیسی قیمت ہوتی۔
 

یاز

محفلین
فعلِ تو وافی ست زاں کُن ملتحد
کاندر آید با تو در قعرِ لحد

(مولانا رومی)

تیرا عمل ہی وفادار ہے، اسی میں اپنی پناہ گاہ بنا لے۔ کیونکہ یہ تیرے ساتھ قبر کی گہرائی تک جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعدی شیرازی نے 'بوستان' میں ایک جا فردوسی طوسی کو 'فردوسیِ پاک زاد' کہہ کر یاد کیا ہے:
چه خوش گفت فردوسیِ پاک‌زاد
که رحمت بر آن تُربتِ پاک باد
میازار موری که دانه‌کَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوش است

(سعدی شیرازی)
فردوسیِ پاک زاد نے - کہ اُس کی تُربتِ پاک پر رحمت ہو! - کیا خوب فرمایا ہے کہ: "دانہ کھینچنے والی چیونٹی کو [بھی] آزار مت دو، کیونکہ وہ جان رکھتی ہے، اور جانِ شیریں [سب کو] عزیز ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میازار موری که دانه‌کَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوش است
شاہنامہ شِناس جلال خالقی مُطلق کے تصحیح کردہ شاہنامۂ فردوسی کے نُسخے میں مندرجۂ بالا بیت کا یہ متن ثبت ہے:
مکُش مورکی را که روزی‌کَش است
که او نیز جان دارد و جان خوش است

(فردوسی طوسی)
روزی کھینچنے والی چھوٹی چیونٹی کو [بھی] قتل مت کرو۔۔۔ کیونکہ وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان [سب کو] عزیز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گذشتہ صدی کے اوائل میں مشرقِ وسطی میں ملّت پرستانہ نظریات کے ظہور میں آنے کے نتیجے میں ایران میں تُرکی زبان فِشار کا نشانہ بننا شروع ہو گئی تھی، اور پہلوی دور میں تو تُرکی کی تعلیم و تدریس پر، تُرکی کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اِس کا ایک مُحرِّک یہ بھی تھا کہ عُثمانی دور کے اواخر میں وہاں کے قوم پرست دانشمندان اتحادِ تُرکان کے نظریات کی تبلیغ کرنے لگے تھے، اور اُن کی خاص توجُّہ آذربائجان کی جانب تھی، کیونکہ بہرحال آذربائجانیان اُن کے ہم زبان اور تُرک تھے۔ اُن کی آرزو یہ تھی کہ قفقازی و ایرانی آذربائجان بالترتیب رُوسی اور ایرانی سلطنتوں سے خلاصی پا کر عظیم تر عُثمانی-تُرک سلطنت کا حصّہ بن جائیں، اور یہ خواہش بالعموم قفقازی آذربائجان کے تُرک قوم پرست بانیان و دانشمندان کی بھی تھی۔ ایران میں تُرک قوم پرستی اُس وقت تک متولّد نہیں ہوئی تھی، اِس لیے وہاں اِن تبلیغات کو اُس وقت زیادہ پذیرائی نہ مِلی۔ لیکن ردِّ عمل کے طور پر ایرانی/فارسی قوم پرستوں میں تُرکوں اور تُرکی زبان کے خلاف شدید بیزاری کے احساسات پیدا ہو گئے تھے، اور اُن کی اُس وقت سے یہ کوشش رہی ہے کہ ایرانی آذربائجان سے زبانِ تُرکی کو 'رفع دفع' کر دیا جائے۔ وہ تُرکی کو اُسی طرح اپنی ریاست کی سلامتی کے لیے مسئلہ سمجھتے ہیں، جس طرح ریاستِ تُرکیہ میں کُردی کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اور جس طرح تُرکیہ کے مُقتدِر حلقوں میں یہ خوف ہے کہ کہیں کُردی کی تدریس کے نتیجے میں تُرکیہ کے کُردوں میں کُرد قومی احساسات کی مزید تقویت نہ ہو جائے، اُسی طرح ایرانی/فارسی قوم پرستان بھی ایرانی آذربائجانیوں کے لسانی و ثقافتی حقوق کو زیرِ پا رکھنے پر مُصِر ہیں 'تاکہ خدانخواستہ ایران مُنقسِم نہ ہو جائے' (حالانکہ مجموعی طور پر ایرانی آذربائجانیان میں ایران سے جدا ہو جانے کے کوئی لائقِ ذکر احساسات نہیں ہیں)۔ جائے خوشنودی ہے کہ ایران میں تُرکی مخالفوں کی کوشش تا حال ناکام رہی ہے اور ایرانی آذربائجان سے تُرکی ذرا ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ انٹرنیٹی دور کی آمد کے بعد سے، اور اُس کے نتیجے میں جمہوریۂ آذربائجان و تُرکیہ کے مردُم کے ساتھ نزدیک تر ارتباطات کے نتیجے میں تُرکانِ ایران میں بھی تُرکی خواندگی اور تُرکی کے معیار میں بہتری آنے لگی ہے۔
گذشتہ صدی کے ایرانی وطن پرست و قوم پرست شاعر عارف قزوینی نے ۱۹۱۵ء سے ۱۹۱۹ء تک کا زمانہ عُثمانی سلطنت میں گُذارا تھا، وہاں وہ داعیانِ اتحادِ تُرکان کے آذربائجان کی بارے میں خیالات کے ردِّ عمل میں شدیداً تُرک و تُرکی مخالف ہو گئے تھے، اور اُنہوں نے اپنی کئی نظموں میں زبانِ تُرکی کی مذمّت میں ابیات کہی ہیں۔ مثلاً وہ ۱۸ مارچ ۱۹۲۵ء کو آذربائجان میں کہی گئی ایک غزل میں زبانِ تُرکی کے خلاف کہتے ہیں:

چه سان نسوزم و آتش به خُشک و تر نزنم
که در قلمروِ زردُشت حَرفِ چنگیز است
زبانِ سعدی و حافظ چه عیب داشت که‌اش
بدل به تُرک زبان کردی این زبان هیز است
رَها کُنَش که زبانِ مُغول و تاتار است
ز خاکِ خویش بِتازان که فتنه‌انگیز است

(عارف قزوینی)
میں کیسے نہ جلوں اور کیوں نہ خُشک و تر کو آتش لگا دوں؟ کہ زرتُشت کی قلمرو میں چنگیز کی زبان رائج ہے۔۔۔ سعدی و حافظ کی زبان میں کیا عیب تھا کہ تم نے اُس کو دے کر تُرکی زبان لے لی؟۔۔۔ یہ زبان مُخنّث ہے!۔۔۔ اِس کو تَرک کر دو کہ یہ منگول و تاتار کی زبان ہے۔۔۔ اِس کو اپنی خاک سے دور بھگا دو کہ یہ فتنہ انگیز ہے۔
(فارسی ایرانی قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ تُرکی آذربائجان کی 'اصلی' و 'حقیقی' زبان نہیں ہے، بلکہ یہ زبان وہاں منگولوں اور تُرکوں کے حملوں کے نتیجے میں رائج ہوئی ہے۔ لہٰذا، اُن کی 'لسانی تطہیر' ہونی چاہیے اور اُن کو تُرکی زبان تَرک کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔۔۔ مصرعِ دوم میں اُس روایت کی جانب اشارہ ہے جس کے مطابق زرتُشت کا جائے تولُّد دیارِ آذربائجان تھا، اگرچہ بیشتر مُعاصر مُحقّقین اِس روایت کو درست نہیں مانتے، اور اُن کا کہنا ہے کہ زرتُشت احتمالاً حالیہ افغانستان میں یا مشرقی ایران میں کہیں متولّد ہوا تھا۔)

اتنی طویل تحریر اِس لیے لکھی ہے کیونکہ تاریخی پس منظر بیان کیے بغیر مندرجۂ بالا ابیات کا مفہوم کُلّاً سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ نیز، اِس لیے بھی کہ میں فارسی کی مانند تُرکی سے بھی محبّت کرتا ہوں، اور میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حاشا و کلّا ایرانی آذربائجان سے تُرکی محو ہو جائے، بلکہ میں وہاں تُرکی کو ہر دم توانا دیکھنا چاہتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چه سان نسوزم و آتش به خُشک و تر نزنم
که در قلمروِ زردُشت حَرفِ چنگیز است
زبانِ سعدی و حافظ چه عیب داشت که‌اش
بدل به تُرک زبان کردی این زبان هیز است
رَها کُنَش که زبانِ مُغول و تاتار است
ز خاکِ خویش بِتازان که فتنه‌انگیز است

(عارف قزوینی)
میں کیسے نہ جلوں اور کیوں نہ خُشک و تر کو آتش لگا دوں؟ کہ زردُشت کی قلمرو میں چنگیز کی زبان رائج ہے۔۔۔ سعدی و حافظ کی زبان میں کیا عیب تھا کہ تم نے اُس کو دے کر تُرکی زبان لے لی۔۔۔ یہ زبان مُخنّث ہے!۔۔۔ اِس کو تَرک کر دو کہ یہ منگول و تاتار کی زبان ہے۔۔۔ اُس کو اپنی خاک سے دور بھگا دو کہ یہ فتنہ انگیز ہے۔
(فارسی قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ تُرکی آذربائجان کی 'اصلی' و 'حقیقی' زبان نہیں ہے، بلکہ یہ زبان وہاں منگولوں اور تُرکوں کے حملوں کے نتیجے میں رائج ہوئی ہے۔ لہٰذا، اُن کی 'لسانی تطہیر' ہونی چاہیے اور اُن کو تُرکی زبان تَرک کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔۔۔ مصرع۔ دوم میں اُس روایت کی جانب اشارہ ہے جس کے مطابق زردُشت کا جائے تولُّد دیارِ آذربائجان تھا، اگرچہ بیشتر مُعاصر مُحقّقین اِس روایت کو درست نہیں مانتے، اور اُن کا کہنا ہے کہ زردشت ممکنہ طور پر حالیہ افغانستان میں یا مشرقی ایران میں کہیں متولّد ہوا تھا۔)
ابیاتِ بعدی:
دُچارِ کشمکش و شرِّ فتنه‌ای زین آن
اِلَی‌الابد به تو تا این زبان گلاویز است
به دیو‌خُوی سُلیمان نظیف گوی که خوب
درست غور کن انقوره نیست تبریز است
ز اُستُخوانِ نیاکانِ پاکِ ما این خاک
عجین شده‌ست و مُقدّس‌تر از همه چیز است

(عارف قزوینی)
جب تک یہ [تُرکی] زبان تم سے چِمٹی ہوئی ہے، تم تا ابد اِس کے باعث نِزاع و جِدال، اور شرِّ فتنہ سے دوچار رہو گے۔۔۔۔ دیو فطرت سُلیمان نظیف سے کہو کہ خوب درستی کے ساتھ غور کرو، یہ انقرہ نہیں، بلکہ تبریز ہے۔۔۔ یہ خاک ہمارے اجدادِ پاک کے اُستُخوانوں (ہڈیوں) سے عجین ہو چکی ہے اور [یہ] ہمارے لیے ہر چیز سے زیادہ مُقدّس ہے۔
× سُلیمان نظیف = ایک عُثمانی شاعر و مُتفکِّر کا نام
× عجین ہونا = گُندھنا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
که در قلمروِ زردُشت حَرفِ چنگیز است
(فارسی ایرانی قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ تُرکی آذربائجان کی 'اصلی' و 'حقیقی' زبان نہیں ہے، بلکہ یہ زبان وہاں منگولوں اور تُرکوں کے حملوں کے نتیجے میں رائج ہوئی ہے۔ لہٰذا، اُن کی 'لسانی تطہیر' ہونی چاہیے اور اُن کو تُرکی زبان تَرک کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔۔۔ مصرعِ دوم میں اُس روایت کی جانب اشارہ ہے جس کے مطابق زرتُشت کا جائے تولُّد دیارِ آذربائجان تھا، اگرچہ بیشتر مُعاصر مُحقّقین اِس روایت کو درست نہیں مانتے، اور اُن کا کہنا ہے کہ زرتُشت احتمالاً حالیہ افغانستان میں یا مشرقی ایران میں کہیں متولّد ہوا تھا۔)
عارف قزوینی اپنے ایک نغمے میں زبانِ تُرکی کی مخالفت میں کہتے ہیں:
نسیمِ صبح‌دم خیز
بگو به مردُمِ تبریز
که نیست خلوتِ زردُشت
جایِ صحبتِ چنگیز

(عارف قزوینی)
اے نسیمِ صُبحگاہی! اُٹھو اور مردُمِ تبریز سے کہو کہ زرتُشت کی خلوَت (یعنی: آذربائجان) چنگیزی گفتگو (یعنی: زبانِ تُرکی) کی جا نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شهریارا تا بُوَد از آب آتش را گزند
باد خاکِ پاکِ آذربایجان مهدِ امان!

(شهریار تبریزی)
اے شہریار! جب تک آب سے آتش کو گزند پہنچتی ہے (یعنی جب تک تا قیامت آب سے آتش بُجھتی رہے گی)، خاکِ پاکِ آذربائجان امن و امان کا گہوارہ رہے!
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
ای زبانِ پارسی جاوید مان در روزگار
(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
اے زبانِ فارسی! زمانے میں ہمیشہ جاوداں رہو!

(مصرع)
این زبانِ پارسی گنجینهٔ فرهنگِ ماست
(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
یہ زبانِ فارسی ہماری ثقافت کا گنجینہ ہے۔
 
Top