حسان خان

لائبریرین
گذشتہ صدی کے شاعر شہریار تبریزی کی سِتائش میں کہی گئی بیت:
پارسی، تُرکی و تازی ھمه در دستِ تو موم
کِلکِ جادویِ تو از این همه گوهرچین بود

(منوچهر مرتضوی)
فارسی، تُرکی اور عربی تینوں زبانیں تمہارے دست میں موم تھیں۔۔۔ تمہارا جادوگر قلم اِن سب سے گوہر چُنتا تھا۔ (ِیا تمہارے جادوگر قلم نے اِن سب سے گوہر چُنے تھے۔)
 

یاز

محفلین
اے بے خبر بکوش کہ صاحب خبر شوی
تا راہرو نباشی تو کے راہبر شوی

(حافظ شیرازی)

اے بے خبر! کوشش کر تاکہ تو صاحبِ خبر بنے۔ جب تک تو مسافر نہ بنے گا، رہبر کیسے بنے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شہریار تبریزی کی سِتائش میں کہی گئی بیت:
گشت بیدار ز فریادِ تو حیدربابا
قرن‌ها چشم به راهِ خلَفی چونین بود

(منوچهر مرتضوی)
تمہاری فریاد سے 'حیدر بابا' بیدار ہو گیا۔۔۔ وہ صدیوں سے ایسے کسی فرزند کا مُنتظِر تھا۔

× حیدر بابا = ایرانی آذربائجان کے قریے 'خُشگَناب' میں واقع ایک کوہ کا نام، جس کے نزدیک شہریار تبریزی کا زمانۂ طِفلی گذرا تھا، اور جس کی یاد میں اور جس کو مخاطَب کر کے اُنہوں نے اپنا مشہور تُرکی منظومہ 'حیدر بابایه سلام' (حیدر بابا کو سلام) لکھا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری کی سِتائش میں کہی گئی ایک بیت:
هوش‌مندان را بُوَد روشن که شعرِ پارسی
باشد اندر گوشِ ایران و جهان چون گوشوار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
ہوش مندوں پر [یہ چیز] آشکار ہے کہ فارسی شاعری ایران و دُنیا کے کان میں گوشوارے (بُندے) کی طرح ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری کی سِتائش، اور تُرکی شاعری کی تنقیص میں کہی گئی بیت:
شعرِ تُرکی کَی زند پهلو به شعرِ پارسی
کاین بُوَد رُستم ولی آن کم‌تر از اِسفندیار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
تُرکی شاعری، فارسی شاعری کی برابری کب کر سکتی ہے؟۔۔۔ کہ یہ (فارسی شاعری) رُستم ہے، جبکہ وہ (تُرکی شاعری) اِسفندیار سے کمتر ہے۔
(شاہنامۂ فردوسی میں رُستم نے اِسفندیار کو شکست دے کر قتل کر دیا تھا۔)

ہاہاہاہاہاہاہا! :LOL::LOL::LOL:
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکی شاعری کی تنقیص میں کہی گئی بیت:
شرق و غرب ار شد مُسخّر در خلافت تُرک را
شعرِ تُرک از زادگاهِ خود نرفت اندر جوار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
اگرچہ تُرکوں نے [اپنی] خِلافت میں شرق و غرب مُسخَّر کر لیے۔۔۔ لیکن تُرکی شاعری اپنی جائے تولُّد سے نِکل کر اطراف میں نہ پھیلی۔
 

لاریب مرزا

محفلین
نقصِ خود در یافتن باشد کمالِ آدمی
ورنہ ہر ناقص کہ بینی در حقیقت کامل است


میر عظمت اللہ بیخبر بلگرامی

اپنے نقص اور عیب کو پا جانا ہی آدمی کا کمال ہے، ورنہ جو بھی ناقص تجھے نظر آتا ہے وہ حقیقت میں کامل ہے (اور تجھے اپنے نقص کی وجہ سے ناقص نظر آتا ہے)۔
خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکی شاعری کی تنقیص میں کہی گئی بیت:
شرق و غرب ار شد مُسخّر در خلافت تُرک را
شعرِ تُرک از زادگاهِ خود نرفت اندر جوار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
اگرچہ تُرکوں نے [اپنی] خِلافت میں شرق و غرب مُسخَّر کر لیے۔۔۔ لیکن تُرکی شاعری اپنی جائے تولُّد سے نِکل کر اطراف میں نہ پھیلی۔
ابیاتِ بعدی:
شعرِ تُرکان زادهٔ دیرینه فرهنگی نبود
بود نوزادی که گشت از عاریت‌ها نونوار
شعرِ ما تا شد خُراسانش پس از اسلام مهد
رفت از چین تا به روم و از یمن تا قندهار
زانکه او شبدیزوَش فرهنگِ دیرینش به‌پشت
گرم و شیرین رفت و مردُم شیفته بر آن سوار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
[کیونکہ] تُرکوں کی شاعری کسی قدیم ثقافت کی مَولود نہ تھی، بلکہ وہ تو ایک نوزاد تھی جو [اِدھر اُدھر سے] قرضے لے لے کر نودولتیا ہو گئی تھی۔۔۔۔ [جبکہ] اسلام کے بعد جب ہماری شاعری کا گہوارہ خُراسان بنا تو وہ چین سے لے کر رُوم تک، اور یمن سے تا قندہار پھیل گئی۔ کیونکہ اُس کی پُشت پر ایک دیرینہ ثقافت تھی اور ایک وہ ایک اسْپ کی طرح گرم و شیریں (یعنی قوّت و نزاکت کے ساتھ) چلی تھی اور مردُم شیفتگی کے ساتھ اُس [اسپِ فارسی] پر سوار تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشق تا دستِ نوازش بر سرِ دوشم کشید
زال شد صائب اگر رُستم مُقابل شد مرا

(صائب تبریزی)
اے صائب! عشق نے جب سے میرے شانے پر دستِ نوازش پھیرا [ہے]، اگر میرے مُقابل میں 'رُستم' [جیسا کوئی قوی تن] آیا تو وہ [بھی] 'زال' ہو گیا۔

تشریح: شاہنامۂ فردوسی کے عظیم تہرین پہلوان و قہرَمان رُستم کے پدر کا نام 'زال' تھا۔ فارسی میں زال اُس شخص کو کہتے ہیں جس کے چہرے اور سر پر بال سفید ہوں، یا پھر یہ کسی شخصِ پِیر کے لیے استعمال ہوتا تھا (خصوصاً پِیرزَنوں کے لیے)۔ شاعری میں چونکہ دُنیا کو ایک زنِ پِیر کے طور پر تصوُّر کیا جاتا ہے، اِس لیے اُس کو بھی کئی بار 'زال' کہہ کر پُکارا گیا ہے۔ رُستم کے پدر کا نام 'زال' اِس لیے رکھا گیا تھا، کیونکہ جب وہ دنیا میں آیا تھا تو اُس کے جسم کے سارے بال سفید تھے۔ (لیکن صرف اُس کے بال سفید تھے، ورنہ وہ خود بھی جوانی میں ایک تنومند پہلوان تھا۔) صائب تبریزی کہہ رہے ہیں کہ عاشق ہو جانے اور عشق کی سرپستی میں آ جانے کے بعد سے میرے مُقابل میں رُستم جیسے قوی تن پہلوان بھی کچھ نہیں ہیں، اور میرے رُوبرو آ کر وہ مثلِ رُستم افراد بھی کسی ناتواں پیرمَرد میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
× قہرَمان = ہِیرو
× پِیر = بوڑھا/بوڑھی
× پِیرمَرد = بوڑھا، بوڑھا مرد
× پِیرزَن = بوڑھی، بوڑھی عورت
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از میر غلام مُصطفیٰ بلگرامی

بشنو اے دل حقیقتِ پنہانی
ایماں موقوف شد بر انساں دانی
ہرچند بصد سجدہ تو حق را خوانی
تا سجدہ بہ آدم نہ کنی شیطانی


اے (میرے) دل، یہ پنہاں اور گہری حقیقت کی بات بھی ذرا سُن، کہ ایمان، انسان کے مرتبے کی شناخت اور اُس کی قدر پر موقوف ہے۔ ہرچند کہ تُو خدا کو سو سو سجدے کرتا ہے لیکن جب تک تُو آدم کو سجدہ (یعنی انسان کی عزت و تکریم) نہیں کرے گا، تُو شیطان (جیسا ہی) ہے۔
 
پیامِ حضرتِ منصور گفته‌اند این بود:
شکسته باد سری که هوایِ دار ندارد
(نجیب بارور)

کہتے ہیں کہ حضرتِ منصور کا پیام یہ تھا: وہ سر شکستہ ہوجائے جس میں دار کی خواہش نہ ہو.

شکستن: ٹوٹنا
دار: پھانسی کا پھندا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گذشتہ صدی کے عُثمانی ادیب سُلیمان نظیف کی ہَجو میں کہی گئی ایک نظم میں ایرانی وطن پرست و ملّت پرست شاعر عارف قزوینی ایک بیت میں کہتے ہیں:
دهانِ پاک بَرَد نامِ شاه اسماعیل
که نیست طُعمهٔ هر مُرغِ لاشخوار انجیر

(عارف قزوینی)
شاہ اسماعیل صفوی کا نام [کوئی] پاک دہن [ہی] لیتا ہے، کیونکہ انجیر ہر لاشخور پرندے (کرگَس/گِدھ) کا لُقمہ نہیں ہے۔
(یعنی 'انجیر' جیسی لطیف غذا لاشخور پرندوں کو نہیں ملتی۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عارف قزوینی اپنے ایک نغمے میں زبانِ تُرکی کی مخالفت میں کہتے ہیں:
"زبانِ تُرک از برای از قفا کشیدن است
صلاح، پایِ این زبان ز مملکت بُریدن است"

(عارف قزوینی)
تُرک کی زبان (یعنی: تُرکی) گُدّی سے کھینچنے کے لیے ہے۔۔۔ مناسب و بہتر یہ ہے کہ اِس زبان کے پاؤں [اِس] مملکت (یعنی: ایران) سے کاٹ دیے جائیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عارف قزوینی اپنے ایک نغمے میں زبانِ تُرکی کی مخالفت میں کہتے ہیں:
"زبانِ تُرک از برای از قفا کشیدن است
صلاح، پایِ این زبان ز مملکت بُریدن است"

(عارف قزوینی)
تُرک کی زبان (یعنی: تُرکی) گُدّی سے کھینچنے کے لیے ہے۔۔۔ مناسب یہ ہے کہ اِس زبان کے پاؤں [اِس] مملکت (یعنی: ایران) سے کاٹ دیے جائیں۔
گذشتہ صدی میں عُثمانی و ایرانی قوم پرستوں میں یہ زہرآلود، تباہی برانگیز اور غیر جمہوری تفکُّر فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے آ کر رائج ہو گیا تھا کہ کسی ریاست میں صرف ایک زبان ہونا، اور باقی دیگر زبانوں پر پابندی ہونا لازم ہے۔ اِسی لیے تُرکیہ میں کُردی اور ایران میں تُرکی (اور دیگر زبانیں) تحتِ فِشار رہی ہیں، اور اُن کو محو کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ جبراً لسانی یکساں سازی کی ریاستی کوششوں کے لحاظ سے تُرکیہ کی تاریخ ایران کے مقابلے میں مزید داغ دار ہے، کیونکہ ایران میں ۱۹۷۹ء کے بعد سے تُرکی کو اِجباراً محو کرنے کی کوششیں ریاستی سطح پر ختم ہو گئی ہیں اور ایران میں اِجباری لسانی یکساں سازی کی کوششیں تُرکیہ کی طرح شدید نہیں تھیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان و ادبیات کی ستائش میں ابیات:
این زبانِ پارسی با آن جهان‌گُستر ادب
در مذاقِ جانِ من باشد شرابی خوش‌گوار
زین شرابِ ناب سرمست ار شوی شادان شوی
وز چُنین سرمستی‌ات گردد دم و جان و هوشیار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
[اپنے] اُس جہاں گیر ادب کے ساتھ یہ زبانِ فارسی میری جان کے کام و دہن کے لیے ایک خوشگوار شراب ہے (یعنی یہ میری جان کو ایک خوشگوار شراب جیسا ذائقہ و لذّت دیتی ہے)۔۔۔ اگر تم اِس شرابِ خالص سے سرمست ہو جاؤ تو شاداں ہو جاؤ گے اور اپنی اِس سرمستی سے تمہاری جان ہوشیار ہو جائے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
جان بخشَمت آن ساعت کز لب شَکَرم بخشی
(خاقانی شِروانی)
جس لمحہ تم مجھ کو [اپنے] لب سے شَکَر بخشو گی، میں تم کو [اپنی] جان دے دوں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جہادِ نفس بُوَد کارِ شیر مرداں فرد
نہ ہر کہ صف شکند اُو بہادری داند


میر سید اسد اللہ فرد بلگرامی

اے فرد، اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا بھی شجاع لوگوں کا کام ہے، بہادر صرف وہی نہیں ہے کہ جو صف شکن ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
ز شاهان چُنو کس نپَروَرْد چرخ
شنیدستم این من ز شهنامه‌خوان

(فرُّخی سیستانی)
فلک نے اُس جیسا کوئی شاہ پرورش نہیں کیا ہے۔۔۔ یہ [بات] میں نے شاہنامہ خواں سے سُنی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
خداوندِ ما را ز کس بیم نیست
مگر ز آفرینندهٔ پاکِ جان

(فرُّخی سیستانی)
ہمارے مالک (محمود غزنوی) کو کسی سے خوف نہیں ہے، اِلّا جان کو خَلق کرنے والے خالقِ پاک سے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غزنوی دور کے وزیر خواجہ احمد بن حسن میمندی کی مدح میں کہی گئی بیت:
گُریزنده گشته‌ست بُخل از کفش
کفش «قُل اعوذ» است و بُخل اهرِمن

(فرُّخی سیستانی)
بخیلی اُس کے کفِ دست سے گُریزاں و برکنار ہو گئی ہے۔۔۔ [گویا] اُس کا کفِ دست «قُل اعُوذ» ہے اور بخیلی شیطان۔
× بُخْل/بخیلی = کنجوسی

سُبحان اللہ! ہمارے شُعَراء مدحیہ قصیدوں میں بھی کیا خوب مضمون آفرینی کرتے تھے!
 
Top