محمد وارث

لائبریرین
زدہ ام برسرِ جہاں پاپوش
بے سبب ایں برہنہ پائی نیست


حسان الہند میر غلام علی آزاد بلگرامی

میں نے اپنا جُوتا اِس (حقیر و ذلیل) دُنیا کے سر پر دے مارا ہے، میری یہ برہنہ پائی (ننگے پاؤں یا مفلس ہونا) بے سبب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں فرُّخی سیستانی کہتے ہیں:
نامِ تو نامِ همه شاهان بِسْتُرد و بِبُرد
شاهنامه پس از این هیچ ندارد مقدار
(فرُّخی سیستانی)

تمہارے نام نے تمام شاہوں کے نام کو محو اور زائل کر دیا ہے۔۔۔ [اب] اِس کے بعد سے شاہنامہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی کی سِتائش میں کہی گئی ایک نظم میں غلام‌علی رعدی آذرَخشی اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں، کہ زبانِ فارسیِ دری حالیہ ایران میں خُراسان سے آئی تھی:
از خُراسان این زبان شد چیره بر ایران‌زمین
یافت در سرتاسرِ کشور رواج و انتشار
(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)

یہ زبان خُراسان سے سرزمینِ ایران پر غالب ہوئی، اور اِس نے کُل مُلک میں رواج و اشاعت پائی۔
 

انعام ندیم

محفلین
دوستو!، غالب کے درج ذیل شعر کا درست فارسی متن اور اردو ترجمہ درکار ہے۔ اگر کوئی صاحب مدد کرسکیں تو شکرگزار ہوں گا۔ شعر کچھ یوں ہے:
نا امیدی ما گردش ایام نہ دارد
روز کہ سیاہ شد سحر وشام ندارد

منتظرہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
مرا تا دیده بر رُویِ تو باز است
تنم چون شمع در سوز و گداز است
قدت کوتاه همچون عُمرِ ‎مفتون
ولی زُلفت چو اُمّیدم دراز است

(مفتون بُردِخونی)
جب تک میری چشم تمہارے چہرے کی جانب کُھلی ہوئی ہے، میرا تن شمع کی طرح سوز و گُداز میں ہے۔۔۔ تمہارا قد 'مفتون' کی عُمر کی طرح کوتاہ ہے، لیکن تمہاری زُلف میری اُمید کی طرح دراز ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
همچو غُنچه دل‌تنگم ساقیا مُدارا کُن
جُرعه‌ای به کامم ریز غُنچهٔ دِلم وا کُن

(سیّدایِ کرُوخی هِرَوی)
میں غُنچے کی طرح دل تنگ ہوں۔۔۔ اے ساقی، لُطف و مہربانی کرو۔۔۔ میرے دہن میں ایک جُرعۂ [شراب] اُنڈیلو، [اور] میرے غُنچۂ دل کو وا کر دو۔
× جُرعہ = گھونٹ
 

حسان خان

لائبریرین
زُلفِ عنبرین‌آسا کرده جُمله را ترسا
ای مسیحِ وقت اِمشب جلوه در کلیسا کُن

(سیّدایِ کرُوخی هِرَوی)
[تمہاری] زُلفِ مُعطّر نے سب کو مسیحی کر دیا ہے۔۔۔ اے مسیحِ وقف! اِمشب کلیسا میں جلوہ کرو۔
× اِمشب = اِس شب، آج شب
 

حسان خان

لائبریرین
از لبِ شکّربارت بوسه‌ای طمع دارم
یا بِکُش به شمشیرم یا مُرادِ دل را کُن

(سیّدایِ کرُوخی هِرَوی)
مجھے تمہارے لبِ شَکَر بار سے ایک بوسے کی طمع ہے۔۔۔ یا تو مجھ کو شمشیر سے قتل کر دو، یا پھر [میرے] دل کی مُراد [عطا] کر دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن که از هجرِ یار بی‌تاب است
جاری از دیدگانِ او آب است

(مفتون بُردِخونی)
جو شخص یار کے ہِجر سے بے تاب ہے، اُس کی چشموں سے آب جاری ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
وصلِ جانان بُوَد چو آبِ حیات
لیک ‎مفتون! وصال کم‌یاب است

(مفتون بُردِخونی)
وصلِ جاناں آبِ حیات کی طرح ہے۔۔۔ لیکن، اے مفتون!، وصال کم یاب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ فارسی کی سِتائش میں کہی گئی ایک بیت:
این زبان بود آن‌چُنان شایِع که در هر شهر و دِه
پارسی بینی به هر جا نقش بر سنگِ مزار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
یہ زبان اِس طرح رائج و مُتداوِل تھی کہ ہر شہر و ہر قریے میں تمہیں ہر جگہ سنگِ مزار پر فارسی منقوش نظر آئے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
قوم پرستانہ نُقطۂ نظر سے زبانِ فارسی کی سِتائش میں کہی گئی ایک بیت:
این زبانِ پارسی پیوندِ قومیّت بُوَد
ور نه استقلالِ ما هرگز نمانَد بر قرار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
اِس زبانِ فارسی نے قومیت کو [باہم] پیوستہ و مُتّصل رکھا ہوا ہے (یا اِس زبانِ فارسی نے ہم کو ایک قوم کے طور پر پیوستہ رکھا ہوا ہے)، ورنہ [اِس کے بغیر] ہمارا استقلال ہرگز برقرار نہ رہے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی کی ستائش، اور ایران کی دیگر 'علاقائی' زبانوں کی تحقیر میں ایک بیت:
پارسی را با زبان‌هایِ محلّی جنگ نیست
هیچ دریایی نوَرزد دشمنی با جُوبیار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
فارسی کی علاقائی زبانوں کے ساتھ جنگ نہیں ہے۔۔۔ کوئی بھی بحر نہر کے ساتھ دُشمنی نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ فارسی کے برائے کہی گئی ایک بیت:
این زبان را خوار خواهد آن که در چشمانِ او
این‌همه گُل‌هایِ جان‌پرور خلَد مانندِ خار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
جس شخص کی چشموں میں [فارسی کے] یہ اِتنی کثیر تعداد میں جاں پروَر گُل، خار کی طرح چُبھتے ہیں (یعنی جو شخص فارسی سے حسد کرتا ہے)، وہ چاہتا ہے کہ یہ زبان حقیر و ذلیل ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آذربائجان میں زبانِ تُرکی کی حمایت میں آوازیں بلند کرنے والوں، اور زبانِ تُرکی کی مذّت میں کہی گئیں ابیات:
چند تن گم‌راهِ فرصت‌جو در آذربایجان
می‌زنند از بهرِ «تُرکی» سینه در این گیر و دار
از پَیِ ترویجِ تُرکی خصمِ جانِ پارسی
جُمله در بیگانه پروردن شده پروردگار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
آذربائجان میں چند گُمراہ و موقع پروَر افراد اِس ہنگامے میں 'تُرکی' کی خاطر سینہ زنی کر رہے ہیں۔۔۔۔ فارسی کی دُشمنِ جاں 'تُرکی' کی ترویج کی کے لیے وہ سب بیگانہ پروَری میں ماہر ہو گئے ہیں۔
(فارسی ایرانی قومی پرستوں کے نزدیک تُرکی ایران کے لیے بیگانہ زبان ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آذربائجان میں جو شُعَراء تُرکی زبان میں شاعری کرتے ہیں، اُن پر طنز کے لیے کہی گئی بیت:
ناتوان در پارسی از گفتنِ شعری بلند
رُو به شعرِ نازلِ تُرکی کنند از اضطرار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
وہ فارسی میں کوئی عالی شاعری کرنے میں ناتواں ہیں، [اِس لیے] لاچاری سے وہ تُرکی کی پست و کم قیمت شاعری کی جانب رُخ کرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی کی مذمّت میں کہی گئیں ابیات:
باشد ایرانی‌تر از هر خطّه آذربایجان
چون ندارد پاسِ خود این خطّهٔ ایران‌مدار؟!
تُرکی از ره کرد در آن، پارسی بُومی بُوَد
بُومی از بیگانهٔ شُومی چرا گردد فِگار؟!

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
آذربائجان [دیگر] ہر خِطّے سے زیادہ 'ایرانی' ہے۔۔۔ پس یہ خطّہ، کہ جس کا مدار ایران ہے (یعنی جو ایران کے گِرد گھومتا ہے)، کیسے اپنا پاس نہ رکھے؟!۔۔۔ تُرکی بیرون سے اندر آ گئی ہے [اور اُس نے آذربائجان کو مُنحرِف کر دیا ہے]، جبکہ فارسی مقامی ہے۔۔۔ مقامی، کسی بدبخت بیگانے سے کیوں مجروح و آزُردہ ہو؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی کی مذمّت میں کہی گئی ابیات:
من نگویم باید از آن رانْد تُرکی را به زور
گو یکی خرزَهره هم رُوید میانِ لاله‌زار
لیک گویم بر «دری» تفضیلِ تُرکی نارواست
شهد‌نوشان را نباشد رغبتی بر زهرِ مار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
میں نہیں کہتا کہ [آذربائجان] سے تُرکی کو جبراً دور بھگانا لازم ہے۔۔۔ [چلو] لالہ زار کے درمیان ایک خرزَہرہ بھی اُگنے دو۔۔۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ فارسی پر تُرکی کو فضیلت دینا ناروا ہے۔۔۔ شہد نوش کرنے والوں کو سانپ کے زہر کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی۔
× خرزَہرہ = ایک زہردار پودے کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی کی مذمّت میں کہی گئی ابیات:
من نگویم باید از آن رانْد تُرکی را به زور
گو یکی خرزَهره هم رُوید میانِ لاله‌زار
لیک گویم بر «دری» تفضیلِ تُرکی نارواست
شهد‌نوشان را نباشد رغبتی بر زهرِ مار

(غلام‌علی رعدی آذرَخشی)
میں نہیں کہتا کہ [آذربائجان] سے تُرکی کو جبراً دور بھگانا لازم ہے۔۔۔ [چلو] لالہ زار کے درمیان ایک خرزَہرہ بھی اُگنے دو۔۔۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ فارسی پر تُرکی کو فضیلت دینا ناروا ہے۔۔۔ شہد نوش کرنے والوں کو سانپ کے زہر کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی۔
× خرزَہرہ = ایک زہردار پودے کا نام
بہ حیثیتِ مُحِبِّ زبانِ تُرکی و آذربائجان، مجھے اِن ابیات کے مضمون سے صد فیصد اختلاف ہے، لیکن کہنا پڑے گا کہ شاعر نے شاعرانہ لحاظ سے یہ ابیات بِسیار خوب کہی ہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
نقصِ خود در یافتن باشد کمالِ آدمی
ورنہ ہر ناقص کہ بینی در حقیقت کامل است


میر عظمت اللہ بیخبر بلگرامی

اپنے نقص اور عیب کو پا جانا ہی آدمی کا کمال ہے، ورنہ جو بھی ناقص تجھے نظر آتا ہے وہ حقیقت میں کامل ہے (اور تجھے اپنے نقص کی وجہ سے ناقص نظر آتا ہے)۔
 
Top