سید عاطف علی

لائبریرین
به خونم زد رقم، تا با قلم شد آشنا دستش
پری‌رُویی که می‌بُردم به مکتب من کتابش را

(صائب تبریزی)
جس پری رُو [کو لکھنا سِکھوانے کے لیے] مَیں اُس کی کتاب کو مکتب لے جایا کرتا تھا [اور وہاں جا کر، سیکھنے کے لیے اُس کو وہ کتاب دیتا تھا]، اُس کا دست جیسے ہی قلم سے آشنا ہوا تو اُس نے میرے [ہی] خُون سے تحریر لکھ دی۔

واہ۔۔۔۔اس پر ایک عربی کلام یاد آگیا۔

اُعلمہُ الرمایۃَ کلَ یومِِ
فلما اشتَد ساعدہُ رمانی
وکم علمتہُ نظمَ القوافی
فلما قالَ قافیۃ ََ ہجانی


میں نے اسے روزانہ نشانہ بازی سکھاتا رہا۔
جس اس کے بازو قوی ہوئے اس نے مجھے نشانہ بنایا۔
میں نے اسے کتنی ہی قافیہ بندی سکھائے۔
جب اس نے کچھ کہا تو میری ہجو کہی ۔
 

حسان خان

لائبریرین
یک حمله و یک حمله، کآمد شب و تاریکی
چُستی کن و تُرکی کن، نی نرمی و تاجیکی

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ایک حملہ کرو، ایک حملہ کرو، کہ شب و تاریکی آ گئی [ہے]۔۔۔ تُرکوں کی طرح [حملے کے لیے] چُستی و جلدی کرو، تاجیکوں کی طرح نرمی نہیں۔
(تُرکان اپنی جنگجوئی اور شہامت و دلیری کی وجہ سے مشہور تھے، جبکہ اُن کے مقابلے میں تاجیکان (یعنی فارسی گویان) مُتمدِّن شہرنشینی کی وجہ سے نرمی و صُلح جوئی پر مائل تھے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ھستم گدایِ دَیر ولی نقدِ اختران
پاشم به پایِ مُغ‌بچه آن گه که سرخوشم

(امیر علی‌شیر نوایی)
اگرچہ میں گدائے دَیر ہوں، لیکن جس وقت کہ میں سرمست ہوؤں، مَیں مُغبَچے کے پاؤں پر ستاروں کی نقدی افشاں کرتا ہوں۔

× 'دَیر' بنیادی طور پر مسیحی راہبوں کی اقامت گاہ و عبادت گاہ کو کہتے ہیں، لیکن بیتِ ہٰذا میں یہ لفظ میکدے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
× مُغبَچہ = قدیم شراب خانوں میں شراب پلانے پر مامور لڑکا
 

لاریب مرزا

محفلین
در جہاں امروز از بس قدرِ اہلِ زر بُوَد
می زند پہلو بہ عیسیٰ ہر کہ صاحب خر بُوَد


نظام الدین احمد صانع بلگرامی

اِس دنیا میں آج کل از بس کہ صرف مالدار لوگوں ہی کی قدر ہوتی ہے، لہذا ہر وہ کہ جو صاحبِ خر ہے (گدھے کا مالک ہے یا کچھ حیثیت رکھتا ہے) وہ حضرت عیسیٰ کی برابری کرنے لگتا ہے۔
خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
بِگْذشت نِگاری و نگاهی سویِ ما کرد
وندر دلِ من فتنه و آشوب بپا کرد

(محمود افشار یزدی)
ایک [یارِ] زیبا گُذرا اور اُس نے ہماری جانب ایک نگاہ کی۔۔۔ اور اُس نے میرے دل میں فتنہ و آشوب برپا کر دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یاران مروید از پَیِ درمانِ دلِ من
کاین درد به دارو نتوانید دوا کرد

(محمود افشار یزدی)
اے یارو! میرے دل کے درماں کی تلاش میں مت جائیے۔۔۔ کیونکہ آپ دوا سے اِس درد کا علاج نہیں کر سکتے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن تیر که از دیده رها کرد به من خورْد
آیا دلِ من بود هدف یا که خطا کرد

(محمود افشار یزدی)
جو تیر اُس نے [اپنی] چشم سے چھوڑا، وہ مجھ سے ٹکرایا۔۔۔ آیا میرا دل ہدف تھا؟ یا کہ اُس نے [نشانے میں] خطا کر دی؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رویِ زیبایِ تو ای ماه که رشکِ قمر است
خوب در پرده و از پرده برون خوب‌تر است

(محمود افشار یزدی)
اے ماہ! تمہارا چہرہ - کہ جو رشکِ قمر ہے - پردے کے اندر خوب ہے، اور پردے سے بیرون خوب تر۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پندِ افشار فراگیر و بِپرهیز از مَی
باده را لذّتِ یک ساعت و عُمری ضرر است

(محمود افشار یزدی)
'افشار' کی نصیحت پر عمل کرو اور شراب سے پرہیز کرو۔۔۔ کہ بادہ کی لذّت ایک ساعت [جتنی ہے، لیکن] اُس کا ضرر ایک عُمر [تک رہتا] ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بارها بود که با وسوسه «شیطانِ رجیم»
خواست بیرون کند ایمانِ وطن از دلِ ما
نرود عشقِ وطن از دل و جانم بیرون
که سِرِشته‌ست به مِهرِ وطن آب و گِل ما

(محمود افشار یزدی)
'شیطانِ رجیم' نے بارہا وسوَسہ کرتے ہوئے چاہا کہ وہ ایمانِ وطن کو ہمارے دل سے بیرون کر دے۔۔۔ [لیکن] عشقِ وطن میرے دل و جاں سے بیرون نہیں جائے گا، کیونکہ ہمارا آب و گِل حُبِّ وطن سے گُندھا ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آنکه باید از طریقِ دین نماید راهِ راست
خلق را سویِ ضلالت می‌بَرَد چون اهرِمن
آنکه باید با تجارت ثروت آرد سویِ مُلک
ثروتِ کِشوَر رباید همچو دُزد و راه‌زن

(محمود افشار یزدی)
جس شخص کو چاہیے کہ وہ دین کے توسُّط سے راہِ راست دِکھائے، وہ شیطان کی طرح مردُم کو گُمراہی کی جانب لے جاتا ہے۔۔۔ جس شخص کو چاہیے کہ وہ تجارت کے ذریعے مُلک میں ثروت لائے، وہ چور و راہزن کی طرح مُلک کی ثروت لوٹ لیتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پہلوی دور کے ایرانی وطن پرست و ملّت پرست ادیب و شاعر محمود افشار یزدی کے پدری اجداد بھی اگرچہ تُرک تھے - جیسا کہ اُن کے خاندانی نام افشار سے ظاہر ہے - تاہم وہ بہ شدّت تُرک و تُرکی مخالف، بلکہ تُرکوں وَ تُرکی سے مُتنفِّر تھے۔ وہ اپنی ایک بیت میں تُرکی زبان اور تُرکوں کی دیگر یادگاروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
باید آثاری که برجا مانده از تُورانیان
گردد از این کِشوَر و مِلّت به یکجا ریشه‌کَن

(محمود افشار یزدی)
تُورانیوں (تُرکوں) کے جو بھی آثار و یادگاریں باقی رہی ہیں، اُن تمام کی اِس مُلک و ملّت سے بیخ کَنی ہو جانی چاہیے۔

× شاہنامۂ فردوسی میں تُورانیوں کو تُرک دکھایا گیا تھا، اِسی لیے اِس بیت میں تُرکوں کو 'تُورانیوں' کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایرانی وطن پرست و ملّت پرست شاعر محمود افشار یزدی اپنی ایک نظم میں دیارِ آذربائجان میں تُرکی کے رواج کی مذمّت میں لکھتے ہیں:
"وحدتِ ملّی به دل‌ها ریشه دارد راست است
لیک می‌ترسم من ازین روزگارِ ریشه‌کَن
مِهرها و عشق‌ها را بارها برکنده است
باورت گر نیست گامی از «ارَس» آن‌سوی زن
کو در آنجا چون «نظامی» فارسی‌گو شاعری!
یا سُخن‌دانی چو «خاقانی» همان اُستادِ فن!
این دو شاعر هر دو زان سویِ «ارَس» برخاستند
«گنجه» و «شِروان» دو زیور بود از ایرانِ کُهن

فارسی بودی زبانِ اهلِ آذربایجان
تُرکی از دورانِ تاتار است و تُرک و تُرکمَن

گر بِخواهی ملّتِ ایران نمیرد زنده دار
فارسی را در تنِ کِشوَر چو جان اندر بدن"

(محمود افشار یزدی)
یہ درست ہے کہ وحدتِ مِلّی نے دلوں میں بیخ (جڑ) کر لی ہے لیکن میں اِس بیخ کَن زمانے سے ڈرتا ہوں۔۔۔ [کیونکہ] اِس نے بارہا محبّتوں وَ عشقوں کو دل سے اُکھاڑ پھینکا ہے۔۔۔ اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو ذرا 'ارَس' کے اُس جانب ایک قدم رکھو [اور بتاؤ کہ] وہاں [اب] 'نظامی گنجوی' جیسا کوئی فارسی گو شاعر، اور اُستادِ فن 'خاقانی شِروانی' جیسا کوئی سُخن دان کہاں ہے؟۔۔۔ یہ دونوں شاعر ارَس کے اُس طرف سے مُنصّۂ شہود میں آئے تھے۔۔۔ 'گنجہ' اور 'شِروان' ایرانِ قدیم کے دو زیور تھے۔۔۔ اہلِ آذربائجان کی زبان فارسی تھی۔۔۔۔ زبانِ تُرکی تاتاروں، تُرکوں اور تُرکمَنوں کے دور کی یادگار ہے۔۔۔ اگر تم چاہو کہ ملّتِ ایران نہ مرے تو فارسی کو تنِ مُلک میں اِس طرح زندہ رکھو جیسے بدن کے اندر جان۔

× 'ارَس' اُس دریا کا نام ہے جو ایران اور ایرانی آذربائجان کو جمہوریۂ آذربائجان سے جدا کرتا ہے۔ 'ارَس کے اُس جانب' سے قفقازی آذربائجان کا خِطّہ مُراد ہے، جہاں آٹھ صدیوں قبل 'نظامی گنجوی' اور 'خاقانی شِروانی' جیسے عظیم فارسی شُعراء متولّد ہوئے تھے، لیکن وہاں گذشتہ کئی صدیوں سے تُرکی رائج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اہلِ تبریز کی تُرکی گوئی کی مذمّت میں ابیات:
دل‌برِ تبریز اگر با فارسی گوید سُخن
شَکَّر و گُل‌قند می‌افشاند از نوشین دهن
گر بِداند با چه شیرین لهجه گوید فارسی
«آذرم» هرگز نخواهد گُفت با تُرکی سخن

(محمود افشار یزدی)
دلبرِ تبریز اگر فارسی میں گفتگو کرے تو وہ [اپنے] دہنِ شیریں سے شَکَر و گُلقَند افشاں کرتا ہے۔۔۔ اگر وہ جان لے کہ وہ کس شیریں لہجے میں فارسی بولتا ہے تو میرا 'آذری' [پھر] ہرگز تُرکی میں گفتگو نہ کرے گا!
 

حسان خان

لائبریرین
جنگِ عظیمِ اوّل کے اختتام پر کہی گئی رباعی:
(رباعی)
آن دیو که نامِ او بود جنگ و جِدال
الحمد که شد کُشته به میدانِ قِتال
حوریهٔ صلح کو ز ترسِ آن دیو
پنهان شده بود باز بِنْمود جمال

(محمد تقی افشار)
وہ دیو کہ جس کا نام جنگ و جِدال تھا، الحمد للہ کہ میدانِ قِتال میں قتل ہو گیا۔۔۔ حُورِ صُلح نے، کہ جو اُس دیو کے خوف سے پنہاں ہو گئی تھی، دوبارہ اپنا جمال دِکھا دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلم بذکرِ تو شاد و سرم بفکرِ تو خوش
دل و دماغ ندارم بکار و بارِ دگر


سید غلام نبی محب بلگرامی

میرا دل تیرے ذکر سے شاد ہے اور میرے سر میں تیرے متعلق غور و فکر سے خوشی ہے۔ میں نے اپنے دل و دماغ کو کسی دوسرے کام میں لگایا ہی نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
روزی که در جهان غم و شادی نِهاد پای
شادی به سویِ او شد و غم رو به ما نِهاد
(فُروغی بسطامی)

جس روز کہ دُنیا میں غم و شادمانی نے قدم رکھا، تو شادمانی اُس کی طرف چلی گئی جبکہ غم نے ہماری جانب رُخ کر لیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از میر کرم اللہ غریب بلگرامی

شیطاں چو ز درگاہِ خدا شد مردود
پرسید کسے چرا نکردی تو سجود
گفتا کہ منم محوِ جمالِ رُخِ دوست
جز ذاتِ خدا دگر ندانم مسجود


شیطان کہ جب وہ خدا کی بارگاہ سے مردود ہو گیا، کسی نے اُس سے پوچھا کہ تُو نے سجدہ کیوں نہ کیا؟ کہنے لگا کہ میں جمالِ رُخِ دوست میں محو ہوں، اور خدا کی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدے کے قابل نہیں سمجھتا۔
 
بی همنفسی خوش نتوان زیست به گیتی
بی دستِ شناور نتوان رست ز غرقاب
(خاقانی شروانی)

کسی ہم نفس کے بغیر دنیا میں خوش نہیں رہا جاسکتا. تیرنے والے ہاتھ کے بغیر غرقاب ہونے سے نہیں بچا جاسکتا.
 

حسان خان

لائبریرین
عشقِ تو قضایِ آسمانی‌ست
وصلِ تو بقایِ جاودانی‌ست

(خاقانی شِروانی)
تمہارا عشق قضائے آسمانی ہے، [جبکہ] تمہارا وصل بقائے جاودانی ہے۔

دیارِ آذربائجان کے عظیم المرتبت فارسی شاعر خاقانی شِروانی پر سلام ہو!
 
Top