بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

فرقان احمد

محفلین
آپ کافی بڑا تیر مار لیں گے۔ میں اس کارنامے کا گواہ رہوں گا۔
کوشش تو کیجئیے۔ متعلقہ موضوع اور سوال پر آپ کی مختصر دو ٹوک رائے کیا ہے؟
آپ اس حوالے سے ہم سے براہ راست بحث نہ کریں کیوں کہ اس ایشو کو ہم نے زیادہ ہائی لائیٹ بھی نہیں کیا ہے پیارے بھیا! :)
ہمارا موقف یہ ہے کہ یوں منصوبہ بندی کر کے طلاق شدہ بیوی کو پھر سے پہلے مرد کے لیے حلال کرنا انتہائی قبیح فعل اور مذموم حرکت ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے تاہم اس کی آڑ میں سبھی علمائے کرام کو بدنام کرنا نامناسب ہے۔
 
فرقان بھائی دراصل حلالہ کا چور دروازہ مجبوراً کھولنے کی وجہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا واقع ہونا سمجھا جاتا ہے. گفتگو کا رخ اس طرف موڑ دیں تو زیادہ مناسب ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہونے کے دلائل زیادہ ہیں یا ان لوگوں کے دلائل مضبوط ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع ہوتی ہی نہیں. :)
ظہیر بھائی آپ کی بات بجا ہے لیکن فرض کریں کہ ایک آدمی ایک طلاق احسن دیتا ہے اور پھر ایک وقت گذرنے کے بعد دونوں رجوع یا نکاح جدید کر لیتے ہیں پھر دوسری اور تیسری مرتبہ یہی واقعہ پھر پیش آ جاتا ہے تو اب تو سب متفق ہیں کہ تین طلاقیں ہوگئی ہیں۔ اب پھر وہی حلالہ کا مسئلہ آ ٹپکے گا۔ اس لیے میرے نزدیک دونوں ہی باتیں اہم اور قابل غور ہیں:
حلالہ کا مسئلہ بھی
اور ایک مجلس میں تین طلاقوں کا واقع ہونا بھی۔
 
جن لوگوں نے ایک مجلس میں تین طلاق کے فیصلے دیے ہیں کیان لوگوں نے تھوڑا سا بھی اللہ کا فرمان عظیم قرآن حکیم کبھی کھول کر بھی دیکھا تھا؟ کیا کہتے ہیں آپ ایسے ایسے علمائے کرام اور ایسے مفتیوں کو جو طلاق کے لئے قرآنی احکامات ، یعنی دو عدد فیصلہ کرنے والے، چار مہینے کا انتظار، شادی کے معاہدے کو باہمی تجارت قرار دینا ، عورت کو شادی کے بعد دیے گئی بڑی سے بڑی رقم اس کا حق ، عورت کا گھر پر حق اور طلاق کے بعد خرچے کی ذمے داری جیسے قرآنی احکامات نظر نہیں آتے تو پھر ایسے علامہ فلامہ اور ملاء کو ہم کس طرح عالم تصور کرلیں۔

والسلام
کیا بات بھئی بار بار سلام کر رہے ہیں۔:)
 

محمدظہیر

محفلین
ظہیر بھائی آپ کی بات بجا ہے لیکن فرض کریں کہ ایک آدمی ایک طلاق احسن دیتا ہے اور پھر ایک وقت گذرنے کے بعد دونوں رجوع یا نکاح جدید کر لیتے ہیں پھر دوسری اور تیسری مرتبہ یہی واقعہ پھر پیش آ جاتا ہے تو اب تو سب متفق ہیں کہ تین طلاقیں ہوگئی ہیں۔ اب پھر وہی حلالہ کا مسئلہ آ ٹپکے گا۔ اس لیے میرے نزدیک دونوں ہی باتیں اہم اور قابل غور ہیں:
حلالہ کا مسئلہ بھی
اور ایک مجلس میں تین طلاقوں کا واقع ہونا بھی۔
مجھے بس ایک واقعہ ایسا بتا دیجیے جہاں طلاق احسن ہوا ہے اور حلالہ کی ضرورت پیش آئی ہو
حلالہ کے تمام واقعات بیک وقت تین طلاق سے پیش آتے رہے ہیں :)
 

محمدظہیر

محفلین
بہت شکریہ کہ آپ نے تین طلاق اور طلاق کی عدت کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ہی حلالہ کے مشورہ کے شارٹ سرکت یا چور دروازے کو آپس میں کنیکٹ کیا،

ایک مکمل آرٹیکل ابھی لکھا میں نے اس بارے میں کہ قرآن حکیم سے ہم کو کیا حکم ملتا ہے طلاق کے بارے میں۔

۔ آپ پڑھ لیں اور بتائیں کے ان احکامات میں کیا درست نہیں ہے؟ اور ایک مجلس میں تین طلاق کس طرح ہوجاتی ہیں؟، قرآن حکیم کی روشنی میں بجھ لاعلمے کو سمجھائیے۔

والسلام
آپ درست فرما رہے ہیں محترم فاروق صاحب. رہنمائی قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لینی چاہیے. اکثر انٹرپرٹیشن میں لوگ گڑبڑی کر لیتے ہیں.
 
مجھے بس ایک واقعہ ایسا بتا دیجیے جہاں طلاق احسن ہوا ہے اور حلالہ کی ضرورت پیش آئی ہو
حلالہ کے تمام واقعات بیک وقت تین طلاق سے پیش آتے رہے ہیں :)
ظہیر بھائی طلاق احسن سے بہتر طلاق کی صورت ہے ہی نہیں اور اس میں کوئی مفاسد نہیں ہیں۔ اور ہم ہر اس کوشش کی پر زور تائید کریں گے جو اس کے بارے میں کی جائے گی، لیکن آپ میری بات سمجھیں کہ ایسا ہونا ممکن تو ضرور ہے۔ اس لیے اس کے بعد کی امکانی صورت حال پر فقہی تحقیق تو بہر حال کرنی ہوگی۔
 
اب گل وبلبل (گوگل ویوٹیوب) سے ہٹ کر میں اپنا چشم دید واقعہ سناتا ہوں جو اتفاق سے حال ہی میں پیش آیا ہے۔
صورت حال یہ تھی کہ ہمارے جاننے والوں میں (گوجرانوالہ شہر کی ) ایک بچی کو طلاق ہوئی، خاوند نے اسے تین طلاقیں دی تھیں۔ بچی اپنے گھر آ گئی اور حسب معمول انہوں نے دار الافتاوں کے چکر لگانے شروع کیے۔ ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں (ایک منٹ فاروق صاحب پوری بات تو سن لیں:))
میرے ایک قریبی جاننے والے مفتی صاحب جو ۔۔۔۔۔مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی رائے یہی ہے کہ تین طلاقوں سے تین واقع ہوجاتی ہیں۔ ان سے میرے سامنے پوچھا گیا کہ آپ بتائیں کہ ہم کیا کریں۔ بچی کے لواحقین کا رجحان یہ تھا کہ اگر حلالہ کی صورت بھی ہوئی تو ہمارے لیے قابل قبول ہوگا کیونکہ بچوں کا معاملہ ہے۔ لیکن اس ملا ٹولے کے ایک فرد نے ان کو حلالے کا مشورہ دینے کی بجائے (حالانکہ اس کے پاس بہترین چانس تھا:)) کافی وقت لگا کر سمجھایا کہ:
ناسمجھی مت کریں اور اس خیال پر ضد نہ کریں کہ بچی لازمی طور پر اسی شوہر کے پاس جائے۔ آپ کی بچی آپ کے گھر آ چکی ہے اور اگر آپ کوئی حیلہ حوالہ کرکے اسے دوبارہ اسی شوہر سے ںیاہ بھی دیتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے؟ حالانکہ اس کی زبان اس طلاق پر جری بھی ہوچکی ہے۔
اس لیے آپ بچی کے لیے مناسب اور معقول رشتہ تلاش کریں اور اللہ کا نام لے کر اس سے نکاح کروادیں۔
میرے خیال میں جو علماء تین طلاق سے تین کا واقع ہونا دیانتا درست سمجھتے ہیں ان کے نزدیک ان مولوی صاحب کے مشورے میں کوئی قباحت نہیں۔
تو پھر یہ اگر یہ اصرار کیا جائے کہ یہ ملا ٹولہ بڑا حرام کار ہے۔۔۔ تو ہم اسے کیسے تسلیم کرلیں؟

یہ مشورہ دینے ولا ملاء نہیں، ملاء کی نظر سب کی دولت اور عزت پر ہوتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
آپ اس حوالے سے ہم سے براہ راست بحث نہ کریں کیوں کہ اس ایشو کو ہم نے زیادہ ہائی لائیٹ بھی نہیں کیا ہے پیارے بھیا! :)
ہمارا موقف یہ ہے کہ یوں منصوبہ بندی کر کے طلاق شدہ بیوی کو پھر سے پہلے مرد کے لیے حلال کرنا انتہائی قبیح فعل اور مذموم حرکت ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے تاہم اس کی آڑ میں سبھی علمائے کرام کو بدنام کرنا نامناسب ہے۔
میں آپ سے بحث نہیں کر رہا۔ میں کافی کم تبصرے کرنے کا عادی ہوں۔ اس دھاگے میں بھی میرے تبصروں اور الفاظ کی تعداد آ پ کے تبصروں اور الفاظ سے کہیں کم ہے۔ حتی کہ وہ لوگ جن کی رائے اور فکر مجھ سے ۱۸۰ درجہ مختلف ہوتی ہے انہیں میں شاذ ہی مخاطب کرتا ہوں۔ اس لئے آپ اطمینان رکھئیے۔
جہاں تک اس دھاگے میں آپ کی فکر سمجھ سکا ہوں وہ یہ کہ آپ متعلقہ موضوع پر کوئی واضح رائے نہیں رکھتے۔ تاہم اس مسئلے کے نتیجے میں مذہبی طبقے پر ہونے والی تنقید کو باز رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا میں درست سمجھا؟
 

فرقان احمد

محفلین
میں آپ سے بحث نہیں کر رہا۔ میں کافی کم تبصرے کرنے کا عادی ہوں۔ اس دھاگے میں بھی میرے تبصروں اور الفاظ کی تعداد آ پ کے تبصروں اور الفاظ سے کہیں کم ہے۔ حتی کہ وہ لوگ جن کی رائے اور فکر مجھ سے ۱۸۰ درجہ مختلف ہوتی ہے انہیں میں شاذ ہی مخاطب کرتا ہوں۔ اس لئے آپ اطمینان رکھئیے۔
جہاں تک اس دھاگے میں آپ کی فکر سمجھ سکا ہوں وہ یہ کہ آپ متعلقہ موضوع پر کوئی واضح رائے نہیں رکھتے۔ تاہم اس مسئلے کے نتیجے میں مذہبی طبقے پر ہونے والی تنقید کو باز رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا میں درست سمجھا؟
ہم آپ کے مزاج سے خوب واقف ہیں اور آپ کو وضاحت پیش کرنے کی ضرورت بھی نہ ہے۔ :) آپ بہت پیارے محفلین میں سے ایک ہیں۔ :)
 
یہ مشورہ دینے ولا ملاء نہیں، ملاء کی نظر سب کی دولت اور عزت پر ہوتی ہے۔
فاروق بھائی اب تو برائے مہربانی ایسے نہ کہیں۔ میں ان کے دار الافتاء میں لے جاؤں آپ کو؟ وہ نہ صرف ملا ہیں بلکہ اپنے علاقے کے مفتی صاحب بھی ہیں۔
 
فاروق بھائی اب تو برائے مہربانی ایسے نہ کہیں۔ میں ان کے دار الافتاء میں لے جاؤں آپ کو؟ وہ نہ صرف ملا ہیں بلکہ اپنے علاقے کے مفتی صاحب بھی ہیں۔
وہ قابل احترام مولوی ہوں گے ۔ ملاءکی اصطلاح ۔ "دین ملاء فی سبیل اللہ فساد" سے برآمد ہوئی ہے۔ لہذا ان قابل صد احترام مولوی صاحب کو سلام۔ میں بذات خود ایسے جوڑوں سے مل چکا ہوں جو یہاں امریکہ میں طلاق دے کر طرح طرح کے فتوے وصول کرچکے ہیں۔ زیادہ تر فتوے پاکستان اور ہندوستان سے موصول ہوتے ہیں۔ ایک جوڑے کو کسی دار الافتاء میں بالمشافہ مشورہ دیا گیا کہ وہ 15000 روپے میں اپنی بیگم کا حلالہ کروا سکتے ہیں۔ یہ سنی سنائی نہیں۔، یہ دونوں ساتھ رہنا چاہتے تھے ، نا انہوں نے دو عدد فیصلہ کرنے والے مقرر کئے، نا ان کے چار مہینے پورے ہوئے تھے۔ اور ناہی ان کی یہ تیسری طلاق تھی۔ کویئ بھی وجہ نہیں بنتی تھی کہ ان کی طلاق کی تکمیل سمجھی جائے۔ شوہر صاحب نے اپنی طرف سے بیگم کو طلاق کا نوٹس بھجوایا تھا، جس کے مندرجات، امریکی قانون زبان میں لکھے تھے۔ میں نے ان دونوں کو مشورہ دیا کہ آپ باہمی مشورہ سے ساتھ رہنے پر راضی ہیں تو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ، آپس میں فیصلہ کرلیجئے اور دو عدد گواہ مقرر کرلیجئے کہ یہ نوٹس اب کالعدم ہے اور آپ رضامندی سے خوش خوش رہنا چاہتے ہیں۔ اس مقدس اور بھاری رشتے کو امتحان میں نا ڈالئے اور اپنے لئے مشکلات نا پیدا کیجئے۔ آپ دوبارہ شادی کا معاہدہ ، یعنی عقد النکاح کرنا چاہیں تو اس پر بھی کوئی روک نہیں۔

بات یہ ہے کہ ایک ٹولے نے رائے عامہ ایسے ہموار کی ہے کہ لوگ طلاق کا شروع اور تکمیل دونوں سے ناواقف ہیں۔ یہاں بھی ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ہے، کوئی دوست قرآن حکیم سے 'ایک مجلس کی تین طلاق' کے بارے میں کوئی آیت پیش کرسکیں تو ہم سب پر احسان ہوگا۔ میں شادی کے معاہدے کے توڑے جانے کو کسی بھی تجارتی معاہدے کے توڑ؁ جانے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ اس کے بارے میں قرآں حکیم سے آیت پیش کرچکا ہوں۔

آخر میں وضاحت کہ نا میں مولوی ہوں اور نا ہی مفتی ہوں، قرآن حکیم کا ادنی سا طالب علم ہوں، ہمہ وقت تیار کہ اپنے علم کو بہتر بنا سکوں۔

والسلام
 
وہ قابل احترام مولوی ہوں گے ۔ ملاءکی اصطلاح ۔ "دین ملاء فی سبیل اللہ فساد" سے برآمد ہوئی ہے۔ لہذا ان قابل صد احترام مولوی صاحب کو سلام۔ میں بذات خود ایسے جوڑوں سے مل چکا ہوں جو یہاں امریکہ میں طلاق دے کر طرح طرح کے فتوے وصول کرچکے ہیں۔ زیادہ تر فتوے پاکستان اور ہندوستان سے موصول ہوتے ہیں۔ ایک جوڑے کو کسی دار الافتاء میں بالمشافہ مشورہ دیا گیا کہ وہ 15000 روپے میں اپنی بیگم کا حلالہ کروا سکتے ہیں۔ یہ سنی سنائی نہیں۔، یہ دونوں ساتھ رہنا چاہتے تھے ، نا انہوں نے دو عدد فیصلہ کرنے والے مقرر کئے، نا ان کے چار مہینے پورے ہوئے تھے۔ اور ناہی ان کی یہ تیسری طلاق تھی۔ کویئ بھی وجہ نہیں بنتی تھی کہ ان کی طلاق کی تکمیل سمجھی جائے۔ شوہر صاحب نے اپنی طرف سے بیگم کو طلاق کا نوٹس بھجوایا تھا، جس کے مندرجات، امریکی قانون زبان میں لکھے تھے۔ میں نے ان دونوں کو مشورہ دیا کہ آپ باہمی مشورہ سے ساتھ رہنے پر راضی ہیں تو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ، آپس میں فیصلہ کرلیجئے اور دو عدد گواہ مقرر کرلیجئے کہ یہ نوٹس اب کالعدم ہے اور آپ رضامندی سے خوش خوش رہنا چاہتے ہیں۔ اس مقدس اور بھاری رشتے کو امتحان میں نا ڈالئے اور اپنے لئے مشکلات نا پیدا کیجئے۔ آپ دوبارہ شادی کا معاہدہ ، یعنی عقد النکاح کرنا چاہیں تو اس پر بھی کوئی روک نہیں۔

بات یہ ہے کہ ایک ٹولے نے رائے عامہ ایسے ہموار کی ہے کہ لوگ طلاق کا شروع اور تکمیل دونوں سے ناواقف ہیں۔ یہاں بھی ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ہے، کوئی دوست قرآن حکیم سے 'ایک مجلس کی تین طلاق' کے بارے میں کوئی آیت پیش کرسکیں تو ہم سب پر احسان ہوگا۔ میں شادی کے معاہدے کے توڑے جانے کو کسی بھی تجارتی معاہدے کے توڑ؁ جانے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ اس کے بارے میں قرآں حکیم سے آیت پیش کرچکا ہوں۔

آخر میں وضاحت کہ نا میں مولوی ہوں اور نا ہی مفتی ہوں، قرآن حکیم کا ادنی سا طالب علم ہوں، ہمہ وقت تیار کہ اپنے علم کو بہتر بنا سکوں۔

والسلام
ایسوں سے تو اللہ کی پناہ!
 

ربیع م

محفلین
جی نہین ، میرا کوئی ارادہ حلالہ کی تعریف سیکھنے کا نہیں، جن ناہنجار لوگوں نے یہ اصطلاح ایجاد کی کہے ، جو ہم سب کی عزت کے درپے ہیں ، میں یقیناً ان ہی لوگوں کے خلاف لکھتا ہوں۔ اس میں آپ کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے،

اس میں شبہ نہیں کہ

بہت ہی شکریہ، جی نا میں مفتی ہوں اور نا ہی کوئی دوسرا فرد مفتی ہو سکتا ہے۔



برادر من فرقان آپ کا بہت ہی شکریہ کہ آپ نے 'تین طلاق ' کی مروجہ تعریف لکھی۔ یہ قرآنی تعریف نہیں ہے ۔ کہ تین مرتبہ طلاق کے لفظ کی ادائیگی کی اور اللہ تعالی کا قرار دیا ہوا بھاری بھرکم رشتہ ختم ۔ یہ اس طبقے کی پھیلائی ہوئی بات ہے جو ہم سب کی عزت سے کھلنے کا خواہاں ہے۔


جب کوئی شخص تین مرتبہ طلاق کے الفاظ ادا کردیتا ہے، اور ابھی عدت پوری نہیں ہوئی ہے یعنی طلاق مکمل نہیں ہوئی ہے۔ تو اس صورت میں آپ خود جا کر کسی بھی ملاء سے پوچھ لیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ جناب طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اب اس شخص کی بیوی کسی اور سے نکاح کرے پھر وہ نیا شوہر طلاق دے تو آپ شادی کرسکتے ہیں ۔۔ پھر ان کی سیلز پچ آگے بڑھتی ہے کہ 'نام نہاد شریعت' میں اس طلاق دینے والے شخص کے لئے آسانی ہے کہ اس کی طلاق یافتہ بیوی اب کسی اور سے شادی کرلے اور جناب وہ طلاق دے دے ۔ تو ملاء پوچھتا ہے کہ آپ کا کوئی دوست ہے؟ جو ایک دو دن کی شادی کرسکے؟ بلکہ خاتون سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کی کسی سہیلی کا شوہر 'حلالہ ' کی یہ خدمت انجام دے سکے گا؟ آپ اس کا جواب جانتے ہیں کہ اس 'طلاق یافتہ ' جوڑے کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ اس موقعہ پر ملاء خود اپنی یا اپنے کسی 'شریف دوست ملاء' کی خدمات پیش کرتا ہے۔ ( آپ کو کتنے یو ٹیوب کے وڈیو دیکھ کر اس کا یقن آئے گا؟)

میں یہاں اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم کے احکامات آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کیا آیا شادی یعنی 'عقد نکاح' یعنی میریج کنٹریکٹ باقی ہے یا ختم ہوگیا؟ اگر عقد النکاح یعنی میریج کنٹیکٹ باقی ہے تو دونوں مرد و عورت شادی شدہ ہیں۔ اللہ تعالی نے شادی شدہ عورت سےنیا عقد النکاح کنے کو منع کیا ہے۔ لہذا ایک شادی شدہ عورت کی ایک رات کی شادی کسی دوسرے فرد سے کرانے والا، ملاء ، آپ کی عزت کا خواہاں ہے۔ قرآن حکیم پر ایمان نہیں رکھتا اور ہماری ماؤں بہنوں کو بے عزتی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی عزت نفس بھی کھو بیٹھیں اور کبھی کسے کے سامنے کھڑی بھی نا ہوسکیں۔

مجے یقین ہے ہے کہ درج ذیل سوالات اور ان کے جوابات پڑھ کر آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ کسی بھی 'حلالہ' تجویز کرنے والے ملاء کو منہہ توڑ جواب دے سکیں گے۔

سوال عقد النکاح یعنی شادی کے معاہدے کی اللہ تعالی کی نگاہ میں کیا اہمیت ہے؟
4:20 اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو

4:21 وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو مل چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد (بھی) لے چکی ہیں

4:21 میں لفظ مِّيثَاقًا غَلِيظًا پر غور فرمائیے
یہ الفاظ اس بھاری میثاق کی طرف توجہ دلاتے ہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان معاہدے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے

33:7 وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا

اللہ تعالی کے فرمان القرآن حکیم کے مطابق شادی کا معادہ یعنی عقد النکاح ایک بھاری معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ ، ایک مرد و عورت کے درمیان ہے ، اس مقدس معاہدے کا مقصد محترم خاتون کی حفاظت ہے، عقد النکاح یعنی شادی کے اس بھاری معاہدے کا مقصد محصنات بنانا یعنی عفت شعاری ہے نا کہ سفاحت یعنی بد کاری۔

5:5 لْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ
آج تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا کی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہیں حلال ہے اور تمہارا کھانا انہیں حلال ہے اور تمہارے لیے پاک دامن مسلمان عورتیں حلال ہیں اوران میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہےجب ان کے مہر انہیں دے دو ایسے حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اورنہ خفیہ آشنائی کرنے والے اورجوایمان سے منکر ہوا تو اس کی محنت ضائع ہوئی اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا

اللہ تعالی کا فرمان کہ شادی شدہ عفت شعار عورتیں شادی کے معادے یعنی عقد النکاح میں لانے کے لئے حرام قرار پائیں۔

4:24 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

ہم نے یہ واضح طور پر دیکھ لیا کہ شادی یعنی عقد النکاح یعنی شادی کے معادے کا مقصد عفت شعاری ہے اور سفاحت یعنی بدکاری سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ ایک رات کی شادی 'حلالہ' کا مشورہ دینے والے اور اپنا جسم بیچنے والے بدکاروں میں کیا فرق ہے؟

اب جب ہم نے شادی کے مقدس ہونے کے بارے میں جان لیا اور شادی شدہ عورت سے شادی کی ممانعد کے بارے میں جان لیا تو اب دیکھتے ہیں کہ طلاق کیا ہے، کون دے سکتا ہے ، کون لے سکتا ہے اور طلاق کب شروع ہوتی ہے اور کب مکمل ہوتی ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے؟

طلاق یعنی دائمی علیحدگی کا معاہد کون کرسکتا ہے؟
سورۃ النساء کی آیت نمبر 29 ، اللہ تعالی شادی کے معاہدے کو باہمی رضامندی کی تجارت قرار دیتے ہیں
4:29 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

لہذا کسی بھی تجارتی معادے کو توڑنے کا حق دونوں فریقین کو حاصل ہے۔ عورت اور مرد کی ناچاقی کی صورت میں دائمی علیحدگی یعنی طلاق حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟ اس کا حکم ہم کو اللہ تعالی کے فرمان القرآن حکیم میں ان آیات میں ملتا ہے کہ مرد یا عورت دونوں کو دائمی علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ یہ کام عورت ور مرد دونوں کی طرف سے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کرکے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہوا طلاق کا اعلان، چاہے یہ اعلان ان افراد کے سامنے محترم خاتون نے کیا ہو یا اس کے شوہر نے۔

4:35 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر اندیشہ ہو تم کو ناچاقی کا، میاں بیوی کے درمیان تو مقّرر کرو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک ثالث عورت کے خاندان سے، اگر چاہیں گے وہ دونوں اصلاحِ احوال تو موافقت پیدا کر دے گا اللہ اُن دونوں کے درمیان، بے شک اللہ ہے سب کچھ جاننے والا، ہر بات سے باخبر۔


اللہ تعالی حکم دیتے ہیں کہ طلاق یا شقاق یعنی ناچاقی کی صورت میں دائمی علیحدگی کے معلوم ہوجانے ہا اعلان ہوجانے کے بعد مدت کو شمار کیا جائے۔ اس مدت میں کے اختتام تک طلاق مکمل نہیں ہوئی، محترم خاتون شادی کا نیا معادہ نہیں کرسکتی ہیں۔ لہذا، تین پانچ طلاق کے اعلان کے ساتھ ہی، میعد کی تکمیل تک ، کسی ملاء کا حلالہ کا مشورہ دینا اپنی جگہ خود حرامہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت، جس کی عدت مکمل نہیں ہوئی ، جس کو دوسرےعقد النکاح کا حق ابھی حاصل نہیں ہوا ، اس کو یہ مشورہ دینا کہ تم ایک عارضی نکاح کرلو، جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے
'اگر چاہیں گے وہ دونوں اصلاحِ احوال تو موافقت پیدا کر دے گا اللہ اُن دونوں کے درمیان،'

اس اعلان اور حکم کے مقرر ہونے کے بعد، کتنا عرصہ دیا جائے کہ وہ دونوں افراد دائمی علیحدگی کے مستحق ہوجائیں؟
65:1 اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور الله سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے نہ تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں اور یہ الله کی حدیں ہیں اور جو الله کی حدوں سے بڑھاا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا آپ کو کیا معلوم کہ شاید الله اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے

طلاق کے اعلان کے بعد معیاد کی تکمیل ضروری ہے۔ اس دوران شادی کا معاہدہ ختم نہیں ہوا۔ اس لئے نا تو شادی ختم ہوئی نا ہی طلاق یعنی دائمی علیحدگی کا حق حاصل ہوا۔ جب ایک طلاق ہی مکمل نہیں ہوئی تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ تین طلاقیں مکمل ہوگئی ہیں؟

اس عدت کی تکمیل تکمرد و عورت دونوں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتےہیں۔ اس علیحدگی یا ملاپ کے لئے دو عدد گواہوں کی شرط ضروری ہے۔
65:2 س جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں دستور سے رکھ لو یا انہیں دستور سے چھوڑ دو اور دو معتبر آدمی اپنے میں سے گواہ کر لو اور الله کے لیے گواہی پوری دو یہ نصیحت کی باتیں انہیں سمجھائی جاتی ہیں جو الله اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو الله سے ڈرتا ہے الله اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔

عدت کا دورانیہ کتنا ہے؟
65:4 اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے

اس بھاری معاہدے کے ختم ہونے کے اعلان سے طلاق کے طریقہ کار کی شروعات ہوتی ہے، اور معیاد کی تکمیل پر طلاق یعنی باہمی علیحدگی کی تکمیل۔ ہم کو قرآن میں کہں بھی ایسا نہیں ملتا کہ ایک مرد اپنی مرضی سے طلاق کے الفاظ تین بار دہرائے اور پھر اس میعاد کو تین بار یعنی تقریباً ایک سال کرلے۔ لہذا، تین طلاق، کسی طور ممکن ہی نہیں ہے کہک ایک بار میں دی جاسکے اور 12 مہینے عدت کے رکھ لئے جائیں۔


تو پھر تیسری طلاق کیا ہے؟
اللہ تعالی نے فرما دیا کہ طلاق دو بار ہے۔ جب پہلی بار طلاق کا اعلان ہوا تو مدت کے اختتام سے پہلے دونوں مرد و عورت باہمی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ اپنا ازدواجی رشتہ شروع کرسکتے ہیں۔ اور اس معیاد (4 مہینے، 3 مہینے یا وضع حمل) کی تکمیل کے بعد دوبارہ شادی کا معادہ یعنی عقد النکاح یا مییج ایگریمینٹ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دوسری بار کی ہوئی شادی ان دونوں کے درمیان پھر طلاق پر ختم ہوتی ہے تو یہ دونوں تیسری بار بھی شادی کرسکتےہیں ، شادی کے معاہدے اور طلاق کا طریقہ کار یہی رہے گا۔ اگر تیسری بار بھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو پھر طلاق کے اعلان، دونوں طرف کے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کرنے کے ساتھ ہی مزید شادی کا ختم اس لئے کہ ایسا دو بار پہلے ہو چکا ہے۔

یہ بات بہت واضح ہے کہ ایک شادی شدہ فرد کی زبان سے یا اخبار میں دس ہزار کی تعداد سے طلاق مکمل نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے اعلان اور میعاد کی تکمیل سے ہی طلاق مکمل ہوتی ہے۔ کوئی بھی مسلمان ، ایک عورت جس کی عدت مکمل نہیں ہوئی ہے۔ یہ مشورہ نہیں دے گا کہ ایک رات کی شادی کرلو۔ لہذا ، دونوں میاں بیوی کے پاس لگ بھگ 6 سے 8 مہینے کی مدت موجود ہے کہ وہ طلاق یعنی دائمی علیحدگی کے دو میعادوں سے گذریں۔

اب جب ہم عقد النکاح، اور علیحدگی کے بارے میں اللہ تعالی کے فرمان پڑھ چکے ہیں ، تو بات کرتے ہیں ان افراد کی جو تین طلاق کا لفظ سن کر محترم خاتون کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب تو حلالہ ضروری ہے اور اس مشورہ دینے والے فرد کی خدمات کچھ رقم کے عوض حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بنیادی طور پر ایسا فرد ایک شادی شدہ پاک دامن ، عفت شعار عورت کو اپنے ساتھ بد کاری میں مبتلاء ہونے کا سفاحت بھرا مشورہ دے رہا ہے۔

اگر یہ دونوں میان بیوی طلاق پراسیس کو 3 بار مکمل کرچکے ہیں تو بھی ایک رات کی شادی کا مشور دینا محصنات بنانا نہیں بلکہ بدکاری پھیلانا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسی خاتون، جو اپنے شوہر سے تین بار طلاق مکمل کرچکی ہیں، وہ کہیں اور شادی کریں اور ناچاقی کی صورت میں اگر وہ طلاق پاتی ہیں اور باہمی رضامندی سے یہ طلاق مکمل ہوجاتی ہے تو پھر ان خاتون کو اپنے پہلے طلاق واقع کرنے والے شوہر سے دوبارہ شادی کا حق ہے۔


میں اس طبقے کے خلاف لکھتا ہوں، اور قرآن حکیم کے حوالوں کے ساتھ ضروری بحث بھی۔ اس لئے کہ ایک طرف تو تین طلاق کی توپ مسلمان کے ایمان کا حصہ بنا کر یہ ملاء ٹولہ ، ہماری عزت سے کھیلتا ہے۔ دوسری طرف اسی ملاء ٹولے نے زکواۃ وصول کرن ےکے نام پر ہماری دولت لوٹی ہے۔

میں نے جو آیات یہاں درج کی ہیں وہ بہت ہی صاف اور واضح ہیں۔ اپ ان ایات کی روح، اوپن برہان پر 27 ترجموں کی مدد سے حاصل کرسکتے ہیں۔

ملاء ٹولے ، پاکستان میں ہندوستانی ٹھگوں کی ماناند ہیں ۔ آپ ان سے صرف دو سوال کرکے ان کی اصلیت جان سکتے ہیں۔ ان سے پوچھئے کہ آپ کے ایک دوست نے تین مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق کہا، کیا طلاق واقع ہوگئی؟ ملاء یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ عدت مکمل ہوئی یا نہیں ۔ اور فوراً کہے گا کہ 'طلاق مغلظہ' واقع ہو گئی۔ یہ الفاظ 'میثاق غلیظا' ' کو ختم کرنے لئے ملاء استعمال کرتا ہے۔ آپ ملاء سے دوسرا سوال پوچھئے کہ زکواۃ کی مقدار ڈھائی فی صد کس نے مقرر کی ، اس کا جواب ہر جگہ گھومے گا لیکن یہ آپ کو زکواۃ کی درست مقدار نہیں بتائے گا۔ اس لئے کہ ملاء عصمت اور دولت دونوں کے لوٹنے والے مذہب ملاء ازم کا پجاری ہے۔

والسلام

فاروق سرور صاحب ! آپ کا تفصیلی جواب پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ اب اس سلسلے میں میرے کچھ ملاحظات ہیں ان پر غور کیجئے گا۔

تو اس صورت میں آپ خود جا کر کسی بھی ملاء سے پوچھ لیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ جناب طلاق واقع ہو چکی ہے

آپ کا فرمانا ہے کہ" کسی بھی ملا سے" جبکہ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ اس معاملے میں (یعنی ایک مجلس کی تین طلاقوں کا حکم ) علماء کی آراء مختلف ہیں ، چنانچہ ہر ملا کو مطعون کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اس بات کا دعویدار تعصب کا شکار ہے یا لاعلم ہے اور دونوں صورتیں ہی خطرناک ہیں ۔
باقی کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط یہ ایک الگ موضوع ہے اسے فی الحال رہنے دیجئے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں یا میرے حسن ظن کے مطابق یہاں کوئی بھی ممبر کسی بھی طبقے کی غلطیوں کے دفاع میں ہلکان نہیں ہو رہا ، اگر واقعی من حیث المجموع کسی میں یہ غلطی پائی جاتی ہے تو قرین انصاف یہ ہے کہ اس کا پوری شدت سے رد کیا جائے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ افراد کی غلطیوں پر پورے طبقہ کو مورد الزام ٹھہرانے والا شخص صرف اور صرف متعصب ہی کہلاتا ہے ۔

اب جہاں تک میرا سوال ہے میں اسے مزید واضح کرکے اور اس کی ایک شکل آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔

میرا سوال یہ ہے کہ" آپ" یعنی جو اہل قرآن کہلواتے ہیں ، (میں احتراما آپ کو منکر حدیث نہیں لکھتا) کس دلیل کی بنیاد پر "حلالہ " کی ممانعت یا حرمت کے قائل ہیں ؟
میں چاروں مذاہب کے فقہاء اور ائمہ کے حلالہ کی حرمت کے بارے میں مدلل اقوال یہاں ذکر کر سکتا ہوں ، لیکن سوال آپ سے ہے کہ آپ کس دلیل کی رو سے حلالہ کو حرام کہتے ہیں ؟

بلکہ میرا پہلا سوال ہی آپ سے یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک حلالہ حرام ہے یا نہیں ؟ یا اس کا کیا حکم ہے ؟

دوسری بات آپ نے جو دلائل پیش کئے ان پر ایک نظر!

یہ الفاظ اس بھاری میثاق کی طرف توجہ دلاتے ہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان معاہدے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے

آپ نے پہلی بات یہ کی کہ نکاح ایک میثاق غلیظ یعنی بھاری اور پختہ عہد ہے
متفق
لیکن اس کی تشبیہ کسی طور بھی اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان ہوئے معاہدے سے نہیں دی جاسکتی ، اللہ اور اس کےرسولوں کے مابین معاہدے کو کیا فسخ کرنے کے اختیار رسولوں کے پاس تھا؟
قطعا نہیں ۔ جبکہ یہاں فریقین کو اس معاہدہ کے فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔

لْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ
آج تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا کی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہیں حلال ہے اور تمہارا کھانا انہیں حلال ہے اور تمہارے لیے پاک دامن مسلمان عورتیں حلال ہیں اوران میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہےجب ان کے مہر انہیں دے دو ایسے حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اورنہ خفیہ آشنائی کرنے والے اورجوایمان سے منکر ہوا تو اس کی محنت ضائع ہوئی اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا
یہاں اللہ رب العزت یہ واضح کر رہے ہیں کہ اہل کتاب کی عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ، اب کیسے حلال ہیں ؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں حق مہر دے کر نکاح کرکے ، براہ راست زنا کرنے یا دوستیاں لگانے سے منع فرما دیا۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

یہاں اللہ نے وہ رشتے بیان فرما دئیے کہ جن سے نکاح حرام ہے ، اس آیت پر پچھلی آیات کا عطف ہے جن میں والدہ بہن خالہ پھوپھی ۔۔۔ وغیرہ کا ذکر ہے ، اور فرمایاکہ اس کے علاوہ جتنی بھی عورتیں ہیں وہ تمہارے لئے حلال ہیں ، مگر طریقہ یہ ہے کہ تم نے ان سے نکاح کرنا ہے اس کے بغیر ان سے اپنی حاجت پوری نہیں کرنی ۔

لیکن یہاں کہیں بھی "نکاح موقت "کی ممانعت نہیں۔

اس اعلان اور حکم کے مقرر ہونے کے بعد، کتنا عرصہ دیا جائے کہ وہ دونوں افراد دائمی علیحدگی کے مستحق ہوجائیں؟
65:1 اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور الله سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے نہ تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں اور یہ الله کی حدیں ہیں اور جو الله کی حدوں سے بڑھاا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا آپ کو کیا معلوم کہ شاید الله اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے

طلاق کے اعلان کے بعد معیاد کی تکمیل ضروری ہے۔ اس دوران شادی کا معاہدہ ختم نہیں ہوا۔ اس لئے نا تو شادی ختم ہوئی نا ہی طلاق یعنی دائمی علیحدگی کا حق حاصل ہوا۔ جب ایک طلاق ہی مکمل نہیں ہوئی تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ تین طلاقیں مکمل ہوگئی ہیں؟

اس عدت کی تکمیل تکمرد و عورت دونوں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتےہیں۔ اس علیحدگی یا ملاپ کے لئے دو عدد گواہوں کی شرط ضروری ہے۔
65:2 س جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں دستور سے رکھ لو یا انہیں دستور سے چھوڑ دو اور دو معتبر آدمی اپنے میں سے گواہ کر لو اور الله کے لیے گواہی پوری دو یہ نصیحت کی باتیں انہیں سمجھائی جاتی ہیں جو الله اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو الله سے ڈرتا ہے الله اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔

عدت کا دورانیہ کتنا ہے؟
65:4 اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے

اس بھاری معاہدے کے ختم ہونے کے اعلان سے طلاق کے طریقہ کار کی شروعات ہوتی ہے، اور معیاد کی تکمیل پر طلاق یعنی باہمی علیحدگی کی تکمیل۔ ہم کو قرآن میں کہں بھی ایسا نہیں ملتا کہ ایک مرد اپنی مرضی سے طلاق کے الفاظ تین بار دہرائے اور پھر اس میعاد کو تین بار یعنی تقریباً ایک سال کرلے۔ لہذا، تین طلاق، کسی طور ممکن ہی نہیں ہے کہک ایک بار میں دی جاسکے اور 12 مہینے عدت کے رکھ لئے جائیں۔


تو پھر تیسری طلاق کیا ہے؟
اللہ تعالی نے فرما دیا کہ طلاق دو بار ہے۔ جب پہلی بار طلاق کا اعلان ہوا تو مدت کے اختتام سے پہلے دونوں مرد و عورت باہمی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ اپنا ازدواجی رشتہ شروع کرسکتے ہیں۔ اور اس معیاد (4 مہینے، 3 مہینے یا وضع حمل) کی تکمیل کے بعد دوبارہ شادی کا معادہ یعنی عقد النکاح یا مییج ایگریمینٹ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دوسری بار کی ہوئی شادی ان دونوں کے درمیان پھر طلاق پر ختم ہوتی ہے تو یہ دونوں تیسری بار بھی شادی کرسکتےہیں ، شادی کے معاہدے اور طلاق کا طریقہ کار یہی رہے گا۔ اگر تیسری بار بھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو پھر طلاق کے اعلان، دونوں طرف کے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کرنے کے ساتھ ہی مزید شادی کا ختم اس لئے کہ ایسا دو بار پہلے ہو چکا ہے۔

یہاں آپ نے طلاق اور عدت کے بارے میں بیان فرمایا!

اب ایک شکل آپ کئے سامنے ذکر کرتا ہوں کہ !

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، اور رجوع کی مہلت کے اندر رجوع کر لیا، ایک طلاق واقع ہو گئی ، اب کچھ عرصہ بعد ناچاقی ہوئی دوبارہ طلاق دے دی ، پھر رجوع کر لیا ، دو طلاقیں واقع ہو گئیں۔
کچھ عرصہ بعد پھرطلاق ہو گئی اب یہ تیسری طلاق ہے اور رجوع نہیں ہو سکتا۔
اب یہ عدت کا عرصہ گزارنے کے بعد عورت ایک شخص سے اس لئے نکاح کرتی ہے کہ اس سے نکاح کے بعد دوسرے شخص سے طلاق لے کر عدت گزار کر پہلے خاوند کے عقد میں آ جائے تو کیا حلالہ کی یہ شکل آپ کے نزدیک درست ہے یا نہیں ؟

میں ایک بار پھر تاکیدا آپ کے ہاں کہتے ہوئے استفسار کرتا ہوں کہ کیا حلالہ یا نکاح موقت کی یہ صورت درست ہو گی مدلل جواب دیجئے گا۔

یہاں میں یہ بات دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں قطعا نکاح حلالہ یا موقت کے حق میں نہیں ہوں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے حق میں ہوں کہ والله لا أوتى بمحلل ومحلل له إلا رجمتهما کہ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا جا رہا ہے اسے لایا جائے تو میں اسے رجم کر دوں گا۔

البتہ یہ ضرور دیکھنا ہے کہ ایک خوامخواہ ہر عالم کو رگیدنے والا شخص کیا اس عمل کو" مدلل طریقے سے "حرام سمجھتا بھی ہے یا نہیں ۔
 

ربیع م

محفلین
( آپ کو کتنے یو ٹیوب کے وڈیو دیکھ کر اس کا یقن آئے گا؟)
باقی جہاں تک رہی یہ بات تو سوال آپ سے یہ ہے کہ کتنے یوٹیوب کلپ دیکھ کر کسی بات کا یقین کر لینا چاہئے ؟

میں آپ کو اتنے یوٹیوب ویڈیو اگر کسی کی زبانی بنوا دوں کہ فاروق صاحب نے کسی عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے تو کیا اسے تسلیم کر لیا جائے گا؟

یا آپ کہتے ہیں کہ نہیں جی یہ تو جھوٹ ہے
تو کیا کسی تعلیمی ادارے یا یونیورسٹی کی خواتین کی یوٹیوب پر اس الزام کی ویڈیوز کا پایا جانا کہ وہاں انھیں ہراساں کیا گیا اس بات کی دلیل ہے کہ یونیورسٹیاں زنا کے اڈے ہیں ؟

عجیب بچگانہ باتیں ہیں ۔
 
آخری تدوین:
فاروق سرور صاحب ! آپ کا تفصیلی جواب پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ اب اس سلسلے میں میرے کچھ ملاحظات ہیں ان پر غور کیجئے گا۔



آپ کا فرمانا ہے کہ" کسی بھی ملا سے" جبکہ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ اس معاملے میں (یعنی ایک مجلس کی تین طلاقوں کا حکم ) علماء کی آراء مختلف ہیں ، چنانچہ ہر ملا کو مطعون کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اس بات کا دعویدار تعصب کا شکار ہے یا لاعلم ہے اور دونوں صورتیں ہی خطرناک ہیں ۔
باقی کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط یہ ایک الگ موضوع ہے اسے فی الحال رہنے دیجئے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں یا میرے حسن ظن کے مطابق یہاں کوئی بھی ممبر کسی بھی طبقے کی غلطیوں کے دفاع میں ہلکان نہیں ہو رہا ، اگر واقعی من حیث المجموع کسی میں یہ غلطی پائی جاتی ہے تو قرین انصاف یہ ہے کہ اس کا پوری شدت سے رد کیا جائے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ افراد کی غلطیوں پر پورے طبقہ کو مورد الزام ٹھہرانے والا شخص صرف اور صرف متعصب ہی کہلاتا ہے ۔

اب جہاں تک میرا سوال ہے میں اسے مزید واضح کرکے اور اس کی ایک شکل آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔

میرا سوال یہ ہے کہ" آپ" یعنی جو اہل قرآن کہلواتے ہیں ، (میں احتراما آپ کو منکر حدیث نہیں لکھتا) کس دلیل کی بنیاد پر "حلالہ " کی ممانعت یا حرمت کے قائل ہیں ؟
میں چاروں مذاہب کے فقہاء اور ائمہ کے حلالہ کی حرمت کے بارے میں مدلل اقوال یہاں ذکر کر سکتا ہوں ، لیکن سوال آپ سے ہے کہ آپ کس دلیل کی رو سے حلالہ کو حرام کہتے ہیں ؟

بلکہ میرا پہلا سوال ہی آپ سے یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک حلالہ حرام ہے یا نہیں ؟ یا اس کا کیا حکم ہے ؟

دوسری بات آپ نے جو دلائل پیش کئے ان پر ایک نظر!



آپ نے پہلی بات یہ کی کہ نکاح ایک میثاق غلیظ یعنی بھاری اور پختہ عہد ہے
متفق
لیکن اس کی تشبیہ کسی طور بھی اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان ہوئے معاہدے سے نہیں دی جاسکتی ، اللہ اور اس کےرسولوں کے مابین معاہدے کو کیا فسخ کرنے کے اختیار رسولوں کے پاس تھا؟
قطعا نہیں ۔ جبکہ یہاں فریقین کو اس معاہدہ کے فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔


یہاں اللہ رب العزت یہ واضح کر رہے ہیں کہ اہل کتاب کی عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ، اب کیسے حلال ہیں ؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں حق مہر دے کر نکاح کرکے ، براہ راست زنا کرنے یا دوستیاں لگانے سے منع فرما دیا۔



یہاں اللہ نے وہ رشتے بیان فرما دئیے کہ جن سے نکاح حرام ہے ، اس آیت پر پچھلی آیات کا عطف ہے جن میں والدہ بہن خالہ پھوپھی ۔۔۔ وغیرہ کا ذکر ہے ، اور فرمایاکہ اس کے علاوہ جتنی بھی عورتیں ہیں وہ تمہارے لئے حلال ہیں ، مگر طریقہ یہ ہے کہ تم نے ان سے نکاح کرنا ہے اس کے بغیر ان سے اپنی حاجت پوری نہیں کرنی ۔

لیکن یہاں کہیں بھی "نکاح موقت "کی ممانعت نہیں۔



یہاں آپ نے طلاق اور عدت کے بارے میں بیان فرمایا!

اب ایک شکل آپ کئے سامنے ذکر کرتا ہوں کہ !

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، اور رجوع کی مہلت کے اندر رجوع کر لیا، ایک طلاق واقع ہو گئی ، اب کچھ عرصہ بعد ناچاقی ہوئی دوبارہ طلاق دے دی ، پھر رجوع کر لیا ، دو طلاقیں واقع ہو گئیں۔
کچھ عرصہ بعد پھرطلاق ہو گئی اب یہ تیسری طلاق ہے اور رجوع نہیں ہو سکتا۔
اب یہ عدت کا عرصہ گزارنے کے بعد عورت ایک شخص سے اس لئے نکاح کرتی ہے کہ اس سے نکاح کے بعد دوسرے شخص سے طلاق لے کر عدت گزار کر پہلے خاوند کے عقد میں آ جائے تو کیا حلالہ کی یہ شکل آپ کے نزدیک درست ہے یا نہیں ؟

میں ایک بار پھر تاکیدا آپ کے ہاں کہتے ہوئے استفسار کرتا ہوں کہ کیا حلالہ یا نکاح موقت کی یہ صورت درست ہو گی مدلل جواب دیجئے گا۔

یہاں میں یہ بات دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں قطعا نکاح حلالہ یا موقت کے حق میں نہیں ہوں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے حق میں ہوں کہ والله لا أوتى بمحلل ومحلل له إلا رجمتهما کہ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا جا رہا ہے اسے لایا جائے تو میں اسے رجم کر دوں گا۔

البتہ یہ ضرور دیکھنا ہے کہ ایک خوامخواہ ہر عالم کو رگیدنے والا شخص کیا اس عمل کو" مدلل طریقے سے "حرام سمجھتا بھی ہے یا نہیں ۔
جواب 2:229 اور 2:230 کے دلائیل کے ساتھ عرض کرچکا ہوں
 

ربیع م

محفلین
جواب 2:229 اور 2:230 کے دلائیل کے ساتھ عرض کرچکا ہوں
جو شکل میں نے پیش کی ہے کہ مختلف وقفوں سے دی گئی تین طلاقیں اور اس کے بعد کیا گیا نکاح اس بارے میں موقف؟

اس میں تو نکاح موقت یا نکاح حلالہ کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں.
 
Top