بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

اب ایک شکل آپ کئے سامنے ذکر کرتا ہوں کہ !

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، اور رجوع کی مہلت کے اندر رجوع کر لیا، ایک طلاق واقع ہو گئی ، اب کچھ عرصہ بعد ناچاقی ہوئی دوبارہ طلاق دے دی ، پھر رجوع کر لیا ، دو طلاقیں واقع ہو گئیں۔
کچھ عرصہ بعد پھرطلاق ہو گئی اب یہ تیسری طلاق ہے اور رجوع نہیں ہو سکتا۔
اب یہ عدت کا عرصہ گزارنے کے بعد عورت ایک شخص سے اس لئے نکاح کرتی ہے کہ اس سے نکاح کے بعد دوسرے شخص سے طلاق لے کر عدت گزار کر پہلے خاوند کے عقد میں آ جائے تو کیا حلالہ کی یہ شکل آپ کے نزدیک درست ہے یا نہیں ؟


برادر محترم، سورۃ البقرۃ کی آیات 2:229 اور 2:230 ، کی روشنی میں تین بار کی طلاق کے بعد، ایک نئے شوہر سے شادی ، اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ دیگر آیات کی روشنی میں یہ عقد النکاح ، شادی کا معاہدہ خاندان بنانے کی نیت سے کیا جائے نا کہ ایک رات کے لئے؟

اس کے بعد ہم متفق ہیں کہ شادی ، ایک عقد النکاح، یعنی عفت شعار، وفادار ، نیکو کار اور مرد و عورت دنوں کے لئے حفاظت کے رشتے کا نام ہے۔ ہم زندگی میں معمول کنٹریکٹ بھی ایسے فرد کے ساتھ نہیں لکھتے تو پھر تین طلاق کی توپ سے بار نکالی جانے والی عورت کا کسی دوسرے مرد سے اس نیت کے ساتھ نکاح کرانا کہ وہ صبح طلاق دے دے گا ایک گرا ہو کام ہے۔

اب بقول شخصے ، ایسے 'حلالہ ' کے حق میں ۔فتوی کسی نے بھی نہیں دیا۔ میں نے مان لیا ۔۔ اب اگرکسی عالم ، کسی مفتی نے اس کے حق میں فتوی نہیں دیا تو، حلالہ آیا کہاں سے؟
اب اس بغیر فتوے، بغیر حکم کے حلالہ کا مشورہ دینے کرنے والوں کو آپ ُ جس نام سے پکاریں ، میں بھی وہی نام استعمال کرنے کو تیار ہوں۔ آپ مجھے بھی اپنے ساتھ پائیں گے ۔۔ آج کوئی مشترکہ اصطلاح ، اختراع کر لیجئے۔ ہم اسی کو استعمال کریں گے ،
فرق ہے ایک عالم، ایک مولوی، ایک مفتی میں اورایک ایسے فرد میں جو مسجد یا دارالافتاء میں پایا جائے اور اللہ کے بندوں کو اسلام اور شریعت کے نام پر 'حلالے' کا مشورہ دے رہا ہوَ ، آپ بتائیے ، ہم کس نام سے پکاریں؟
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان آیات کا حوالہ دے دیجئے جن میں نکاح موقت کو حرام قرار دیا ہو.
اگر کوئی سفاحت کا ارادہ نہیں رکھتا تو اب تک کے دلائیل کافی ہیں ۔ اب آپ ایک رات کی شادی حلال ہونے پر تفصیلی دلائیل، آیات کے ریفرنس کے ساتھ دیجئے،
 
بات موضوع سے ڈائریکٹ متعلق نہیں ہے لیکن شادی و طلاق کے معاملے میں شریعت کو استعمال کر کے ملکی قوانین کو خاطر میں نہ لانے کے ایسے بہت سے واقعات ہیں

https://www.buzzfeed.com/hannahallam/payoffs-threats-and-sham-marriages-women-say-a-celebrity
مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں قوانین شریعت کے ماتحت ہی ہونا چاہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں حکومتوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے ان کے مخصوص معاملات کے لئے شریعت کا لحاظ رکھے ۔ طریقہ ایسا ہی مناسب ہے جس میں نہ مسلمانوں کو یہ محسوس ہو کہ حکومت ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور نہ حکومت یہ محسوس کرے کہ ملکی نظام میں خرابی پیدا کی جارہی ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں قوانین شریعت کے ماتحت ہی ہونا چاہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں حکومتوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے ان کے مخصوص معاملات کے لئے شریعت کا لحاظ رکھے ۔ طریقہ ایسا ہی مناسب ہے جس میں نہ مسلمانوں کو یہ محسوس ہو کہ حکومت ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور نہ حکومت یہ محسوس کرے کہ ملکی نظام میں خرابی پیدا کی جارہی ہے۔
سلام
یہ سزا والا معاملہ طلاق ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہے ہی نہیں. جسکا جیسے چاہے طلاق دے. یہ تو ایک administrative حکم ہے. جب کوئی طلاق register کرائے گا تو ساتھ تین سال کی سزا بھگتے گا. اس کا اسلام سے کیا تعلق ہوا. اب اگر کوئی یہ (مذہبی) فریضہ انجام دے ہی رہا ہے تو تھوڑی تکلیف اٹھا لے.
(میرے خیال میں) اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے مولویوں کو ختم نبوت مل گیا ہے اور انڈیا کے مولویوں کو طلاق کا موضوع. ریٹ بڑھا رہے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ فائدہ الیکشن میں اٹھا لیں.
عوام بیچاری خلوص اور اسلام سے محبت میں دھوکے کھا رہی ہے
 
اس کا اسلام سے کیا تعلق ہوا.
اسلام سے تعلق تو بہرحال ہے ۔
اب اگر کوئی یہ (مذہبی) فریضہ انجام دے ہی رہا ہے تو تھوڑی تکلیف اٹھا لے.
اس بات کا فیصلہ علماء کو کرنے کا حق ہے کہ کیا اکٹھے تین طلاق جرم ہے یا نہیں اور اگر جرم ہے تو اس کی کیا سزا ہونا چاہئے۔ بھارتی کابینہ کو اپنے فیصلے اس طرح مسلط نہیں کرنا چاہئیں۔
(میرے خیال میں) اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے مولویوں کو ختم نبوت مل گیا ہے اور انڈیا کے مولویوں کو طلاق کا موضوع. ریٹ بڑھا رہے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ فائدہ الیکشن میں اٹھا لیں.
اب یہ تو آپ کا اختیار ہے کہ کسی سے خوش گمانی رکھیں یا بدگمانی :)
 

ربیع م

محفلین
اگر کوئی سفاحت کا ارادہ نہیں رکھتا تو اب تک کے دلائیل کافی ہیں ۔ اب آپ ایک رات کی شادی حلال ہونے پر تفصیلی دلائیل، آیات کے ریفرنس کے ساتھ دیجئے،
فاروق صاحب! معاملات میں اصل اباحت ہے، یعنی جس بارے میں حرمت ذکر نہیں وہ حلال ہیں، نکاح کرنے کے بعد آپ کسی عورت سے تعلق قائم کر سکتے ہیں، قرآن مجید سے دلائل موجود ہیں اس تعلق کو توڑا بھی جا سکتا ہے اس کے بھی دلائل موجود ہیں موقت نکاح کی حرمت کی دلیل آپ قرآن سے دیں.
میں تو احادیث مبارکہ سے دلائل دوں گا جو آپ کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں.
چنانچہ آپ نکاح موقت کی حرمت کی دلیل قرآن سے دیں یا یہ تسلیم کریں کہ آپ کے نزدیک نکاح موقت حرام نہیں.
یا پھر یہ ہم یہ سمجھیں کہ آپ کے نزدیک اشیاء میں اصل حرمت ہے جب تک ان کی حلت ذکر نہ ہو جائے.
 
عرض یہ ہے کہ اس مراسلے کو اس بار غور سے پڑھ ہی لیجئے ۔ اس میں آُ کے سوال کا جواب بہت ہی صاف صاف دیا گیا ہے۔

موقت نکاح کی حرمت کی دلیل آپ قرآن سے دیں.
بہت شکریہ آپ کا یہ سوال پوچھنے کا۔
میں اس سوال کا جواب صرف اس صورت میں دے سکتا ہوں اگر آپ ، ان ذیل کے جواب ہاں یا نا میں دے دیں؟
1۔ کیا ( نعوذ باللہ ) اللہ تعالی کے الفاظ ضائع کرنے کے لئے ہیں ؟ ہاں یا نا؟
2۔ کیا قرآن حکیم کے علاوہ بھی کوئی الکتاب نازل ہوگی؟ جس پر ہمیں ایمان رکھنا ہے؟ قرآن دلیل ، ہاں یا نا؟

میرا جواب :
1۔ نہیں ۔ اللہ تعالی کا ہر لفظ اہم ہے، ضائع کرنے کے لئے نہیں ۔
2۔ نہیں، اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور نا ہوگی۔

میں تو احادیث مبارکہ سے دلائل دوں گا جو آپ کے نزدیک قابل حجت ہی نہیں.
جی میرے نزدیک قرآن حکیم کے علاوہ کوئی دلیل قابل قبول نہیں ہے۔ بہت ہی صاف جواب ہے آپ کے لئے۔ اس کی دلیل۔

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمینِ اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور الکتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

اگر آپ قرآن حکیم کے دلائیل سے مجھے سمجھا سکیں کہ اس الکتاب میں شیعہ اور سنی دونوں طرف کی کم از کم 11 عدد صحیح کتب روایات بھی شامل ہیں تو میں ان کتب سے آپ کی دلیل کو صدق دل سے، بناء کسی مسئلے کے قبول کرلوں گا۔ اس وقت تک صرف صرف ، اللہ تعالی کے فرمان ، دلائیل تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں۔


اب آپ کے سوال کا مفصل جواب۔
میرا مؤقف : موقت یعنی وقتی مدت کا نکاح سفاحت یعنی بدکاری ہے،

ضروری ہے کہ ہم جانیں کہ نکاح ہے کیا؟ نکاح ، ہمبستری کا عمل ہے، جب کہ عقد النکاح ، کنٹریکت آف میریج یا شادی کا معاہدہ ہے۔ جس کو اللہ تعالی نے بھاری معاہدہ قرار دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ عقد النکاح کے دو عدد مقاصد اللہ تعالی نے فراہم کئے ہیں۔ ایک وہ نکاح جو محصنات بنانے کے لئے جائے اور ضروری ہے کہ یہ نکاح 'غیر مسافحات ' کی مد میں نا آتا ہو۔
ضروری ہے کہ جانا جائے کہ محصنات اور محصنین کے کیا معنی ہیں ۔ حصن ، کے لئے قریب ترین الفاظ آپ باعزت، عصمت شعاری ، عفت شعاری ، مرد اور عورت کی باہمی حفاظت استعمال کرسکتے ہیں۔
ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ مسافحات اور مسفاحین کے کیا معانی ہیں ۔ سفاحت، کے لئے آپ اردو کے قریب ترین الفاظ بد کاری، فحاشی، شہوت رانی استعمال کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے کہ آپ شادی کا معاہدہ یعنی عقد النکاح یا نکاح آپ خاتون کو اپنی محصنات بنانے کے لئے کیجئے یعنی بدکاری یا شہوت رانی کے لئے نہیں ۔ جو کچھ بھی عفت شعاری یعنی حصن نہیں ہے وہ سفاحت ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے محصنات کے مخالف لفظ مسافحات استعمال کیا ہے۔

تو یہ نکاح محصنات بنانے کے لئے کیا ہے؟
ایک ایسی شادی جو دنیا میں تقریباً ہر جگہ عام ہے ، جو ایک محترم خاتون کو محصنات بنانے کے لئے کی جاتی ہے ، جیسے میرے والد محترم نے میری والدہ محترمہ سے کی اور جس طرح یہاں پڑھنے والے افراد کی شادی ہوئی ، اور جس طرح دنیا کے ہر معاشرے میں ، وفا شعاری، عفت شعاری ، نیکو کاری کے لئے کی جاتی ہے۔ عام حالات میں آپ کسی بھی خاتون کے سامنے سب کے سامنے 1 دن کی شادی مع اجرت رکھئے تو یہ بدکاری کے زمرے میں شمار ہوگی۔

اللہ تعالی نے جس طرح دن ، رات کا مخلف بتایا ہے ، جس طرح تاریکی ، نور کا مخالف بیان کیا ہے ، اسی طرح حصن اور سفح کو ایک دوسرے کا مخالف استعمال کیا ہے۔ ریفرینس نیچے موجود ہیں۔ لہذا جو عقد النکاح ًحصنات بنانے کے لئے نا کیا جائے ، اس کو آپ کوئی بھی نام دیجئے و مسافحات کے زمرے میں آئے گا۔ چونکہ وقتی شادی یعنی ایک رات کی شادی مع معاوضہ کے محصنات باناے کے لئے نہیں کی جاتی ، لہذا ایسی موقتہ نکاح ، صرف اور صرف پراسٹی ٹیوشن یعنی طوائف زدگی یا شدید بدکاری کے زمرے میں آئے گا۔ عقد النکاح کی کسوٹی ہے محصنین ٍ بننا اور بنانا ، نا کہ مسافحین میں شمار ہونا۔

خلاصہ : ہمارے ارد گرد جتنی شادیا ں یعنی عقد النکاح ہوتے ہیں، وہ حصن عمل کی مثال ہیں۔ خواتین کو محصنات بنانے کے لئے یہ عقد النکاح کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک موقت نکاح، وقتی شادی کسی معاہدہ کی موجودگی کے باوجود، سفاحت یعنی بدکاری ہی شمار کی جاتی ہے۔ یہاں اہم لافاظ ہیں نکاح، کنٹریکٹ یا میثاق، ، محصنات، محصنین ، مسافحات اور مسفاحین۔ ایک ایک عقد النکاح حصن (عفت شعاری ) نہیں ہے تو سفح (بدکاری) ہے

آیات کا ریفرینس۔ آپ کی آسانی کے لئے، نکاح، مسافحین، محصنین کے الفاظ کوسرخ کردیا ہے۔ اب فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔ آپ جو چاہیں درست مانئے لیکن کیا وہ اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم کے مطابق ہے ؟ اس کو جواب آپ کو ان آیات میں مل جائے گا ۔

شادی کرو عفت شعاری اور پاک دامنی کے ساتھ نا کہ سفاحت ا، شہوت رانی اور بدکاری کے لئے۔
4:24 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور محصنات (عفت شعار) شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

4:25 وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد پاکباز مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ با عفت قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے


24:33 وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن ( حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے

لفظ حصن کی تعریف ۔
66:12 وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
اور (دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریم کی (بیان فرمائی ہے) جس نے اپنی عصمت و عفّت کی خوب حفاظت کی تو ہم نے (اس کے) گریبان میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے فرامین اور اس کی (نازل کردہ) کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزاروں میں سے تھی

محصنیں بننے کا حکم اور سفاحت سے دور رہنے کا صریح حکم:
5:5 الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا

جو شادیاں اسلامی ممالک میں عام طور پر کی جاتی ہیں۔ وہ ؛ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس کے برعکس وقتی شادی جو پراسٹی ٹیوٹس یا طوائفوں کو ان کا معاوضہ دے کر کی جاتی ہے کہ وقت گذرنے کے بعد دونوں آزاد ہیں ۔ اس کو صرف اور صرف بدکاری یعن ' مُسَافِحِينَ ' بنانے کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے، چاہے اس میں کوئی کنٹریکت موجود ہو یا نا ہو۔

جو لوگ قرآن حکیم کو بالکل نہیں مانتے یعنی مسلمان نہیں ہیں، ان سے بھی وقتی شادی کے بارے میں پوچھئے ان کا ایک ہی جواب ہوگا ، یہ بدکاری ہے۔

والسلام
 

ربیع م

محفلین
جو لوگ قرآن حکیم کو بالکل نہیں مانتے یعنی مسلمان نہیں ہیں، ان سے بھی وقتی شادی کے بارے میں پوچھئے ان کا ایک ہی جواب ہوگا ، یہ بدکاری ہے۔
یعنی اب پیمانہ عام لوگ ہیں؟

آپ نے یہ جتنے بھی دلائل دئیے ہیں میں نے بالتفصیل ان کا جواب ذکر کیا ہے کہ

محرمات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ باقی تمام تر عورتیں حلال ہیں.

حلال کس طرح ہیں؟

ان سے نکاح کر لو اور اپنی حاجت پوری کرو.

اب موقت کی حرمت کسی بھی آیت سے واضح ہوتی ہے یہ دکھائیں.

نکاح اور عقد نکاح اس کو تو ہم تسلیم کر رہے ہیں اس سے کسی کو کوئی انکار نہیں.

اس عقد نکاح میں موقت کی حرمت کا ثبوت دیجئے.

آپ کا کہنا ہے کہ نکاح کا مقصد پاک دامنی ہے.

نکاح موقت کا مقصد بھی تو پاکدامنی ہو سکتا ہے.

مثلا ایک شخص کچھ عرصہ ایک ماہ دو ماہ باہر کسی ملک میں رہتا ہے اس کو خوف ہے کہ میں بدکاری میں مبتلا ہو جاؤں گا وہ وہاں باقاعدہ شرعی طریقہ سے کسی مسلم عورت سے محض پاکدامنی کے حصول کیلئے جتنا عرصہ وہاں رہنا چاہتا ہے اتنا عرصہ نکاح کر لیتا ہے تو کیا یہ نکاح آپ کے نزدیک درست ہو گا؟

کیونکہ اس کا مقصد بھی تو پاکدامنی ہے.
 

ربیع م

محفلین
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمینِ اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور الکتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا
اس آیت کا سیاق و سباق بھی دیکھ لیجیے گا.کہ اس سے کیا مراد ہے اور یہاں روز قیامت کا تذکرہ ہے اور....

اس کے علاوہ سو سے زیادہ اطاعت رسول و اتباع رسول سے متعلق آیات کو بھی.

لیکن بہتر یہی ہے کہ ہم اس موضوع کو فی الحال نہ چھیڑیں

آپ نکاح موقت کی حرمت کی دلیل قرآن سے دکھا دیجئے.

کیونکہ نکاح موقت کا بھی ایک مقصد پاکدامنی ہی ہوتا ہے.

باقی اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں جی اس کا مقصد تو جنسی خواہش کو پورا کرنا ہے تو ایسا تو نکاح دائمی کا بھی ایک مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی اس فطری حاجت کو پورا کرے.
 
آخری تدوین:
نکاح حلالہ
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حلالہ،نکاح حلالہ کسی چیز کو شرعا جائز بنا لینا۔ حلال بنا لینا۔حلال بنانے کیلئے نکاح کرنا۔





حلالہ کا مفہوم
جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اور پھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدےتو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہو گا کیونکہ دوسرے خاوند کےنکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دیتا ہےاس لیے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے

نکاح حلالہ کی تین صورتیں
1۔عمومی
ایک عورت کو طلاق دی گئی عدت گذارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے یہ دوسرا شخص حق زوجیت کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دوسری عدت کے بعد پہلے خاوند کے لیےحلال ہو گی یہ نکاح حلالہ کیا نہیں جاتا ہو گیاہے اس کے جائز ہونے پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے

2۔ارادی
ایک شخص نے طلاق دی عدت گذارنے کے بعد بغیر کسی شرط دوسرے شخص سے نکاح کرے لیکن اس شخص کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ پہلا خاوند اسے واپس لینا چاہتا ہے بچے چھوٹے ہیں انہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں میں نکاح کر کے چھوڑ دونگا تاکہ اجڑا گھر آباد ہو ایسی صورت میں

فقہ مالکی
فقہ مالکی کےمطابق یہ سرے سے نکاح حلالہ شمار ہی نہ ہوگا۔

فقہ شافعی
فقہ شافعی کے مطابق اس نیت سے نکاح کرناصحیح ہوگااگرچہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔

فقہ حنبلی
فقہ حنبلی کے مطابق یہ نکاح باطل ہے حلالہ کی شرط رکھنا یا حلالہ کی نیت کرنا برابر ہیں۔

فقہ حنفی
فقہ حنفی کےمطابق نکاح حلالہ صحیح ہےاگر پہلے خاوند اور بیوی کے درمیان میں صلح کرانا مقصود ہو تو باعث ثواب ہے اگر یہ مقصد شہوت پوری کرنا یا طلاق دینا ہو تو مکروہ تحریمی اور اس عمل میں شریک لوگ گناہگار ہونگے۔لیکن نکاح صحیح اور پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائیگی ۔اگر اجرت مقرر کرتا ہے تو یہ عمل حرام اور اجرت مقرر کرنےوالالعنت کا مستحق ہے

3۔مشروط
مطلقہ سے نکاح کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ جماع کے بعد طلاق دیگا تاکہ پہلے خاوند سے نکاح کرلے یہ طریقہ تمام آئمہ کے نزدیک حرام ہے۔البتہ امام شافعی امام مالک امام حنبل کے نزدیک عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک عمل حرام ہے لیکن پہلے خاوند سے نکاح کےلیے عورت جائز ہو جاتی ہے[1]

قبل از اسلام
اسلام میں پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص س عقد کرکے طلاق نہ پاتی ، پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ اسلامنے اس طریقہ کوباقی رکھا تاکہ لوگ آسانی سے بیویوں کو طلاق نہ دے سکیں۔ مگر تین طلاق دینے کی صورت میں ، ایک اور دو طلاق دینے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں کو تین مغلظہ طلاقیں دے دیتے ہیں وہ اگر اس عورت سے پھر نکاح کرنا چاہیں تو پہلے وہ عورت کسی سے نکاح کرے پھر اس سےطلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور اس کے لیے حلال ہے۔

لعنت کا مستحق
احادیث میں حلالہ کرنے والوں کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ جو شخص حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے ، ان دونوں پر خدا کی لعنت۔ عمر فاروق ایسے لوگوں کو زانیوں کے برابر سمجھتے تھے۔ کیونکہ ایسے شخص کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شارع نے نکاح سے مراد لیا ہے۔
"حدیث میں محلل یعنی وہ دوسرا شوہر جو نکاح جیسے اہم سنجیدہ اور مقدس معاہدہ کو پہلے شوہر کی خاطر ایک کھیل اور تفریح کی چیز بنائے دیتا ہے۔ اور محلل لہ یعنی وہ پہلا شوہر جس کی خاطر معاہدہ نکاح کی اہمیت، سنجیدگی وتقدیس خاک میں ملائی جارہی ہے، ان دونوں پر لعنت آئی ہے۔ اور اکثر فقہا کے ہاں یہ نکاح، نکاح فاسد کے حکم میں آتا ہے۔ حنفیہ کے ہاں ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا۔ یعنی اس کا نفاذ قانونی ہوجائے گا، اگرچہ اس سے گناہ عائد ہوگا"[2]
بعض ائمہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام ، مگر جن لوگوں نے اسے حلال قرار دیا ہے وہ بھی اسے اچھا نہیں کہتے ۔

حلالہ اور متعہ میں فرق
متعہ اور حلالہ میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہ یہ کہ متعہ صریح طور پر ایک متعین مدت کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے متعلق واضح طور پر ایک فقیہ یہ حکم لگا سکتا ہے کہ یہ نکاح منعقد نہیں ہوا لیکن حلالہ کی نوعیت ایک درپردہ سازش کی ہوتی ہے، اس کے متعلق کوئی ظاہری ثبوت اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ نکاح کے نام سے یہ اللہ کی شریعت کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کے نزدیک تو یہ نکاح اور یہ طلاق سب باطل ہوگا لیکن ایک فقیہ جو صرف ظاہر حالات کو سامنے رکھ کر فتوی دینے پر مجبور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر بعض فقہا اس کے انعقاد کو مانتے ہیں[3]

حوالہ جات
  1. تحقیق حلالہ محمد صدیق ہزاروی،صفحہ 7،کرمانوالہ بک شاپ
  2. تفسیر ماجدی عبدالماجد دریا آبادی،سورۃ البقرہ،آیت230
  3. تفسیر تدبر قرآن،امین احسن اصلاحی
 

فاخر رضا

محفلین
نکاح متعہ - ويکی شيعه
اس میں قرآنی آیات اور شیعہ و سنی روایات سے متعہ کو جائز قرار دیا گیا ہے
یہ عمل رسول کے زمانے میں ہوتا تھا اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بند ہوا، شاید ویسے ہی جیسے اور کام administrative حکم کے تحت شروع اور بند ہوئے
 

فاخر رضا

محفلین
جس طرح عدت کا حکم ہے تاکہ حمل ظاہر ہوجائے اور بچے کی ولدیت کے بارے میں کنفیوژن نہ رہے اسی طرح حلالا ہے کہ جس سے کنفیوژن نہیں رہتی اور دو دفعہ عدت بھی پوری ہوتی ہے. اس طرح کنفیوژن نہیں رہتی. اسے غیرت کا مسئلہ کیسے بنا دیا
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
السلام علیکم،،،
یہاں اتنے سارے مسئلے پر گفتگوں ہورہی ہے لیکن بھارت میں دیکھیں کہ یہ لوگ پاکستان سے کتنا ڈرتے ہیں۔
 
صاحب بہادر! اس بحث کو سمیٹنے میں ہماری مدد فرمائیں، شکریہ! :)
حضور اب ایسا کرا جاوے کہ لڑی کا کیواڑ بند کر کے تالا ڈالا جاوے اور کیواڑ کے بھیتر ڈانڈے والا رکھوالا بیٹھ جاوے تاکہ کوئی داخل نہ ہو پاوے۔:cool:
 
بھارتی سرکار کو یہ چاہئے تھا کہ وہ پرسنل لاء بورڈ سے رابطہ کرکے کہتی کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے سے مسلم معاشرے میں (جو بھارتی معاشرے کا بھی حصہ ہے) فلاں فلاں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، آپ لوگ اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالیں جو مسلم شریعت کے بھی مخالف نہ ہو اور معاشرے کے مسائل کو بھی حل کر دے ۔ اور جو حل مسلم بورڈ غور و فکر کر کے بتا دیتا بھارتی پارلیمان قانون سازی کے ذریعے نافذ کر دیتی اس طرح نہ مسلمانوں کو کوئی اعتراض ہوتا اور نہ سپریم کورٹ وغیرہم کو یعنی سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوتتی :)
مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں قوانین شریعت کے ماتحت ہی ہونا چاہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں حکومتوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے ان کے مخصوص معاملات کے لئے شریعت کا لحاظ رکھے ۔ طریقہ ایسا ہی مناسب ہے جس میں نہ مسلمانوں کو یہ محسوس ہو کہ حکومت ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور نہ حکومت یہ محسوس کرے کہ ملکی نظام میں خرابی پیدا کی جارہی ہے۔
میں آپکی با ت سمجھ نہیں پا رہا۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں قوانین شریعت کے تابع ہونے چاہئے۔ اور جہاں مسلمان اقلیت ہیں وہاں بھی قوانین شریعت کا لحاظ کرکے بنانے چاہیے؟ مطلب دونوں صورتوں میں قوانین بہرحال شریعت کے تابع ہونے چاہئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 
(میرے خیال میں) اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے مولویوں کو ختم نبوت مل گیا ہے اور انڈیا کے مولویوں کو طلاق کا موضوع. ریٹ بڑھا رہے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ فائدہ الیکشن میں اٹھا لیں.
عوام بیچاری خلوص اور اسلام سے محبت میں دھوکے کھا رہی ہے
ظاہر ہے مولوی برادری کی روٹی دال کا جو سوال ہے۔
 
اس بات کا فیصلہ علماء کو کرنے کا حق ہے کہ کیا اکٹھے تین طلاق جرم ہے یا نہیں اور اگر جرم ہے تو اس کی کیا سزا ہونا چاہئے۔ بھارتی کابینہ کو اپنے فیصلے اس طرح مسلط نہیں کرنا چاہئیں۔
جہاں کامن لا ،مذہبی لا سے تصادم کریگا ،وہاں کامن لا کا پلڑا بھاری ہوگا۔
 
نکاح حلالہ
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حلالہ،نکاح حلالہ کسی چیز کو شرعا جائز بنا لینا۔ حلال بنا لینا۔حلال بنانے کیلئے نکاح کرنا۔





حلالہ کا مفہوم
جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اور پھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدےتو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہو گا کیونکہ دوسرے خاوند کےنکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دیتا ہےاس لیے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے

نکاح حلالہ کی تین صورتیں
1۔عمومی
ایک عورت کو طلاق دی گئی عدت گذارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے یہ دوسرا شخص حق زوجیت کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دوسری عدت کے بعد پہلے خاوند کے لیےحلال ہو گی یہ نکاح حلالہ کیا نہیں جاتا ہو گیاہے اس کے جائز ہونے پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے

2۔ارادی
ایک شخص نے طلاق دی عدت گذارنے کے بعد بغیر کسی شرط دوسرے شخص سے نکاح کرے لیکن اس شخص کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ پہلا خاوند اسے واپس لینا چاہتا ہے بچے چھوٹے ہیں انہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں میں نکاح کر کے چھوڑ دونگا تاکہ اجڑا گھر آباد ہو ایسی صورت میں

فقہ مالکی
فقہ مالکی کےمطابق یہ سرے سے نکاح حلالہ شمار ہی نہ ہوگا۔

فقہ شافعی
فقہ شافعی کے مطابق اس نیت سے نکاح کرناصحیح ہوگااگرچہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔

فقہ حنبلی
فقہ حنبلی کے مطابق یہ نکاح باطل ہے حلالہ کی شرط رکھنا یا حلالہ کی نیت کرنا برابر ہیں۔

فقہ حنفی
فقہ حنفی کےمطابق نکاح حلالہ صحیح ہےاگر پہلے خاوند اور بیوی کے درمیان میں صلح کرانا مقصود ہو تو باعث ثواب ہے اگر یہ مقصد شہوت پوری کرنا یا طلاق دینا ہو تو مکروہ تحریمی اور اس عمل میں شریک لوگ گناہگار ہونگے۔لیکن نکاح صحیح اور پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائیگی ۔اگر اجرت مقرر کرتا ہے تو یہ عمل حرام اور اجرت مقرر کرنےوالالعنت کا مستحق ہے

3۔مشروط
مطلقہ سے نکاح کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ جماع کے بعد طلاق دیگا تاکہ پہلے خاوند سے نکاح کرلے یہ طریقہ تمام آئمہ کے نزدیک حرام ہے۔البتہ امام شافعی امام مالک امام حنبل کے نزدیک عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک عمل حرام ہے لیکن پہلے خاوند سے نکاح کےلیے عورت جائز ہو جاتی ہے[1]

قبل از اسلام
اسلام میں پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص س عقد کرکے طلاق نہ پاتی ، پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ اسلامنے اس طریقہ کوباقی رکھا تاکہ لوگ آسانی سے بیویوں کو طلاق نہ دے سکیں۔ مگر تین طلاق دینے کی صورت میں ، ایک اور دو طلاق دینے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں کو تین مغلظہ طلاقیں دے دیتے ہیں وہ اگر اس عورت سے پھر نکاح کرنا چاہیں تو پہلے وہ عورت کسی سے نکاح کرے پھر اس سےطلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور اس کے لیے حلال ہے۔

لعنت کا مستحق
احادیث میں حلالہ کرنے والوں کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ جو شخص حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے ، ان دونوں پر خدا کی لعنت۔ عمر فاروق ایسے لوگوں کو زانیوں کے برابر سمجھتے تھے۔ کیونکہ ایسے شخص کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شارع نے نکاح سے مراد لیا ہے۔
"حدیث میں محلل یعنی وہ دوسرا شوہر جو نکاح جیسے اہم سنجیدہ اور مقدس معاہدہ کو پہلے شوہر کی خاطر ایک کھیل اور تفریح کی چیز بنائے دیتا ہے۔ اور محلل لہ یعنی وہ پہلا شوہر جس کی خاطر معاہدہ نکاح کی اہمیت، سنجیدگی وتقدیس خاک میں ملائی جارہی ہے، ان دونوں پر لعنت آئی ہے۔ اور اکثر فقہا کے ہاں یہ نکاح، نکاح فاسد کے حکم میں آتا ہے۔ حنفیہ کے ہاں ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا۔ یعنی اس کا نفاذ قانونی ہوجائے گا، اگرچہ اس سے گناہ عائد ہوگا"[2]
بعض ائمہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام ، مگر جن لوگوں نے اسے حلال قرار دیا ہے وہ بھی اسے اچھا نہیں کہتے ۔

حلالہ اور متعہ میں فرق
متعہ اور حلالہ میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہ یہ کہ متعہ صریح طور پر ایک متعین مدت کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے متعلق واضح طور پر ایک فقیہ یہ حکم لگا سکتا ہے کہ یہ نکاح منعقد نہیں ہوا لیکن حلالہ کی نوعیت ایک درپردہ سازش کی ہوتی ہے، اس کے متعلق کوئی ظاہری ثبوت اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ نکاح کے نام سے یہ اللہ کی شریعت کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کے نزدیک تو یہ نکاح اور یہ طلاق سب باطل ہوگا لیکن ایک فقیہ جو صرف ظاہر حالات کو سامنے رکھ کر فتوی دینے پر مجبور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر بعض فقہا اس کے انعقاد کو مانتے ہیں[3]

حوالہ جات
  1. تحقیق حلالہ محمد صدیق ہزاروی،صفحہ 7،کرمانوالہ بک شاپ
  2. تفسیر ماجدی عبدالماجد دریا آبادی،سورۃ البقرہ،آیت230
  3. تفسیر تدبر قرآن،امین احسن اصلاحی
شکریہ ، کہ اس حوالے میں ، کوئی بھی حوالہ قرآن حکیم سے نہیں ہے اور نا ہی سیرت رسول اکرم سے کوئی حوالہ ہے۔ یہ بغدادی عدالتوں اور ججوں کے فیصلے ہیں۔ جن کے مطابق حلالے کو ۔ ان آئمہ سمیت کوئی بھی نہیں مانتا۔ جو لوگ تین طلاق کی توپ سے محترم خواتین کو بے عزت کرتے ہیں اور پھر حلالہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے بھی کوئی اپنی نکاح کے قابل، بہن، بیٹی، ماں یا اور کسی بھی رشتے دار خاتون کو حلالہ کے نام پر چند راتوں کی شادی ، پیسے لے کر بھی نہیں کرے گا۔ لہذا اس بحث کو اب ختم سمجھئے ۔ شکریہ ہندوستانی حکومت ، اور اسکے ایوان بالاء اور ایوان زیریں دونوں تین طلاق کے قانون کی ممانعت کرچکے ہیں۔ اس قانون کو جب ہندوستانی کورٹ میں لے جایا گیا تو عدالت نے بھی تین طلاق کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہاں اس مراسلے میں تین طلاق کے حق میں کسی نےکوئی حوالہ قرآن یا سیرت نبوی سے نہیں پیش کیا ۔ اور حلالے جیسے حرامے سے اس مسئلہ کو الجھانے کی کوشش کی گئی۔۔ اللہ کا فرمان اور اس کی آیات سامنے ہی عفت شعاری کے لئے نکاح کا حکم اور بدکاری کے لئے نکاح سے ممانعت بنیادی اصول ہے۔ اب بھی جو افراد حلالے کے حق میں ہیں، وہ اپنا واضح ہاتھ کھڑا کریں۔ تاکہ میں مدیران گرامی سے درخواست کرسکوں کہ ، میںحلالے کے قائیل لوگوں سے ایک سخت سوال پوچھ سکوں÷
 
Top