اسلام میں نیشنل ازم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک مغربی آئیڈیولوجی ہے۔ اسلام میں امت کا تصور ہے جبکہ قائد اعظم نے ایک مسلم نیشنل موومنٹ کیلئے جدوجہد کی۔
اگر قائد اعظم کسی امتی تحریک جیسے خلافت تحریک کیلئے جد و جہد کرتے تو لازمی اسلامی فعل کہلاتا۔ جبکہ آپ نے پنی زندگی ایک مسلم نیشنل موومنٹ کیلئے صرف کرکے قول و فعل سے ثابت کیا کہ یہ تحریک مغربی طرز کی تھی نہ کہ اسلامی۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
جب موجودہ دور حکومت میں جب نواز رفتہ رفتہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لئے پیش رفت شروع کی تو قابل نفرت ہوگیا۔ بلکہ اعلانیہ اس کا اظہار بھی کیا تھا۔
ماشاء اللہ ان لوگوں پر جنہیں ن لیگ بھی سیکولر لگتی ہے
 

فرقان احمد

محفلین
فرمانِ قائد:
"جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ہم نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت سیکھ لی تھی۔ آپ پاکستان کی طرز حکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنی چاہئے۔ پاکستان کیلئے دستور بنانا‘ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔"
(پریس کانفرنس۔ 14جولائی 1947ء)
ماخذ
 

سید عمران

محفلین
قائد اعظم نے اپنی صحت و زندگی داؤ پر لگا کر مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کیوں بنائی؟؟؟
غیر اسلامی رہنے کے لیے ہندوستان برا تھا کیا؟؟؟
 
آخری تدوین:
دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنی چاہئے۔
یہاں "ذمہ دار شخص" بہت اہم لفظ ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قائداعظم چونکہ گورنر جنرل تھے اور بابائے قوم تھے اس لئے ان کی رائے دستور ساز اسمبلی کی رائے پراثر انداز ہو سکتی تھی اس لئے ان کا خاموش رہنا مناسب تھا تاکہ نومولود ریاستی ادارے صحیح طریقے سے اپنا کام کر سکیں ۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کی خاموشی بھی بڑے اثرات رکھتی ہے۔
 
قائد اعظم نے اپنی صحت و زندگی داؤ پر لگا کر مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کیوں بنائی؟؟؟
غیر اسلامی رہنے کے لیے ہندوستان برا تھا کیا؟؟؟
مسلمانوں کی جان مال عزت کی حفاظت کیلئے الگ ریاست بنائی۔ اسلئے نہیں کہ وہاں مُلا ٹولے کا قبضہ ہو جائے، اور مذہب کے نام پر دکانیں، دھرنے، فسادات ہونے لگیں۔
 
یہاں "ذمہ دار شخص" بہت اہم لفظ ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قائداعظم چونکہ گورنر جنرل تھے اور بابائے قوم تھے اس لئے ان کی رائے دستور ساز اسمبلی کی رائے پراثر انداز ہو سکتی تھی اس لئے ان کا خاموش رہنا مناسب تھا تاکہ نومولود ریاستی ادارے صحیح طریقے سے اپنا کام کر سکیں ۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کی خاموشی بھی بڑے اثرات رکھتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی نے جو پہل "گُل" کھلایا وہ قرارداد مقاصد کو 1949 میں "بھاری مسلمان اکثریت" سے پاس کروانا تھا۔ اسکی بدولت اسمبلی میں موجود تمام مسلمان اراکین (بشمول احمدی جو ابھی تک غیرمسلم اقلیت قرار نہیں دیے گئے تھے) ایک طرف، اور کافر اراکین (ہندو، مسیحی، پارسی وغیرہ) ایک طرف ہوگئے۔ کچھ ہندو اراکین جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے احتجاج کرتے ہوئے واپس ہندوستان چلے گئے۔ یوں پاکستانی آئین کی ابتداء ہی پاکستانیوں کے مابین مذہبی تفرقات پر ہوئی۔ بعد میں چل سو چل احمدی، مسیحی، یہودی وغیرہ اسکی بھینٹ چڑھتے رہے۔
 

سید عمران

محفلین
مسلمانوں کی جان مال عزت کی حفاظت کیلئے الگ ریاست بنائی۔ اسلئے نہیں کہ وہاں مُلا ٹولے کا قبضہ ہو جائے، اور مذہب کے نام پر دکانیں، دھرنے، فسادات ہونے لگیں۔
کیا سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت کے لیے؟؟؟
 

ام اویس

محفلین
آج کل سوشل میڈیا پر قائد اعظم کے صرف ایک خطاب کا چرچا ہے

11 اگست 1947 ” آپ کسی مذہب، کسی ذات، کسی عقیدے کے بھی ہوں امور ریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں”
قائد اعظم کے فرمودات کے تعاقب میں نکلی تو حسب معمول “اردو محفل “ پر پہنچ گئی ۔ زندہ باد اردو محفل زندہ باد
محفل بنانے والوں اور اس کو سرسبز و آباد کرنے والوں کی خیر ہو
بہت بہت بہت بہت بہت تشکر اور دعائیں
 

ام اویس

محفلین
001
 
یہ نعرہ جماعت اسلامی نے پہلی بار پاکستان کے قیام کے بعد احمدی مخالف تحریک کے دوران لگایا تھا۔
معلومات درست کیجئے ۔ یہ نعرہ انیس صد چوالیس میں اصغر سودائی نے لگایا تھا اور جدوجہد پاکستان میں یہ نعرہ بنیادی نعرہ تھا۔ مرزائی مخالف تحاریک میں یہ نعرہ یاد کرایا جاتا تھا ۔ ہے اور رہے گا۔
 
Top