محمد وارث

لائبریرین
از کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم


بابا فغانی شیرازی

تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
 
از کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم


بابا فغانی شیرازی

تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
محمد وارث بھائی
اس میں ساتھ ساتھ لفظاً معنی بھی لکھ دیا کریں جیسے ایک اور لڑی میں ہے تو زیادو فائدہ مند رہے گا ہمارے لئے۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد وارث بھائی
اس میں ساتھ ساتھ لفظاً معنی بھی لکھ دیا کریں جیسے ایک اور لڑی میں ہے تو زیادو فائدہ مند رہے گا ہمارے لئے۔۔
فارسی شعر کا لفظاً لفظاً معنی لکھنا وقت طلب کام ہے، اور یہاں ہر شعر کا ایسا ترجمہ کرنا شاید کسی کے لیے ممکن نہ ہو۔ :)
ویسے بھی آپ نے خود فرمایا کہ فارسی ابیات کے لفظ بہ لفظ ترجمے کے لیے ایک دوسرا دھاگا موجود ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
جائیکہ کند جلوہ گری زاغ چو طاؤس
اہلی تو چو سیمرغ برو گوشہ نشیں باش


اہلی شیرازی

اُس جگہ کہ جہاں کوے موروں کی طرح جلوہ گری کرتے ہیں، اہلی تو سیمرغ کی طرح وہاں سے چلا جا اور گوشہ نشیں ہو جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنان وصلِ تو می‌خواهم، که پیری نوجوانی را
چنانت آرزومندم، که هر کس بختِ کامل را
(لایق شیرعلی)

میں تمہارا وصل اِس طرح چاہتا ہوں جس طرح کوئی پیر نوجوانی چاہتا ہے؛ میں تمہارا اِس طرح آرزومند ہوں جس طرح ہر شخص بختِ کامل کا آرزومند ہوتا ہے۔
× پِیر = بوڑھا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مقصودِ ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
ہر جا کنیم سجدہ بدان آستان رسد

ہمارا مقصود دیر و حرم سے حبیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم جہاں بھی سجدہ کریں اسی آستاں پر پہنچتا ہے۔
مرزا غالب
واہ ۔ کیا بات ہے ۔
اس پر والد صاحب کا ایک شعر بے اختیار زبان پر آگیا ۔
ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی
جہاں فرط محبت سے جبیں ہم نے چھپالی ہے۔
 
چنان وصلِ تو می‌خواهم، که پیری نوجوانی را
چنانت آرزومندم، که هر کس بختِ کامل را
(لایق شیرعلی)

میں تمہارا وصل اِس طرح چاہتا ہوں جس طرح کوئی پیر نوجوانی چاہتا ہے؛ میں تمہارا اِس طرح آرزومند ہوں جس طرح ہر شخص بختِ کامل کا آرزومند ہوتا ہے۔
× پِیر = بوڑھا
کیا بات ہے بہت خوب تشبیہات تو کمال ہیں۔۔
 
جائیکہ کند جلوہ گری زاغ چو طاؤس
اہلی تو چو سیمرغ برو گوشہ نشیں باش


اہلی شیرازی

اُس جگہ کہ جہاں کوے موروں کی طرح جلوہ گری کرتے ہیں، اہلی تو سیمرغ کی طرح وہاں سے چلا جا اور گوشہ نشیں ہو جا۔
گوشہ نشینی چھوڑ ۔۔۔چراغ شب تاریک بننے کی بات کیجئے۔۔
 
از کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم


بابا فغانی شیرازی

تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
بہت خوب ۔۔۔تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے ۔۔۔۔کمال ۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بیروں مَنہ ز دائرۂ خود قدم حزیں
داری دلِ کشادہ بصحرا چہ احتیاج


شیخ علی حزیں

اے حزیں، اپنے دائرے سے باہر قدم مت نکال، تُو کشادہ اور وسیع دل رکھتا ہے تجھے صحرا کی کیا حاجت ہے؟
 
صائب تبریزی کے اس شعر کے آخری مصرعے کا ترجمہ کیسے ہوگا؟
کاش مے دیدی بہ چشمِ عاشقان رخسارِ خویش
تا دریغ از چشمِ خود مے داشتی دیدارِ خویش
 
کوہِ ناہموار را ہموار کردن سخت است
حرفِ ناہموار را ہموار کردن مشکل است
(صائب تبریزی)

کوہِ ناہموار کو ہموار کرنا سخت ہے۔(لیکن) حرفِ ناہموار کو ہموار کرنا (اس سے زیادہ) مشکل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رموزِ عشق، عراقی، مگو چنین روشن
که رازِ خویش چنین آشکار نتوان کرد
(فخرالدین عراقی)

اے عراقی! عشق کے رُموز کو یوں واضح بیان مت کرو کہ اپنے راز کو ایسا آشکار نہیں کیا جا سکتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بتی کز حسن در عالم نمی‌گُنجد عجب دارم
که دایم در دلِ تنگم چگونه خان و مان سازد؟
(فخرالدین عراقی)

وہ بت جو حُسن کے باعث دنیا میں نہیں سماتا، مجھے تعجب ہے کہ وہ ہمیشہ میرے دلِ تنگ میں کیسے گھر بنا لیتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی کے اس شعر کے آخری مصرعے کا ترجمہ کیسے ہوگا؟
کاش مے دیدی بہ چشمِ عاشقان رخسارِ خویش
تا دریغ از چشمِ خود مے داشتی دیدارِ خویش
تاکہ تم اپنی چشم سے اپنے دیدار کو دور رکھتے
دریغ داشتن = روکے رکھنا، منع کرنا، امتناع کرنا، کوئی چیز دینے یا صرف کرنے سے پرہیز کرنا وغیرہ
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
آغشتہ ایم ہر سرِ خارے بہ خونِ دل
قانونِ باغبانیِ صحرا نوشتہ ایم
غالب

میں نے صرف یہی نہیں کہ پھولوں اور پودوں کی آبیاری کی ہے، بلکہ باغیچے کے ایک ایک کانٹے، اور کانٹے کی ایک ایک نوک کو اپنے خون دل سے سینچا ہے۔ اس طرح میں نے صحرا کو گلستان میں تبدیل کرنے کا اصول و قانون مرتب کر دیا ہے۔
ترجمہ و تشریح: ضمیر نیازی

شعر کی خطاطی: ربط
 

حسان خان

لائبریرین
تا به گریبان نرسد دستِ مرگ
دست ز دامن نکنیمت رها
(سعدی شیرازی)

جب تک موت کا دست (ہمارے) گریبان تک نہیں پہنچ جاتا، ہم تمہارے دامن سے اپنا دست نہیں کھینچیں گے۔
 
امشب تو را بہ خوبی نسبت بہ ماہ کردم
تو خوب تر ز ماہی، من اشتباہ کردم
(فروغ بسطامی)

امشب تجھے حسن میں ماہتاب کی طرف منسوب کیا،(بلکہ) تو ماہتاب سے خوب تر ہے،میں نے خطا کی۔
 
آخری تدوین:
بہ ہمان قدر کہ چشمِ تو پر از زیبائی ست
بےتو دنیائے من اے دوست پر از تنہائی ست
(بہروز یاسمی)

جتنی تیری چشم زیبائی سے پُر ہے، اتنی ہی تیرے بدون اے دوست میری دنیا تنہائی سے پُر ہے۔
 
Top