حسان خان

لائبریرین
هر آن گه که خشم آورَد بختِ شوم
شود سنگِ خارا به کردارِ موم
(فردوسی طوسی)

جب بھی بختِ نامبارک غضب ناک ہوتا ہے، سنگِ سخت (بھی) موم کی مانند ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کَی سرد شود عشق ز آوازِ ملامت
هرگز نرَمد شیر ز فریادِ زنانه
(مولانا جلال‌الدین رومی)

عشق آوازِ ملامت سے کب سرد ہوتا ہے؟۔۔۔۔ شیر زنانہ فریاد سے ہرگز نہیں بھاگتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عذاب است این جهان بی تو مبادا یک زمان بی تو
به جانِ تو که جان بی تو شکنجه‌ست و بلا بر ما
(مولانا جلال‌الدین رومی)

یہ دنیا تمہارے بغیر عذاب ہے، یہ ایک لمحہ بھی تمہارے بغیر نہ ہو!۔۔۔ تمہاری جان کی قسم کہ تمہارے بغیر جان ہم پر شکنجہ و بلا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
عذاب است این جهان بی تو مبادا یک زمان بی تو
به جانِ تو که جان بی تو شکنجه‌ست و بلا بر ما
(مولانا جلال‌الدین رومی)

یہ دنیا تمہارے بغیر عذاب ہے، یہ ایک لمحہ بھی تمہارے بغیر نہ ہو!۔۔۔ تمہاری جان کی قسم کہ تمہارے بغیر جان ہم پر شکنجہ و بلا ہے۔
واہ!! خوب است!!
 

محمد وارث

لائبریرین
اگرچہ دوست بہ چیزے نمی خرد ما را
بعالمے نفروشیم موئے از سرِ دوست


حافظ شیرازی

اگرچہ دوست ہمیں کسی بھی چیز کے بدلے میں نہیں خریدتا لیکن ہم پوری دنیا کے بدلے میں بھی دوست کے سر کا ایک بال بھی نہ بیچیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه بی‌قدرم، ولی از دیده چون غایب شوم
همچو ماهِ عید مردم جستجویم می‌کنند
(صائب تبریزی)

اگرچہ میں بے قدر ہوں، لیکن نظر سے جب غائب ہو جاؤں تو مردم ہلالِ عید کی طرح میری جستجو کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
چنانت یاد مے آرم کہ رہ گم کردہ منزل را
چنانت دوست مے دارم کہ دریا بردہ ساحل را
(لایق شیرعلی)

میں تجھے ویسا یاد کرتا ہوں جیسے ایک راہ گم گشتہ منزل کو یاد کرتا ہے
میں تجھے ویسا دوست رکھتا ہوں جیسے ایک دریا بردہ ساحل سے محبت رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌خلی روز و شب اندر دلِ آزردهٔ من
به چه مشغول شوم کز تو فراموش کنم؟
(امیر خسرو دهلوی)

تم روز و شب میرے دلِ آزردہ میں چبھتے ہو۔۔۔۔ میں کس چیز میں مشغول ہوؤں کہ تمہیں فراموش کر دوں؟
 

حسان خان

لائبریرین
یار با ماست چه حاجت که زیادت طلبیم
دولتِ صحبتِ آن مونسِ جان ما را بس
(حافظ شیرازی)

یار ہمارے ساتھ ہے، پس کیا حاجت ہے کہ زیادہ طلب کریں؟ اُس مونسِ جاں کی صحبت کی دولت و سعادت ہمارے لیے کافی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرا بہ ہیچ بدادی و من ہنوز بر آنم
کہ از وجودِ تو موئے بعالمے نفروشم


شیخ سعدی شیرازی

تُو نے مجھے ایسے ہی بغیر کسی چیز کے بدلے میں دے دیا (بیچ دیا) اور میں ابھی بھی اسی بر (قائم) ہوں کہ تیرے وجود کا ایک بال بھی ساری دنیا کے بدلے میں نہ بیچوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشقم چنان ربود که دنیا و آخرت
افتاد چون دو قطرهٔ اشک از نظر مرا
(صائب تبریزی)

عشق نے مجھے ایسے ہتھیا لیا کہ دنیا و آخرت دو قطرۂ اشک کی طرح میری نظر سے گر گئیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
الٰهی سینه‌ای ده آتش‌افروز
در آن سینه دلی، و‌آن دل همه سوز
(وحشی بافقی)

میرے خدا! (مجھے) ایک آتش افروز سینہ عطا کر؛ اُس سینے میں ایک دل ہو، اور وہ دل پورا کا پورا سوز ہو۔
 

یاز

محفلین
روز نور و مکسب و تابم توئی
شب قرار و سلوت و خوابم توئی
(مولانا رومی)

دن میں میرا نور اور کمائی اور روشنی تُو ہے۔ رات میں میرا قرار اور بے غمی اور نیند تُو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
'عالِم' عامر لیاقت حُسین کے نام:
عالِم که کام‌رانی و تن‌پروری کند
او خویشتن گم است، که را رهبری کند
(سعدی شیرازی)

جو عالِم عیاشی و تن پروری کرے؛ وہ خود گم ہے، وہ کس کی رہبری کرے؟
 

طالب سحر

محفلین
تشنه لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جان دهم
گر به موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا
(غالب دهلوی)

مولانا حالی نے اس شعر کی کتنی سادہ شرح کر دی۔۔ لکھتے ہیں:
"میں کیسا ہی پیاسا ہوں لیکن اگر دریا کی موج پر مجھ کو یہ شبہہ گذرے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر اپنی پیشانی پر بل ڈالا ہے تو میں غیرت سے ساحلِ دریا پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا۔"
یہ شعر جذباتی محاکات کی ایک عمدہ مثال ہے اور غالب کے دل و دماغ کا آئینہ دار ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

ضمیر نیازی کو غالب کا یہ شعربہت پسند تھا، شاید اس لئے بھی کہ یہ نیازی صاحب کی خودداری کا غماز تھا۔ اُن کے مضامین کے مجموعے "انگلیاں فگار اپنی" میں کتاب کے بیک کور پراپنی قلمی تصویر کے نیچے یہی شعر درج کروایا، اور "اظہارِ تشکر" کے صفحات میں مولانا حالی کے کیے ہوے اس شعر کے ترجمے کے بعد یہ لکھا:

اب ایک واقعہ مرزا یگانہ کے بارے ذوالفقار علی بخاری کی زبانی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں: "یہ غالب دشمنی ان کا ایک ڈھونگ تھا، محض لوگوں کو چڑانے کے لیے... مرزا صاحب غزلیں سناتے اور ہم جھومتے... ایک نئی غزل سنائی جس کا مطلع تھا:

بندہ وہ بندہ جو دم نہ مارے
پیاسا کھڑا ہو دریا کنارے

میں نے اس شعر کی بہت داد دی اور ساتھ ہی فارسی کا ایک شعر پڑھا:

تشنه لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جان دهم
گر به موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا

یہ شعر سن کر مرزا صاحب کی حالت غیر ہو گئی، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ رندھی ہوئی آواز میں پوچھا، کس کا شعر ہے۔ میں نے عرض کیا، غالب کا۔ فرمایا، جھوٹ۔"
 

حسان خان

لائبریرین
چنانت یاد مے آرم کہ رہ گم کردہ منزل را
چنانت دوست مے دارم کہ دریا بردہ ساحل را
(لایق شیرعلی)

میں تجھے ویسا یاد کرتا ہوں جیسے ایک راہ گم گشتہ منزل کو یاد کرتا ہے
میں تجھے ویسا دوست رکھتا ہوں جیسے ایک دریا بردہ ساحل سے محبت رکھتا ہے۔
چنانت رغبتی دارم، که خشکستان به بارانی
چنانت روز و شب جویم، که سینا حلِّ مشکل را
(لایق شیرعلی)

میں تم سے ایسی رغبت رکھتا ہوں جیسی رغبت خشک سرزمین کو کسی بارش سے ہوتی ہے؛ میں تمہیں روز و شب ایسے تلاش کرتا ہوں جیسے ابنِ سینا مشکل کا حل تلاش کیا کرتا تھا۔
 
مستِ مئے عشق را عیب مکن سعدیا
مست بیفتی تو نیز گر ہم ازین مَے چشی
(سعدی شیرازی)

شرابِ عشق کے مست کی برائی مت کر اے سعدی! تو بھی اگر اس شراب کو چکھے تو مست ہوجائے۔
 
چون گنہگارے کہ ہر ساعت ازو عضوئے بُرند
چرخِ سنگین دل ز من ہر دم کند یارے جدا
(صائب تبریزی)

سنگ دل آسمان مجھ سے ہر دم کوئی دوست جدا کردیتا ہے جیسے (جہنم میں) ایک گناہ گار (کے بدن) سے ہر ساعت کوئی عضو کاٹا جاتا ہے۔
 
مقصودِ ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
ہر جا کنیم سجدہ بدان آستان رسد


ہمارا مقصود دیر و حرم سے حبیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم جہاں بھی سجدہ کریں اسی آستاں پر پہنچتا ہے۔

مرزا غالب
 
Top