حسان خان

لائبریرین
ظالم به مرگ سیر نگردد ز خونِ خلق
در خواب کارِ تشنه‌لبان آب خوردن است
(صائب تبریزی)

ظالم موت کے بعد (بھی) خونِ خلق سے سیر نہیں ہوتا؛ خواب میں تشنہ لبوں کا کام آب پینا ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گُلَش داغ و نسیمَش آہ و سروَش شعلۂ آتش
بیا سامانِ بستانِ محبت را تماشا کن


ابوتراب بیگ فرقتی کاشانی

اُس کے پھول داغ، اُس کی بادِ نسیم آہیں اور اُس کے سرو (پودے) آتشیں شعلے، آ اور آ کر محبت کے باغ کے ساز و سامان کا نظارہ کر۔
 

حسان خان

لائبریرین
کمر مبند به آزارِ هیچ کس صائب
که زخمِ تیغِ مکافات بر کمر نخوری
(صائب تبریزی)

اے صائب! کسی بھی شخص کے آزار پر کمر مت باندھو تاکہ کمر پر تیغِ مکافات کا زخم نہ کھاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بر ضعیفان ظلم کردن، ظلم بر خود کردن است
شعله هم بی‌بال و پر شد تا خس و خاشاک سوخت
(صائب تبریزی)

ضعیفوں پر ظلم کرنا خود پر ظلم کرنا ہے؛ شعلے نے جیسے ہی خس و خاشاک کو جلایا، وہ خود بھی بے بال و پر (یعنی ختم) ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پری‌رُخی به شَکَرخنده قتلِ مردم کرد
چو گفتمش که مرا هم بکُش تبسم کرد
(نامعلوم)

شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ "ایک پری رو نے خندۂ شیریں سے ہزاروں آدمیوں کو قتل کر دیا، میں نے کہا کہ مجھ کو بھی، یہ سن کر مسکرا دیا"، اس مضمون کو کس لطافت سے ادا کیا ہے، عاشق کے قتل کی درخواست پر مسکرا دینا، متعدد پہلو پیدا کرتا ہے جن میں ایک یہ بھی ہے اور یہ سب سے کم لطیف ہے کہ معشوق نے شکرخندے سے ہزاروں آدمی کو قتل کیا تھا، اب جو عاشق نے قتل کی درخواست کی تو وہ مسکرا دیا کہ ایک آدمی کے لیے اسی قدر کافی ہے۔
(ترجمہ و تشریح: شبلی نعمانی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تشنه لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جان دهم
گر به موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا
(غالب دهلوی)

مولانا حالی نے اس شعر کی کتنی سادہ شرح کر دی۔۔ لکھتے ہیں:
"میں کیسا ہی پیاسا ہوں لیکن اگر دریا کی موج پر مجھ کو یہ شبہہ گذرے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر اپنی پیشانی پر بل ڈالا ہے تو میں غیرت سے ساحلِ دریا پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا۔"
یہ شعر جذباتی محاکات کی ایک عمدہ مثال ہے اور غالب کے دل و دماغ کا آئینہ دار ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ مایوس را تسکین به مردن می‌توان دادن
چه امید است آخر خضر و ادریس و مسیحا را
(غالب دهلوی)

دلِ مایوس کو مر جانے ہی سے تسکین دی جا سکتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ آخر خضر، ادریس اور مسیحا، کس امید پر بیٹھے ہیں۔ اُن کی زندگی جاویدانی ہے، کبھی مایوس ہوئے تو کیا کریں گے۔ موت تو آنے کی نہیں۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
بی‌فایده تا چند منیر اشک‌فشانی
وقت است که از دیدهٔ دل خونِ جگر بار
(منیر شکوه‌آبادی)

اے منیر! بے فائدہ اشک فشانی کب تک؟ (اب) وقت ہے کہ دیدۂ دل سے خونِ جگر برساؤ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز آبِ دیدہ، نظیری گُلِ وفا روید
دراں چمن کہ منم فیضِ ابر و باراں بیں


نظیری نیشاپوری

اے نظیری، آنسوؤں سے وفا کے گُل بوٹوں (کی آبیاری ہوتی ہے اور اُن) کی نشو و نما ہوتی ہے، جس چمن میں میں ہوں وہاں ابر و باراں کا فیض تو دیکھ۔
 

حسان خان

لائبریرین
آوازِ خوش از کام و دهان و لبِ شیرین
گر نغمه کند ور نکند دل بفریبد
(سعدی شیرازی)

شیریں تالو، دہن اور لب سے نکلنے والی آوازِ خوب خواہ ترنّم کرے یا نہ کرے، دل فریفتہ کر دیتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
از بسکہ شعر گفتن شد مبتذل دریں عہد
لب بستن است اکنوں مضمونِ تازہ بستن


غنی کاشمیری

از بسکہ اِس عہد میں شعر کہنا مبتذل (بے قدر، حقیر، معمولی، عام) ہو چکا ہے، لہذا اب لب باندھنا (منہ بند رکھنا) ہی تازہ مضمون باندھنا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا توانی دفعِ غم از خاطرِ غم‌ناک کن
در جهان گریاندن آسان است، اشکی پاک کن
(ملک‌الشعرای بهار)

جہاں تک تمہارے لیے ممکن ہے خاطرِ غم ناک سے غم کو دور کرو؛ دنیا میں رلانا آسان ہے، تم کوئی اشک صاف کرو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سامانِ دلربائی، لطف است و مہربانی
نے چشمِ نیم مست و نے ابروئے کشیدہ


ابوطالب کلیم کاشانی

دلربائی کے سامان لطف اور مہربانی ہیں نہ کہ نیم مست آنکھیں اور کشیدہ ابرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
سهل باشد روزه از نانی و آبی داشتن
روزه از روی چنان باشد عذابی داشتن
(اوحدی مراغه‌ای)

روزہ رکھ کر کسی نان و آب سے دور رہنا تو آسان ہے لیکن ویسے چہرے سے روزے میں دور رہنا کسی عذاب میں مبتلا ہونے جیسا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آتشی نیست که آخر نشود خاکستر
پیِ انجام نمی‌گیری از آغاز چرا
(بیدل دهلوی)

کوئی آگ ایسی نہیں جو آخر راکھ نہ ہو جائے؛ آغاز سے انجام کا پتا کیوں نہیں لگا لیتے؟
 

حسان خان

لائبریرین
نیست جز خِجلَت از احباب تهی‌دستان را
بید را جز عَرَقِ بید نباشد ثمری

(واعظ قزوینی)
تہی دستوں کو احباب سے شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا؛ بید کا عَرَقِ بید کے سوا کوئی ثمر نہیں ہے۔
× بید ایک بے ثمر درخت ہے، اِسی لیے شاعر نے اُسے تہی دست شمار کیا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُس میں سے عَرَق ضرور نکلتا ہے، جسے شاعر نے تہی دستی کی شرمندگی کے باعث نکلنے والے پسینے سے تعبیر کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دیدی که خونِ ناحقِ پروانه شمع را
چندان امان نداد که شب را سحر کند
(حکیم شفایی اصفهانی)

تم نے دیکھا کہ پروانے کے قتلِ ناحق نے شمع کو اِس قدر امان (بھی) نہ دی کہ وہ شب کو سحر کر سکے (یعنی صبح تک جلتی رہ سکے)۔۔۔
 
آخری تدوین:
تراشیدم صنم بر صورتِ خویش
بہ شکلِ خود خدا را نقش بستم
مرا از خود برون رفتن محال است
بہر رنگی کہ ہستم خود پرستم


میں صنم اپنی صورت پر تراشتا ہوں۔ اپنی شکل پر خدا کا نقش باندھتا ہوں۔ میرا خود سے باہر جانا محال ہے۔ ہر اس رنگ جس میں زندہ ہوں خود پرست ہوں۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال
 

محمد وارث

لائبریرین
عاشقاں نامے بعجز و ناتوانی داشتند
کوہکن آخر بزور ایں قوم را بدنام کرد


شیخ علی نقی

سارے عاشق عجز اور ناتوانی کی وجہ ہی سے شہرت رکھتے تھے، آخر فرہاد نے اپنے زور سے (پہاڑ کھود کر نہر نکالنا) اِس عاشقوں کی قوم کو بدنام کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر نیندازم نظر بر عارضت از صبر نیست
رشک می‌آید به دیدارت ز بینایی مرا
(محمد فضولی بغدادی)

اگر میں تمہارے رخسار پر نظر نہیں ڈالتا تو یہ صبر کی وجہ سے نہیں ہے؛ مجھے تمہارے دیدار میں (اپنی) بینائی سے رشک آتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top