محمد وارث

لائبریرین
روزی‌ست خوش و هوا نه گرم است و نه سرد
ابر از رخ گلزار همی‌شوید گرد
بلبل به زبان حال خود با گل زرد
فریاد همی‌کند که می باید خورد
خیام

کیا خوب ہے دن، دھوپ نہ زیادہ سردی
پڑتے ہی بھَرن باغ کی سب گرد دھلی
مرجھائے ہوے پھول پہ بلبل کی چہک
کس جوش سے کہتی ہے کہ مے پی مے پی
ترجمہ: آغا شاعر قزلباش
پہلے مصرعے میں یا تو کوئی کتابت کی غلطی ہے یا آغا صاحب نے دھوپ کو (دُپ) فع کے وزن پر باندھا ہے، جو شاید ٹھیک نہیں، فاع صحیح وزن ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یا ممکن ہے انہوں نے 'زیادہ' کے 'ز' کا زیر گرا دیا ہو۔
اس صورت میں تو "ز" مکمل گرانا پڑے گا، یعنی زیادہ کو "یادہ" باندھنا پڑے گا، یا ی کو گرا کر "زادہ" باندھنے سے مصرع موزوں ہوتا ہے اور ہر دو صورتیں بھی ٹھیک نہیں۔
 

طالب سحر

محفلین
پہلے مصرعے میں یا تو کوئی کتابت کی غلطی ہے یا آغا صاحب نے دھوپ کو (دُپ) فع کے وزن پر باندھا ہے، جو شاید ٹھیک نہیں، فاع صحیح وزن ہے۔

جنابِ من، آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ یہ کتابت کی غلطی ہے، جو کہ میری عروض سے ناواقفیت کی وجہ سےمجھ سے پکڑی نہیں گئی۔ جس جگہ میں نے پڑھا تھا، وہاں "دھوپ نہ زیادہ سردی" ہی ہے، اور جیسا کہ آپ نے بتایا غلط ہے۔ آپ کے توجہ دلانے کا ازحد شکریہ۔ ریختہ پر موجود آغا شاعر قزلباش کی کتاب"میخانہء خیام" [ربط] کے صفحہ 99 پرپہلے مصرع کا یہ حصہ"دھوپ نہ ہے کچھ سردی" ہے جو کہ (مجھ جیسے لوگوں کے لئے کارآمد) عروض ڈاٹ کام کے مطابق بھی درست ہے-

نوٹ: میں اپنے پچھلے مراسلے کی ضروری تدوین کردوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
همین نه مشتاق در آرزویت، مُدام گیرد سراغِ کویت
تمامِ عالم به جست و جویت، به کعبه مؤمن به دیر ترسا
(مشتاق اصفهانی)

تمہاری آرزو میں یہ 'مشتاق' ہی ہمیشہ تمہارے کوچے کی تلاش میں نہیں رہتا بلکہ تمام عالم تمہاری جستجو میں ہے: کعبے میں مؤمن اور دَیر میں مسیحی۔
× ایک نسخے میں 'مشتاقِ آرزویت' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چو نیست بینش به دیدهٔ دل، رخ ار نماید حقت چه حاصل
که هست یکسان، به چشمِ کوران، چه نقشِ پنهان چه آشکارا
(مشتاق اصفهانی)

جب (تمہارے) دیدۂ دل میں بینائی نہیں ہے، اگر حق تمہیں چہرہ دکھا دے تو کیا حاصل؟ کہ نابیناؤں کی چشم میں نقشِ پنہان و آشکارا دونوں یکساں ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به عقل نازی حکیم تا کَی، به فکرت این ره نمی‌شود طَی
به کُنهِ ذاتش خرد بَرَد پَی، اگر رسد خس به قعرِ دریا
(مشتاق اصفهانی)

اے حکیم! عقل پر کب تک ناز کرو گے؟ یہ راہ فکر سے طے نہیں ہو گی؛ عقل اُس کی ذات کی حقیقت سے (اُس وقت ہی) واقف ہو سکتی ہے اگر تنکا دریا کی تہ تک پہنچ جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نگویم قحطِ درمان است در دہر
دوا بسیار امّا خاصیت نیست


طالب آملی

میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا میں علاج معالجے اور دوا دارو کا قحط ہے، دوائیں تو بہت سی ہیں لیکن اِن میں خاصیت اور تاثیر ہی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در مملکت چو غرشِ شیران گذشت و رفت
این عَوعَوِ سگانِ شما نیز بگذرد
(سیف فرغانی)

مملکت میں جب شیروں کی غُرِّش گذر گئی اور چلی گئی تو آپ کے کتوں کی یہ بھئو بھئو بھی گذر جائے گی۔
× غُرِّش = دہاڑ، چنگھاڑ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ظالم به مرگ دست نمی‌دارد از ستم
آخر پرِ عُقاب پرِ تیر می‌شود
(صائب تبریزی)

ظالم موت کے بعد (بھی) ستم سے دست نہیں کھینچتا؛ پرِ عُقاب آخر میں پرِ تیر بن جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تا شود قبرَش زیارت گاہِ اربابِ ریا
خویش را زاہد بزیرِ گنبدِ دستار کُشت


غنی کاشمیری

تا کہ اُس کی قبر ریا کار لوگوں کے لیے زیارت گاہ بن جائے، زاہد نے اپنے آپ کو (اپنی) دستار کے گنبد کے نیچے مار دیا۔
 
نالہء جانسوزم از بس دل نشین افتادہ است
ہیچ کوہے بر نمے گرداند این فریاد را

(تاثیر تبریزی)
میری فریادِ جان سوز بسیار دل نشین واقع ہوئی ہے۔
کوئی کوہ بھی میری اس فریاد کو نہیں روکتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہیچ کوہے بر نمے گرداند این فریاد را
کوئی کوہ بھی میری اس فریاد کو نہیں روکتا ہے۔
تصحیح: برگرداندن یعنی پلٹانا، لوٹانا، واپس کرنا
نالهٔ جان‌سوزم ازبس دل‌نشین افتاده‌است
هیچ کوهی برنمی‌گرداند این فریاد را
(تاثیر تبریزی)

میرا جاں سوز نالہ اتنا زیادہ دل نشیں واقع ہوا ہے کہ کوئی بھی کوہ اس فریاد (کی صدا) کو واپس نہیں پلٹاتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تاک را سیراب کن ای ابرِ نیسان در بهار
قطره تا مَی می‌تواند شد چرا گوهر شود
(میرزا محمد رضی دانش مشهدی)

"تاک انگور کی بیل کو کہتے ہیں، ابرِ نیساں کی نسبت خیال ہے کہ اس کے قطرے سیپ میں گرتے ہیں تو موتی بن جاتے ہیں، شاعر، ابرِ نیساں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تو انگور کی بیل کو سیراب رکھ، کیونکہ جب تک قطرہ شراب بن سکتا ہے تو موتی بننے کی کیا ضرورت ہے، یعنی شراب کا قطرہ، موتی سے زیادہ قیمتی ہے، اس لیے بجائے اس کے کہ ابرِ نیساں موتی طیار کرے یہ بہتر ہے کہ انگور پر برسے کہ شراب طیار ہو۔"
(ترجمہ و تشریح: شبلی نعمانی)
 
طاعتِ ما نیست غیر از ورزشِ پندارِ ما
ہست استغفارِ ما محتاجِ استغفارِ ما


ہماری اطاعت ہمارے غرور کی ورزش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمارا استغفار ہمارے استغفار کا محتاج ہے۔

ںظیری نیشاپوری

ہجومِ عجز سامانِ غرورم کم نمی سازد
چو تیغِ موج دارم در شکستِ خویش جوہر ہا


ہجومِ عجز میرے غرور کے سامان کو کم نہیں بناتا۔ میں موج کی تیغ کی طرح اپنی شکست میں بہت سے جوہر(خوبیاں) رکھتا ہوں۔

ابوالمعانی میرزا عبد القادر بیدل
 

حسان خان

لائبریرین
طالب آملی کی ہجو:
شب و روز مخدومنا طالبا
پیِ جیفهٔ دنیوی در تگ است
مگر قولِ پیغمبرش یاد نیست
که دنیاست مردار و طالب سگ است
(شیدا فتح‌پوری)

ہمارا آقا طالب شب و روز دنیا کے لاشے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے؛ مگر کیا اُسے پیغمبر کا قول یاد نہیں ہے کہ دنیا مردار ہے اور 'طالب' سگ ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به کویش رفتم و در پای من خاری شکست آنجا
بحمداﷲ که شد تقریبی از بهرِ نشست آنجا
(میرزا محمد رضی دانش مشهدی)

میں اُس کے کوچے میں گیا اور وہاں میرے پاؤں میں ایک خار ٹوٹ گیا؛ الحمدللہ کہ وہاں بیٹھنے کے لیے ایک بہانہ ہو گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بر لوحِ دل چو تختۂ تعلیمِ کودکاں
ہر حرفِ آرزو کہ نوشتم خراب شد


شیخ ابوالقاسم انصاری گازرونی

دل کی لوح پر، بچوں کی تعلیم والی تختی کی طرح، میں نے جو بھی حرفِ آرزو لکھا وہ خراب اور غلط ہی تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ آسوده ز گنجینهٔ شاهان مطلب
این گهر در صدفِ سینهٔ درویشان است
(صائب تبریزی)

دلِ آسودہ کی شاہوں کے خزانے میں جستجو مت کرو؛ یہ گوہر تو درویشوں کے سینے کے صدف میں ہے۔
 
آخری تدوین:
Top