محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب نےبہت اچھی وضاحت کی ہے۔یہ نفس والا ترجمہ سید احسن الظفر نے اپنی کتاب "بیدل : حیات اور کارنامے، جلد دوئم" میں کیا ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے بیدل کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے کی وہ ہم نے اُس کے مقام اور مرتبہ کی تعظیم میں کیا ہے ۔ یہ میری سبجیکٹیو ہے۔ بیدل اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں جس کا ایک مصرعہ یاد ہے باقی دوسرا یاد نہیں آرہا۔
آنچہ کلکم می نگارد محض حرف و صوت نیست :"
میرا قلم جو کچھ لکھتا ہے وہ محض حرف و صوت کا مجموعہ نہیں ہے۔ بیدل کی زبان کو سمجھنے کے لئے ہوش و گوش مطلوب ہے۔​
جی طارق صاحب مجھے علم تھا کہ یہ ترجمہ آپ کا نہیں، اور یہ بھی کہ میں خود بھی بیدل کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ التزام کے ساتھ لکھتا ہوں بلکہ ابوالمعانی بھی لکھتا ہوں۔، کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ چونکہ مترجم کے ذہن میں پہلے سے کچھ خیالات تھے سو یہ بھی جاننے کی کوشش نہ کی کہ شعر میں لفظ کونسا ہے، سانس والا ہے کہ روح والا،
 

حسان خان

لائبریرین
برگِ چشمم می‌نخوشد در زمستانِ فراقت
وین عجب کاندر زمستان برگ‌های تر بخوشد
(سعدی شیرازی)

میری آنکھ کا پتّا تمہارے فراق کے موسمِ سرما میں خشک نہیں ہوتا؛ اور عجیب یہ ہے کہ موسمِ سرما میں تر پتّے خشک ہو جاتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که معشوقی ندارد عمر ضایع می‌گذارد
همچنان ناپخته باشد هر که بر آتش نجوشد
(سعدی شیرازی)

جو شخص بھی کوئی معشوق نہیں رکھتا وہ عمر ضائع گذارتا ہے؛ جو کوئی بھی آگ پر نہیں ابلتا وہ اُسی طرح ناپختہ ہوتا ہے۔
 
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیمِ بلا
قعرِ دریا سلسبیل و روی دریا آتش است


بلا کے خوف میں ہونے کے بجائے بے تکلف بلا میں ہونگے۔ دریا کی گہرائی سلسبیل ہے اور سطح آتش ہے۔

مرزا غالب دہلوی
 

حسان خان

لائبریرین
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیمِ بلا
قعرِ دریا سلسبیل و روی دریا آتش است
مصیبت میں بے دھڑک کود پڑنا، مصیبت کے خوف زدہ ہونے سے بہتر ہے۔ سمندر کی تہ سلسبیل کی طرح ہے اور سمندر کی سطحِ آب سراسر آگ ہے۔
سمندر کی سطح پر لہروں کا بے پناہ تلاطم، ساحل پر کھڑے اس طوفان کو دیکھنے والوں کو ہراساں کر دیتا ہے لیکن جب انسان طوفان میں کود پڑے تو یہ خوف دور ہو جاتا ہے۔ مصیبت کا تصور، مصیبت سے کہیں زیادہ برا ہے۔
مرزا غالب نے یہ غزل عرفی کی ایک زمین میں کہی ہے، اور عرفی کے ایک مصرعے کو اُلٹ دیا ہے۔ عرفی کا مصرعہ ہے "روے دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش است" (چنانچہ اس کا ذکر غالب نے اپنی غزل کے مقطع میں کیا ہے)۔ اس الٹ پھیر سے غالب کے شعر میں ایک فکر کی بلاغت آ گئی ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
شمع پیشت روشنایی نزدِ آتش می‌نماید
گل به دستت خوبرویی پیشِ یوسف می‌فروشد
(سعدی شیرازی)

شمع کا تمہارے مقابل روشن ہونا ایسا ہے گویا وہ اپنی روشنائی آتش کے نزدیک دکھا رہی ہو؛ گُل کی تمہارے دست میں جلوہ گری ایسی ہے گویا وہ اپنی خوب روئی یوسف کے سامنے فروخت کر رہا ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نیست مرا ز خود خبر، بیش از اینکہ در جہاں
مست و خراب آمدم، مست و خراب می روم


شیخ فخرالدین عراقی

مجھے اِس سے زیادہ اپنی کوئی خبر نہیں ہے کہ اِس دنیا میں، مست و خراب آیا تھا اور مست و خراب جاتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
عجب از عقلِ کسانی که مرا پند دهند
برو ای خواجه که عاشق نبوَد پندپذیر
(سعدی شیرازی)

اُن شخصوں کی عقل پر تعجب ہے جو مجھے نصیحت دیتے ہیں؛ جاؤ، اے خواجہ، کہ عاشق نصیحت قبول کرنے والا نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
با هر که هر چه گویی سنجیده بایدت گفت
تا کفّهٔ وقارت پا در هوا نباشد
(بیدل دهلوی)

تم جس سے بھی جو بھی کہو، تمہیں تُلی ہوئی بات کہنی چاہیے تاکہ تمہارے وقار کا پلّہ ہوا میں معلق نہ ہو۔
× پا در هوا = بی‌اصل، بی‌اساس؛ معلّق
 

یاز

محفلین
در راہِ عشق مرحلۂ قرب و بعد نیست
می بینمت عیاں و دعا می فرستمت
(حافظ شیرازی)


عشق کی راہ میں دوری اور نزدیکی کا معاملہ نہیں ہے۔ میں تجھے کھلم کھلا دیکھ رہا ہوں اور تیرے لئے دعا بھیج رہا ہوں۔
 

یاز

محفلین
منگر از چشمِ خودت آں خوب را
بیں بچشمِ طالباں مطلوب را
(مولانا رومی)


اس محبوب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ۔ معشوق کو عاشقوں کی آنکھ سے دیکھ
 
اگر مرادِ نصیحت کنانِ ما اینست
کہ ترکِ دوست بگویم تصورے ست محال
(شیخِ اجل سعدی شیرازی)

اگر ہمارے اندرزگویاں (کی نصیحت) کا مقصد یہ ہے کہ ہم ترکِ دوست کریں تو یہ ایک ایسا تصور ہے جو محال ہے۔
 
اے روئے تو آرام دل خلق جہانی
بے روئےتو شاید کہ نبینند جہان را
شیخ سعدی

اے کہ تیرا چہرہ خلق جہاں کے لئے باعث آرام ہے۔ تیرے چہرے کے دیدار کے بغیر شاید وہ جہاں کو نہ دیکھیں
 

حسان خان

لائبریرین
اے روئے تو آرام دل خلق جہانی
بے روئےتو شاید کہ نبینند جہان را
شیخ سعدی

اے کہ تیرا چہرہ خلق جہاں کے لئے باعث آرام ہے۔ تیرے چہرے کے دیدار کے بغیر شاید وہ جہاں کو نہ دیکھیں
'شایستن' کے معانی یہ ہیں:
لائق ہونا، مناسب ہونا، سزاوار ہونا، درخور ہونا، روا ہونا وغیرہ
اِس مصدر کا شخصِ سومِ مفردِ مضارع 'شاید' یہاں اپنے قدیم معنی میں 'باید' کی طرح استعمال ہوا ہے، لہٰذا مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ ہونا چاہیے:
تیرے چہرے (کے دیدار) کے بغیر لوگوں کا دنیا کو دیکھنا مناسب اور روا نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
ای هنرور ، ای فرنگی ، راستی بدرود باش
کاین چنین خدمت به دنیا و اهل دنیا می کنی

گه چراغ برق سازی ، گه ترن ، گه تلگراف
گاه مومین لوله ای را نغمه پیما می کنی

شیخ ما دیروز را سرمایه امروز کرد
آن توئی کامروز خود را وقف فردا می کنی

بانو عالمتاج قائم مقامی متخلص به ژاله (1946-1883)


اے فرنگی ہنرمند، مرحبا کہ تو دنیا اور اہل دنیا کی کس قدر خدمت کرتا ہے۔
کبھی تو بجلی کے چراغ بناتا ہے، کبھی ٹرین اور کبھی ٹیلیگرام اور کبھی مومی پائپ کے ذریعے نغمہ پیدا کرتا ہے۔
ہمارے شیخ نے گزشتہ کل کو آج کا سرمایہ بنالیا لیکن تو نے اپنے آج کو (آیندہ) کل کے لئے وقف کر دیا ہے۔
ترجمہ: اقبال حیدری
 

یاز

محفلین
حسان بھائی! ذیلی شعر کے ترجمہ سے مطلع فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مرَود معمار کج
 
Top