نظیر نظم۔ پری کا سراپا (خونریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھکاوٹ ویسی ہے) از نظیر اکبر آبادی

فاتح

لائبریرین
پری کا سراپا

خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
پلکوں کی جھَپک، پُتلی کی پھِرت، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہے
عیّار نظر، مکّار ادا، تیوری کی چَڑھاوٹ ویسی ہے

بے درد، ستمگر، بے پروا، بے کل، چنچل، چَٹکیلی سی
دل سخت قیامت پتھر سا اور باتیں نرم رسیلی سی
آنوں کی بان ہٹیلی سی، کاجل کی آنکھ کٹیلی سی
وہ انکھیاں مست نشیلی سی، کچھ کالی سی کچھ پیلی سی
چِتوَن کی دغا، نظروں کی کَپَٹ، سینوں کی لَڑاوٹ ویسی ہے

تھی خوب دوپٹہ کی سر پر سنجاف تمامی کی الٹی
بل دار لَٹیں، تصویر جبیں، جکڑی مینڈھی، سجّی کنگھی
دل لُوٹ نہ جاوے اب کیونکر اور دیکھ نہ نکلے کیونکر جی
وہ رات اندھیری بالوں سے، وہ مانگ چمکتی بجلی سی
زلفوں کی کھُلت، پٹی کی چمت، چوٹی کی گُندھاوٹ ویسی ہے

اس کافر بینی اور نتھ کے انداز قیامت شان بھرے
اور گہرے چاہِ زنخداں میں سو آفت کے طوفان بھرے
وہ نرمے صاف ستارا سے اور موتی سے دامان بھرے
وہ کان جواہر کان بھرے کن پھولوں، بالے جان بھرے
بُندے کی لٹک،جھُمکے کی جھمک، بالے کی ہِلاوٹ ویسی ہے

چہرے پر حسن کی گرمی سے ہر آن چمکتے موتی سے
خوش رنگ پسینے کی بُوندیں، سو بار جھمکتے موتی سے
ہنسنے کی ادا میں پھول جھڑے، باتوں میں ٹپکتے موتی سے
وہ پتلے پتلے ہونٹ غضب، اور دانت چمکتے موتی سے
پاؤں کی رنگاوٹ قہر ستم، دھڑیوں کی جماوٹ ویسی ہے

اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب
اس قد کی زینت قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب
ان ڈبیوں کا آزار بُرا، ان گیندوں کا آسیب غضب
وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب
انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بُندوں کی کساوٹ ویسی ہے

تھی پہنے دونوں ہاتھوں میں کافر جو کڑے گنگا جمنی
کچھ شوخ کڑوں کی جھنکاریں، کچھ جھمکے چوڑی باہوں کی
یہ دیکھ کے عالم عاشق کا سینے میں نہ تڑپے کیونکر جی
وہ پتلی پتلی انگشتیں، پوریں وہ نازک نازک سی
مہندی کی رنگت، فندق کی نبت، چھلّوں کی چھلاوٹ ویسی ہے

تقریر بیاں سے باہر ہے، وہ کافر حسن اہا ہاہا
کچھ آپ نئی، کچھ حسن نیا، کچھ جوش جوانی اٹھنے کا
لپکیں جھپکیں ان باہوں کی، یارو میں آہ کہوں کیا کیا
وہ بانکے بازو ہوش ربا، عاشق سے کھیلے بانک پٹا
پہونچی کی پہنچ پہونچے یہ غضب، بانکوں کی بندھاوٹ ویسی ہے

وہ کافر دھج جی دیکھ جسے سو بار قیامت کا لرزے
پازیب، کڑے، پائل، گھنگرو، کڑیاں، چھڑیاں، گجرے، توڑے
ہر جنبش میں سو جھنکاریں، ہر ایک قدم پر سو جھمکے
وہ چنچل چال جوانی کی، اونچی ایڑی، نیچے پنجے
کفشوں کی کھٹک، دامن کی جھٹک، ٹھوکر کی لگاوٹ ویسی ہے

اک شورِ قیامت ساتھ چلے، نکلے کافر جس دم بن ٹھن
بل دار کمر، رفتار غضب، دل کی قاتل، جی کی دشمن
مذکور کروں کیا اب یارو، اس شوخ کے کیا کیا چنچل پن
کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، پھڑکے بازو تھرکے سب تن
گالی وہ بلا، تالی وہ ستم، انگلی کی نچاوٹ ویسی ہے

یہ ہوش قیامت کافر کا، جو بات کہوں وہ سب سمجھے
روٹھے، مچلے، سو سوانگ کرے، باتوں میں لڑے، نظروں میں ملے
یہ شوخی، پھرتی، بے تابی، ایک آن کبھی نِچلی نہ رہے
چنچل اچپل، مٹکے چٹکے، سر کھولے ڈھانکے، ہنس ہنس کے
قہقہہ کی ہنساوٹ اور غضب ٹھٹھوں کی اڑاوٹ ویسی ہے

کہنی مارے چٹکی لے کے، چھیڑے جھڑکے، دیو ے گالی
ہر آن چہ خوش، ہر دم اچھا، ہر بات خوشی کی چہل بھری
نظروں میں صاف اُڑا لے دل، اس ڈھب کی کافر عیّار ی
اور ہٹ جاوے سو کوس پرے، گر بات کہوں کچھ مطلب کی
رمزوں کے ضلعے، غمزوں کی جُگت، پھبتی کی پھباوٹ ویسی ہے

قاتل ہر آن نئے عالم، کافر ہر آن نئی جھمکیں
بانکی نظریں، ترچھی پلکیں، بھولی صورت، میٹھی باتیں
دل بس کرنے کے لاکھوں ڈھب، جی لینے کی سو سو گھاتیں
ہر وقت پھبن، ہر آن سجن، دم دم میں بدلے لاکھ سجیں
باہوں کی جھپک، گھونگٹ کی ادا، جوبن کی دکھاوٹ ویسی ہے

جو اس پر حسن کا عالم ہے، وہ عالم حور کہاں پاوے
کہ پردہ منہ سے دور کرے، خورشید کو چکر آ جاوے
جب ایسا حسن بھبھوکا ہو، دل تاب بھلا کیونکر لاوے
وہ مکھڑا چاند کا ٹکڑا سا، جو دیکھ پری کو غش آوے
گالوں کی دمک، چوٹی کی جھمک، رنگوں کی کھلاوٹ ویسی ہے

تصویر کا عالم نکھ سکھ سے چھب تختی صاف پری کی سی
کچھ چین جبیں پر اینٹھ رہی، اور ہونٹوں میں کچھ گالی سی
بے دردی سختی بہتیری اور مہر و محبت تھوڑی سی
جھوٹی عیّاری، ناک چڑھی، بھولی بھالی، پکّی پیسی
باتوں کی لگاوٹ قہر ستم، نظروں کی ملاوٹ ویسی ہے

کچھ ناز و ادا، کچھ مغروری، کچھ شرم و حیا، کچھ بانک پنا
کچھ آمد حسن کے موسم کی، کچھ کافر حسن رہا گدرا
کچھ شور جوانی اٹھنی کا، چڑھتا ہے امڈ کر جُوں دریا
وہ سینہ ابھرا جوش بھرا، وہ عالم جس کا جھوم رہا
شانوں کی اکڑ، جوبن کی تکڑ، سج دھج کی سجاوٹ ویسی ہے

یہ کافر گُدّی کا عالم، گھبرائے پری بھی دیکھ جسے
وہ گورا صاف گلا ایسا، بہہ جاوے موتی دیکھ جسے
دل لوٹے، تڑپے، ہاتھ ملے، اور غش کھاوے جی دیکھ جسے
وہ گردن اونچی حسن بھری، کٹ جائے صراحی دیکھ جسے
دائیں کی مزت، بائیں کی پھرت، مونڈھوں کی کھچاوٹ ویسی ہے

جب ایسے حسن کا دریا ہو، کس طور نہ لہروں میں بہیے
گر مہر و محبت ہو بہتر، اور جور و جفا ہو تو سہیے
دل لوٹ گیا ہے غش کھا کر، کریں اور تو آگے کیا کہیے
مل جائے نظیرؔ ایسی جو پری چھاتی سے لپٹ کر سو رہیے
بوسوں کی جھپک، بغلوں کی لپک، سینوں کی ملاوٹ ویسی ہے

نظیرؔ اکبر آبادی​

اس نظم کے چند مصرعے چھایا گنگولی نے بے حد خوبصورت انداز میں گائے ہیں۔ وہ بھی سنیے:
 

طارق شاہ

محفلین

جو اُس پر حُسن کا عالم ہے ، وہ عالم حُور کہاں پاوے
کہ پردہ منہ سے دُور کرے ، خورشید کو چَکّر آ جاوے

جب ایسا حُسن بھبھوکا ہو، دل تاب بَھلا کیونکر لاوے
وہ مُکھڑا چاند کا ٹُکڑا سا، جو دیکھ پری کو غش آوے
:thumbsup2:


تشکّر شیئر کرنے پر ، فاتح صاحب !
بہت خوش رہیں :):)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ فاتح بھائی لاجواب۔۔۔ بہت اعلیٰ

اچھا چند الفاظ کے معنی سمجھ نہیں آئے۔۔۔ ڈشٹ تو رذیل کو کہتے ہیں۔۔۔ تو یہاں کن معنوں میں استعمال ہوا پھر۔۔۔۔
"قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے"

تزّیب کا کیا مطلب ہے؟
"اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب"

اور نبت نبات سے ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
یہ بھی اسی سے ملتا جلتا کلام ہے، نجانے کس کا۔۔۔ ۔حبیب ولی محمد کی آواز

بہادر شاہ ظفر کا
اگلا ہدف یہی کلام ارسال کرنا ہے۔

ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے رُکاوٹ برسوں سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی :)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
چکلے کوٹھے شاعری اور وہ بھی ایسی کہ عورتوں کے اعضا کی ایسی سرجیکل ڈیفینیشنز اور ساتھ مساجد کی تعمیر۔۔۔ یہی کارنامے تھے مغلوں کے
خبردار۔۔۔۔ ثناء خوان تقدیس مشرق کو لاؤ۔۔۔ ثناءخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح شاعر کی عُمر کیا ہوگی اس نظم کی تخلیق کے وقت ؟
شاعر نے یوں تو 95 برس کا ہو کر کوچ کیا ہے لیکن جس قدر تجربات کا نچوڑ اس نظم میں بیان کیا گیا ہے ان تجربات کی وسعت کو جانچتے ہوئے ان کے حصول کے لیے 95 بھی کم لگتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شاعر نے یوں تو 95 برس کا ہو کر کوچ کیا ہے لیکن جس قدر تجربات کا نچوڑ اس نظم میں بیان کیا گیا ہے ان تجربات کی وسعت کو جانچتے ہوئے ان کے حصول کے لیے 95 بھی کم لگتے ہیں۔
ہو سکتا ہے اوور ٹائم لگایا ہو ۔۔۔۔۔ وقت کی قلت کے باعث۔۔۔۔ :rolleyes:
میرے اوپر سوال کا جوا ب بھی دیں۔۔۔۔۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
ہو سکتا ہے اوور ٹائم لگایا ہو ۔۔۔ ۔۔ وقت کی قلت کے باعث۔۔۔ ۔ :rolleyes:
میرے اوپر سوال کا جوا ب بھی دیں۔۔۔ ۔۔ :)
دراصل آپ کے سوالات کے جوابات انتہائی خفیہ و ذاتی نوعیت کے تھے لہٰذا ہم نے سوچا کہ ملنے تو آپ نے آنا ہی ہے تو ملاقات پر تفصیلاً اس اجمال کی جمالیات بیان کر لیں گے۔ :laughing:
لیکن۔۔۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
واہ فاتح
اچھا چند الفاظ کے معنی سمجھ نہیں آئے۔۔۔ ڈشٹ تو رذیل کو کہتے ہیں۔۔۔ تو یہاں کن معنوں میں استعمال ہوا پھر۔۔۔ ۔
"قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے"

تزّیب کا کیا مطلب ہے؟
"اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب"

اور نبت نبات سے ہے؟
ڈشٹ یہاں بد یا بہت برا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
باقیوں کی بابت خفیہ اور ذاتی نوعیت کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بھی نہیں معلوم ;)
حتیٰ کہ کلیات نظیر کے ساتھ جو فرہنگ شایع ہوئی اس میں بھی اس نظم کے تحت صرف تین الفاظ کے معانی لکھ کر جان چھڑا لی گئی ہے ورنہ شاید وہیں سے معلوم ہو جاتا ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دراصل آپ کے سوالات کے جوابات انتہائی خفیہ و ذاتی نوعیت کے تھے لہٰذا ہم نے سوچا کہ ملنے تو آپ نے آنا ہی ہے تو ملاقات پر تفصیلاً اس اجمال کی جمالیات بیان کر لیں گے۔ :laughing:
لیکن۔۔۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ڈشٹ یہاں بد یا بہت برا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
باقیوں کی بابت خفیہ اور ذاتی نوعیت کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بھی نہیں معلوم ;)
حتیٰ کہ کلیات نظیر کے ساتھ جو فرہنگ شایع ہوئی اس میں بھی اس نظم کے تحت صرف تین الفاظ کے معانی لکھ کر جان چھڑا لی گئی ہے ورنہ شاید وہیں سے معلوم ہو جاتا ۔
آج گھر میں مالک مکان سے کہلوا کر کچھ کام کروا رہا ہوں۔۔۔۔ فارغ ہوتے ہی حاضری دوں گا دربار عالیہ پر۔۔۔۔۔ :D
یہ نظیر صاحب بہت ہی گھنے تھے۔۔۔۔۔ :p اپنے دوستوں کے درمیان رکھے کوڈ ورڈز شاعری میں استعمال کرتے رہے۔۔۔۔۔
 
واہ فاتح بھائی لاجواب۔۔۔ بہت اعلیٰ

اچھا چند الفاظ کے معنی سمجھ نہیں آئے۔۔۔ ڈشٹ تو رذیل کو کہتے ہیں۔۔۔ تو یہاں کن معنوں میں استعمال ہوا پھر۔۔۔ ۔
"قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے"

تزّیب کا کیا مطلب ہے؟
"اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب"

اور نبت نبات سے ہے؟
نظیر کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے مطالب شاید نظیر کو بھی معلوم نہ ہوں
یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے الفاظ متروک ہو گئے ہوں علاوہ ازیں ان کے کلام میں مقامی زبانوں کے بہت سے الفاظ بھی شامل ہیں جو ایک محدود علاقے میں بولی جاتی تھیں اس کے باوجود نظیر کے کلام کی ہمہ گیری سے انکار ممکن نہیں
 
پری کا سراپا

خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
پلکوں کی جھَپک، پُتلی کی پھِرت، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہے
عیّار نظر، مکّار ادا، تیوری کی چَڑھاوٹ ویسی ہے

بے درد، ستمگر، بے پروا، بے کل، چنچل، چَٹکیلی سی
دل سخت قیامت پتھر سا اور باتیں نرم رسیلی سی
آنوں کی بان ہٹیلی سی، کاجل کی آنکھ کٹیلی سی
وہ انکھیاں مست نشیلی سی، کچھ کالی سی کچھ پیلی سی
چِتوَن کی دغا، نظروں کی کَپَٹ، سینوں کی لَڑاوٹ ویسی ہے

تھی خوب دوپٹہ کی سر پر سنجاف تمامی کی الٹی
بل دار لَٹیں، تصویر جبیں، جکڑی مینڈھی، سجّی کنگھی
دل لُوٹ نہ جاوے اب کیونکر اور دیکھ نہ نکلے کیونکر جی
وہ رات اندھیری بالوں سے، وہ مانگ چمکتی بجلی سی
زلفوں کی کھُلت، پٹی کی چمت، چوٹی کی گُندھاوٹ ویسی ہے

اس کافر بینی اور نتھ کے انداز قیامت شان بھرے
اور گہرے چاہِ زنخداں میں سو آفت کے طوفان بھرے
وہ نرمے صاف ستارا سے اور موتی سے دامان بھرے
وہ کان جواہر کان بھرے کن پھولوں، بالے جان بھرے
بُندے کی لٹک،جھُمکے کی جھمک، بالے کی ہِلاوٹ ویسی ہے

چہرے پر حسن کی گرمی سے ہر آن چمکتے موتی سے
خوش رنگ پسینے کی بُوندیں، سو بار جھمکتے موتی سے
ہنسنے کی ادا میں پھول جھڑے، باتوں میں ٹپکتے موتی سے
وہ پتلے پتلے ہونٹ غضب، اور دانت چمکتے موتی سے
پاؤں کی رنگاوٹ قہر ستم، دھڑیوں کی جماوٹ ویسی ہے

اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب
اس قد کی زینت قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب
ان ڈبیوں کا آزار بُرا، ان گیندوں کا آسیب غضب
وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب
انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بُندوں کی کساوٹ ویسی ہے

تھی پہنے دونوں ہاتھوں میں کافر جو کڑے گنگا جمنی
کچھ شوخ کڑوں کی جھنکاریں، کچھ جھمکے چوڑی باہوں کی
یہ دیکھ کے عالم عاشق کا سینے میں نہ تڑپے کیونکر جی
وہ پتلی پتلی انگشتیں، پوریں وہ نازک نازک سی
مہندی کی رنگت، فندق کی نبت، چھلّوں کی چھلاوٹ ویسی ہے

تقریر بیاں سے باہر ہے، وہ کافر حسن اہا ہاہا
کچھ آپ نئی، کچھ حسن نیا، کچھ جوش جوانی اٹھنے کا
لپکیں جھپکیں ان باہوں کی، یارو میں آہ کہوں کیا کیا
وہ بانکے بازو ہوش ربا، عاشق سے کھیلے بانک پٹا
پہونچی کی پہنچ پہونچے یہ غضب، بانکوں کی بندھاوٹ ویسی ہے

وہ کافر دھج جی دیکھ جسے سو بار قیامت کا لرزے
پازیب، کڑے، پائل، گھنگرو، کڑیاں، چھڑیاں، گجرے، توڑے
ہر جنبش میں سو جھنکاریں، ہر ایک قدم پر سو جھمکے
وہ چنچل چال جوانی کی، اونچی ایڑی، نیچے پنجے
کفشوں کی کھٹک، دامن کی جھٹک، ٹھوکر کی لگاوٹ ویسی ہے

اک شورِ قیامت ساتھ چلے، نکلے کافر جس دم بن ٹھن
بل دار کمر، رفتار غضب، دل کی قاتل، جی کی دشمن
مذکور کروں کیا اب یارو، اس شوخ کے کیا کیا چنچل پن
کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، پھڑکے بازو تھرکے سب تن
گالی وہ بلا، تالی وہ ستم، انگلی کی نچاوٹ ویسی ہے

یہ ہوش قیامت کافر کا، جو بات کہوں وہ سب سمجھے
روٹھے، مچلے، سو سوانگ کرے، باتوں میں لڑے، نظروں میں ملے
یہ شوخی، پھرتی، بے تابی، ایک آن کبھی نِچلی نہ رہے
چنچل اچپل، مٹکے چٹکے، سر کھولے ڈھانکے، ہنس ہنس کے
قہقہہ کی ہنساوٹ اور غضب ٹھٹھوں کی اڑاوٹ ویسی ہے

کہنی مارے چٹکی لے کے، چھیڑے جھڑکے، دیو ے گالی
ہر آن چہ خوش، ہر دم اچھا، ہر بات خوشی کی چہل بھری
نظروں میں صاف اُڑا لے دل، اس ڈھب کی کافر عیّار ی
اور ہٹ جاوے سو کوس پرے، گر بات کہوں کچھ مطلب کی
رمزوں کے ضلعے، غمزوں کی جُگت، پھبتی کی پھباوٹ ویسی ہے

قاتل ہر آن نئے عالم، کافر ہر آن نئی جھمکیں
بانکی نظریں، ترچھی پلکیں، بھولی صورت، میٹھی باتیں
دل بس کرنے کے لاکھوں ڈھب، جی لینے کی سو سو گھاتیں
ہر وقت پھبن، ہر آن سجن، دم دم میں بدلے لاکھ سجیں
باہوں کی جھپک، گھونگٹ کی ادا، جوبن کی دکھاوٹ ویسی ہے

جو اس پر حسن کا عالم ہے، وہ عالم حور کہاں پاوے
کہ پردہ منہ سے دور کرے، خورشید کو چکر آ جاوے
جب ایسا حسن بھبھوکا ہو، دل تاب بھلا کیونکر لاوے
وہ مکھڑا چاند کا ٹکڑا سا، جو دیکھ پری کو غش آوے
گالوں کی دمک، چوٹی کی جھمک، رنگوں کی کھلاوٹ ویسی ہے

تصویر کا عالم نکھ سکھ سے چھب تختی صاف پری کی سی
کچھ چین جبیں پر اینٹھ رہی، اور ہونٹوں میں کچھ گالی سی
بے دردی سختی بہتیری اور مہر و محبت تھوڑی سی
جھوٹی عیّاری، ناک چڑھی، بھولی بھالی، پکّی پیسی
باتوں کی لگاوٹ قہر ستم، نظروں کی ملاوٹ ویسی ہے

کچھ ناز و ادا، کچھ مغروری، کچھ شرم و حیا، کچھ بانک پنا
کچھ آمد حسن کے موسم کی، کچھ کافر حسن رہا گدرا
کچھ شور جوانی اٹھنی کا، چڑھتا ہے امڈ کر جُوں دریا
وہ سینہ ابھرا جوش بھرا، وہ عالم جس کا جھوم رہا
شانوں کی اکڑ، جوبن کی تکڑ، سج دھج کی سجاوٹ ویسی ہے

یہ کافر گُدّی کا عالم، گھبرائے پری بھی دیکھ جسے
وہ گورا صاف گلا ایسا، بہہ جاوے موتی دیکھ جسے
دل لوٹے، تڑپے، ہاتھ ملے، اور غش کھاوے جی دیکھ جسے
وہ گردن اونچی حسن بھری، کٹ جائے صراحی دیکھ جسے
دائیں کی مزت، بائیں کی پھرت، مونڈھوں کی کھچاوٹ ویسی ہے

جب ایسے حسن کا دریا ہو، کس طور نہ لہروں میں بہیے
گر مہر و محبت ہو بہتر، اور جور و جفا ہو تو سہیے
دل لوٹ گیا ہے غش کھا کر، کریں اور تو آگے کیا کہیے
مل جائے نظیرؔ ایسی جو پری چھاتی سے لپٹ کر سو رہیے
بوسوں کی جھپک، بغلوں کی لپک، سینوں کی ملاوٹ ویسی ہے

نظیرؔ اکبر آبادی​

اس نظم کے چند مصرعے چھایا گنگولی نے بے حد خوبصورت انداز میں گائے ہیں۔ وہ بھی سنیے:
خادِم نے بھی پڑھنے کی کوشش کی ہے ملاحضہ فرمائیں
نظیر اکبر آبادی کی نظم پری کا سراپا سے انتخاب
 
Top