ایسے اشعار پیش کریں جن میں لفظ ”اردو“ استعمال ہوا ہو۔ خواہ وہ اشعار اردویا فارسی کے ہوں یا کسی اور زبان کے۔
جیسے علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:

گیسوئے اردو ابھی منّت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائیِ دل سوزئ پروانہ ہے
 

بھلکڑ

لائبریرین
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
 
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعہ شاہی ! یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ !فائیدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کےجنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
رئیس امروہی
 
اردو کو اک رسالۂ الہام دوں ولی
لوگوں کو دورِ ہادیٔ عالم عطا کروں
محمد ولی رازی
(سیرت کی مشہور غیر منقوط کتاب ”ہادیٔ عالم“ کے مصنف)
 

متلاشی

محفلین
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
میرے خیال سے پہلے والا شعر یوں ہے
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 
چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا
گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا

اس لشکری زبان کی عظمت نہ پوچھیے
عظمت تو خود نشان ہے اردو زبان کا

گم نامیوں کی دھوپ میں جلتا نہیں کبھی
جس سر پہ سائبان ہے اردو زبان کا

مشرق کا گلستاں ہو کہ مغرب کا آشیاں
ویران کب یہ مکان ہے اردو زبان کا

سوداؔ و میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ دیکھ لو
ہر ایک پاسبان ہے اردو زبان کا

اردو زبان میں ہے گھلی شہد کی مٹھاس
لہجہ بھی مہربان ہے اردو زبان کا

ترویج دے رہا ہے جو اردو زبان کو
بے شک وہ باغبان ہے اردو زبان کا

مہمان کہہ رہا ہے بڑا خوش نصیب ہے
جو شخص میزبان ہے اردو زبان کا

یہ ارضِ پاک صورتِ کشتی ہے دوستو!
اور اس میں بادبان ہے اردو زبان کا

لوگو! کہیں بھی اس میں پس و پیش کچھ نہیں
اک معترف جہان ہے اردو زبان کا

بولی ہے رابطے کی یہی جوڑتی ہے دل
ہر دل میں ایسا مان ہے اردو زبان کا

روشن ہے حرف حرف مفہوم اس کا آفریں
شیریں سخن بیان ہے اردو زبان کا

وسعت پذیر دامنِ اردو ہے اآج بھی
ہر گوشہ اک جہان ہے اردو زبان کا

کرتا ہے آبیاری لہو سے ادیب جو
وہ دل ہے ، جسم و جان ہے اردو زبان کا

آئیں رکاوٹیں جو ترقی میں اس کی کچھ
سمجھو یہ امتحان ہے اردو زبان کا

پائے گا جلد منزلِ مقصود بالیقیں
جاری جو کاروان ہے اردو زبان کا

عزت سخنورانِ ادب کی اسی سے ہے
شاعرؔ بھی ترجمان ہے اردو زبان کا


شاعر علی شاعر
 

فاتح

لائبریرین
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

(غلام ہمدانی مصحفی)
مصحفی کے اس شعر کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو کا وہ پہلا شعر ہے جس میں لفظ اردو برائے زبانِ اردو استعمال کیا گیا ورنہ اس سے قبل اردو کے لیے ریختہ وغیرہ کے الفاظ تو شعرا نے برتے تھے لیکن لفظ اردو نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی

غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومن نے سجائی میری خوابوں کی حویلی

ہے ذوق کی عظمت کہ دئیے مجھ کو سہارے
چکبست کے الفت نے میرے خواب سنوارے
فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کو زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

(اقبال اشعر)​
 

الف نظامی

لائبریرین
یارب رہے سلامت اردو زباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جس کے قربان جاں ہماری

مصری سی تولتا ہے ، شکر سی گھولتا ہے
جو کوئی بولتا ہے میٹھی زباں ہماری

ہندو ہو پارسی ہو عیسائی ہو کہ مسلم
ہر ایک کی زباں ہے اردو زباں ہماری

دنیا کی بولیوں سے مطلب نہیں ہمیں کچھ
اردو ہے دل ہمارا ، اردو ہے جاں ہماری

دنیا کی کل زبانیں بوڑھی سی ہو چکی ہیں
لیکن ابھی جواں ہے اردو زباں ہماری

اپنی زبان سے ہے عزت جہاں میں اپنی
گر ہو زباں نہ اپنی عزت کہاں ہماری

اردو کی گود میں ہم پل کر بڑے ہوئے ہیں
سو جاں سے ہم کو پیاری اردو زباں ہماری

آزاد و میر و غالب آئیں گے یاد برسوں
کرتی ہے ناز جن پر اردو زباں ہماری

افریقہ ہو عرب ہو امریکہ ہو کہ یورپ
پہنچی کہاں نہیں ہے اردو زباں ہماری

مٹ جائیں گے مگر ہم مٹنے نہ دیں گے اس کو
ہے جا ن و دل سے پیاری ہم کو زباں ہماری
(اختر شیرانی)​
 
مصحفی کے اس شعر کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو کا وہ پہلا شعر ہے جس میں لفظ اردو برائے زبانِ اردو استعمال کیا گیا ورنہ اس سے قبل اردو کے لیے ریختہ وغیرہ کے الفاظ تو شعرا نے برتے تھے لیکن لفظ اردو نہیں۔
عجیب۔۔۔۔
یعنی شعر میں زبانِ اردو کے لیے اردو کا لفظ سب سے پہلے مصحفی نے کہا۔
کیا نثر میں اس سے پہلے یہ لفظ اردو زبان کے لیے طے کیا جاچکا تھا یا ریختہ کو اردو کا نام دیا ہی مصحفی نے ہے؟
 
ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اُردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
(انور مسعود)​
 

نظام الدین

محفلین
سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسیم دہلوی ہم موجد باب فصاحت ہیں
کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کو آپ تھوپ رہے ہیں جو قوم پر
اردو نوازیوں کے زمانے گزر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم کیسی کس کو اب اردو زباں کی فکر ہے
غم غلط کرنا ہے بس اور آب و ناں کی فکر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جو میں نے کہ ان کی ادا انوکھی ہے
کہا بتوں نے کہ اردو میاں کی چوکھی ہے
 

قربان

محفلین
وقارِ اردو
نہ بجھا ہے نہ بجھے گا یہ چراغِ اردو
آج ہمدوشِ ثریاہے دِماغ اردو
بُو الہوس پائیں گے کیا خاکِ سُراغ اردو
لہلہائے اسی طرح یہ باغ اردو
ہند کی شان ہے یہ عظمت گوتم کی طرح
اب بھی تابندہ ہے پیشانیٔ مریم کی طرح
بزمِ خسرو میں جلی شمع تمنا بنکر
درس اخلاق دیا ہے کہیں گیتا بنکر
کبھی گوپاک کی بنسی کبھی رادھا بنکر
رام کا ساتھ دیا ہے کبھی سیتا بنکر
مشتری بن کے قطب شاہ کے گھر تک پہونچی
بزمِ اربابِ سخن اہل نظر تک پہونچی
کبھی دلیّ کبھی پنجاب کو آباد کیا
رونقِ شامِ اودھ صبح بنارس کی ضیا
عالم وجد سرکی جو ترے سر کی ردا
رنگ و نکہت سے معطر ہوئی پٹنے کی فضا
شوخیاں میر نے سودا نے شرارت دیدی
ناز مومن نے تو غالب نے جسارت دیدی
ذوق نے ساغرِ خورشید میں ڈھالا تجھکو
خونِ دل دے کے ظفر شاہ نے پالا تجھکو
اور ہر گام پہ ناسخ نے سنبھالا تجھکو
فکر آتش نے دیا ایسا اُجالا تجھکو
ڈھل گئی نور کے سانچے میں جوانی تیری
پاگیا میر حسن سحر بیانی تیری
مصحفی نے ترا انداز تکلم سمجھا
تیرے دامن سے ہے وابستہ بہارِ انشا
بزمِ اقبال میں روشن تری حکمت کا دیا
کوئی چکبست سے پوچھے ترا پیمانِ وفا
تیری مستی کا اثر دیدۂ سرشار میں ہے
تیری سطوت کا نشاں جوش کے افکار میں ہے
پوچھئے حضرتِ حالی سے وقارِ اردو
خیمہ زن باغ میں شبلی کے بہار اردو
سرسے کیفی کے نہ اترے گا خمارِ اردو
دل حسینی بھی ازل سے ہے نثار اردو
خوشہ چیں ہیں اسی گلشن کے منیف اور سہیل
سیکڑوں زندۂ جاوید ہیں اردو کی طفیل
ڈاکٹر دل حسینی (مئو،یوپی)
 

محمد وارث

لائبریرین
فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعۂ
اردو کہ بے رنگِ من است


غالب

میری فارسی شاعری دیکھ کہ تجھے رنگ رنگ کہ نقوش نظر آئیں، میرے اردو مجموعے کو چھوڑ دے کہ وہ تو میری بے رنگی ہے۔
 
آخری تدوین:
فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزار از مجموعۂ
اردو کہ بے رنگِ من است


غالب

میری فارسی شاعری دیکھ کہ تجھے رنگ رنگ کہ نقوش نظر آئیں، میرے اردو مجموعے کو چھوڑ دے کہ وہ تو میری بے رنگی ہے۔
ارے واہ بہت خوب۔
دوسرے مصرع میں وزن کا مسئلہ لگ رہا ہے یا میرا وہم ہے۔
اگر "بگزر" ہو اور گ کو ساکن اور ر کو متحرک پڑھا جائے تب شاید وزن درست ہوگا۔
 
فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزار از مجموعۂ
اردو کہ بے رنگِ من است
دوسرے مصرع میں وزن کا مسئلہ لگ رہا ہے یا میرا وہم ہے۔
آپ جیسے وہمی افراد کی اہلِ اردو کو ضرورت ہے۔
سرسری صاحب نے بجا فرمایا۔ وارث بھائی سے غالباً سہو ہو گئی۔ غالبؔ نے بگزر ہی لکھا تھا۔ بگزار سے تو شعر لایعنی ہو جاتا ہے۔ عروض کے منافع ملاحظہ فرمائیے کہ زبان نہ سمجھیں تب بھی شعر کی صحت پہ گرفت ہو سکتی ہے۔
 
Top