فرخ منظور

لائبریرین
شورشِ کائنات نے مارا​
موت بن کر حیات نے مارا​
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا​
مجھ کو میری صفات نے مارا​
ستمِ یار کی دہائی ہے​
نگہِ التفات نے مارا​
میں تھا رازِ حیات اور مجھے​
میرے رازِ حیات نے مارا​
ستمِ زیست آفریں کی قسم​
خطرۂ التفات نے مارا​
موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی​
جس کو مارا حیات نے مارا​
جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن​
ایک نازک سی بات نے مارا​
شکوۂ موت کیا کریں کہ جگر​
آرزوئے حیات نے مارا​
(جگر مراد آبادی)​
 

ملائکہ

محفلین
شاعری صرف ٹائپ کرتا ہوں۔ پڑھتا بہت کچھ ہوں۔ :) ویسے تمہارے دستخط کا شعر بھی بہت سالوں سے یوں ہی ہے۔ اس سے تم بور نہیں ہوئیں؟ :)
ہاں یہ تو آپ نے صحیح کہا:heehee: اب یہ شعر میری پرسنیلیٹی سے میچ نہیں کرتا مجھے بدل دینا چائیے۔۔۔۔:rolleyes:
 
Top